ایمل خٹک
ماسکو اجلاس کے شرکاء نے کابل انتظامیہ کی مسلمہ حیثیت کو تسلیم کرتے ہوئے افغانستان میں پائیدار امن کی قیام کیلئے بین الا فغانی امن مذاکرات کیلئے کوششیں تیز کرنے پر زور دیا ہے اور مخالفین کو قومی دھارے میں لانے کیلئے پہلے سے منظور اور تسلیم شدہ اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھنے اور طالبان سے مذاکرات کیلئے سرخ لکیروں یا شرائط کا تعین کرلیا ۔ مذاکرات کی کامیابی کیلئے طالبان کو تشدد ترک ، افغان آئین کا احترام اور القائدہ سے تعلقات منقطع کرنے ہونگے ۔
کانفرنس کے شرکاء میں چند نکات مثلا میانہ رو اور انتہاپسند عسکریت پسندوں میں تمیز اور امریکہ کے کردار پر اختلافات کے باوجود ماسکو کانفرنس اور اس کا اعلامیہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اور روسی دارالحکومت ماسکو ہی میں چند ماہ قبل منعقدہ سہ فریقی اجلاس کی نسبت موجودہ کانفرنس کا مشترکہ بیان زیادہ بہتر ، واضح اور حقیقت پسندانہ ہے۔ کیونکہ اس میں افغانستان اور اکثر علاقائی ممالک کے تحفظات اور خدشات کو شامل کیا گیا ہے۔
چند ماہ قبل ماسکو ہی میں منعقدہ سہ فریقی اجلاس کی اہم باتوں میں ایک تو تینوں ممالک یعنی روس، چین اور پاکستان نے افغانستان میں امن کے قیام کیلئے افغان لیڈ اور افغان اوون مصالحتی امن پراسس پر زور دیا تھا۔ دوسرا افغانستان میں بگڑتی ہوئی لاء اینڈ آرڈر صورتحال اور انتہاپسند تنظیموں بشمُول داعش کی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے سنگین خطرہ قرار دیا گیا تھا۔ اس طرح افغان حکومت اور مخالفین کے درمیان بامقصد امن مذاکرات ، افغان امن مذاکرات کیلئے سازگار مہیا کرنے کیلئے کئی طالبان راہنماوں کے نام اقوام متحدہ کے پابندیوں کی فہرست سے نکالنے کیلئے لچکدار رویہ اپنانے پر زور دیا گیا تھا۔
مگر سہ فریقی اجلاس کی سب سے بڑی خامی جس پر کافی لے دے بھی ہوئی افغان مسئلے پر منعقدہ کانفرنس میں افغانستان کو مدعو نہیں کرنا تھا۔ اس لئے سب سے زیادہ مخالفت اور ناراضگی کا اظہار افغانستان نے کیا تھا۔ کیونکہ افغانستان کے حوالے سے کانفرنس میں افغانستان کی غیر موجودگی کانفرنس کی کامیابی یا اس کے ممکنہ نتائج پر سوالیہ نشان تھا۔ اگر افغان حکومت نے سہ فریقی اجلاس کو مسترد کیا تھا تو طالبان نے اسے خوش آئند قرار دیا تھا۔ امریکہ اور انڈیا میں بھی اس سہ فریقی اجلاس کے حوالے سے شدید تحفظات موجود تھے۔
سہ فریقی اجلاس میں نظرانداز کئے جانے پر افغانستان کی شدید تحفظات کے بعد روس نے افغان حکومت کو یقین دلایا ہے کہ افغان حکومت ہی افغان عوام کی جائیز نمائندہ ہے۔ اور طالبان کے ساتھ ان کے رابطے انہیں اپنے خدشات سے آگاہ کرنا اور ممکنہ امن مذاکرات کو کامیاب بنانے کیلئے ہیں ۔
افغانستان میں پائیدار امن اور بین الا فغانی امن مذاکرات کی کامیابی کیلئے علاقائی تفاہم کی اشد ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں روسی دارالحکومت ماسکو میں بدھ کے روز منعقدہ ایک روزہ کانفرنس کئی حوالوں سے اہم تھی۔ اس بارافغانستان اور انڈیا کے علاوہ ایران کو بھی شرکت کی دعوت دی گی تھی ۔ کانفرنس کی کاروائی کو مد نظر رکھتے ہوئے علاقے میں کئی نکات پر تفاہم موجود ہے ۔ افغان مسئلے کا فوجی حل ممکن نہیں اور علاقے میں عدم استحکام اور بدامنی کی ایک اہم وجہ افغانستان میں امن و امان کا مسئلہ بھی ہے ۔
افغانستان میں پائیدار امن کے قیام کیلئے افغان حکومت اور مخالفین کے درمیان مذاکرات کی ضرورت پر اتفاق ہے۔ افغان حکومت کو افغان عوام کا جائزنمائندہ سمجھا جاتا ہے ۔ اور طالبان کو قومی مصالحتی عمل میں شامل ہونے کیلئے تشدد کو ترک اور افغان آئین کا احترام کرنے پر بھی اتفاق رائے موجود ہے ۔ اس سلسلے میں افغانستان میں قومی مفاہمت کی حزب اسلامی ماڈل کی عملی مثال دی جاسکتی ہے ۔
اب خطے میں یہ احساس بھی بڑھ رہا ہے کہ مسئلہ افغانستان کے حوالے سے تمام علاقائی اسٹیک ہولڈرز کو آن بورڈ یعنی ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے کیونکہ کسی بھی ایک شراکت دار کو باہر رکھنے سے اس مسئلے کا پائیدار حل ممکن نہیں ۔ اگلے اجلاس میں وسطی ایشیائی ممالک کو بھی شرکت کی دعوت دی جائیگی۔ بعض اراکین امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کی شرکت پر زور دے رہے ہیں لیکن اس سلسلے میں تاحال کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔
ایک تو اسکی ٹایمنگ بڑی اہم ہے ۔ دوسرا اس میں تمام اہم علاقائی اسٹیک ہولڈرز یعنی شراکت دار شامل ہیں ۔ افغان مسئلے میں انڈیا کی شرکت کے حوالے سے پاکستان کی حساسیت کم ہو رہی ہے اور اسلام آباد اب انڈیا کو ایک شراکت دار کی حیثیت سے تسلیم کرنے لگا ہے ۔ تیسرا پاک–امریکہ 0تعلقات میں پید اشد ہ سرد مہری اور پاکستان کی پہلے چین اور اب روس سے قربت بڑھانے کی کوششیں اور مسئلہ افغانستان سمیت کئ اہم علاقائی مسائل کے حوالے سے تینوں ممالک میں افہام وتفہیم بڑھ رہی ہے۔ چین اور روس دونوں علاقے میں عسکریت پسندی کےپھیلاؤ کے خلاف ہیں۔ اس وجہ سے پاکستان پر امریکہ کی علاوہ اب چین اور روس کا بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ رہے گا ۔ افغان مسئلے کے اندرونی اور بیرونی دونوں شراکت داروں میں تھکاوٹ کے آثار نمایاں ہیں ۔ اور اس مسئلے کے سیاسی، سماجی اور معاشی بوجھ تلے دبتے جارہے ہیں۔ بیرونی شراکت دار اب باعزت اور ہموار دستبرداری چاہتے ہیں۔
ماسکو کانفرنس سے خطاب میں افغان مندوب اشرف حیدری نے کہا ہے کہ افغانستان قیام امن کیلئے ہمسایہ ممالک کی کسی بھی جینوئن سرگرمی کی حمایت کرتی ہے ۔ مگر یہ سرگرمی پہلے سے موجود امن پراسس بشمول وہ جس میں امریکہ یا تو شامل ہے یا حمایت کرتا ہے کو تقویت پہنچانے والے ہو نہ کہ اس کے متبادل۔ انہوں نے مسئلہ افغانستان میں امریکہ کے کردار کی حمایت کرے ہوئےکہا کہ امریکہ ایک اہم اتحادی ہے اور وہ اس قسم کے امن پراسس میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔
روس کو مسئلہ افغانستان کے حوالے سے دوبارہ مرکزی اسٹیج پر لانے والوں میں اہم رول روسی سفارت کار ضمیر قابلوف کا ہے جو افغانستان کیلئے روسی صدر ولاڈی میر پوٹین کے خصوصی نمائندے ہیں اور سوویت یونین کے دور میں افغانستان میں سفارتکار رہ چکے ہیں۔ مشرق وسطی میں امریکی پالیسیوں کو چیلنج کرنے کے بعد اب روس جنوب اور وسطی ایشیا میں بھی فعال کردار سے امریکی پالیسیوں کو چیلنج کرنے لگا ہے۔ شام کے مسئلے میں فریق بننے کے بعد روس اب افغان مسئلے میں بھی فعال کردار کرنے کیلئے پر تول رہا ہے۔ دو ماہ سے بھی کم عرصے میں مسئلہ افغانستان پر دو کانفرنسوں کا انعقاد ماسکو کی دلچسپی اور فعال رول ادا کرنے کیلئے سنجیدگی کی غمازی کر رہی ہے۔ پچھلے سال دسمبر کے آخری ہفتے میں ماسکو میں افغانستان میں قیام امن کے سلسلے میں سہ فریقی اجلاس کا انعقاد جس میں روس کے علاوہ چین اور پاکستان نے شرکت کی تھی روس کی افغان منظرنامے پر ابھرنے کی باقاعدہ کوشش تھی۔
امریکہ کاانڈیا کی طرف جھکاؤ اور تعلقات میں سرد مہری اور علاقے میں سفارتی تنہائی سے نکلنے کیلئے پاکستان علاقائی ممالک خاص کر چین ، روس اور ایران کی داعش سے حساسیت کے پیش نظر طالبان کارڈ کو استعمال کر رہا ہے۔ اور اچھے اور برے طالبان کی پالیسی کو ان سے منوا رہا ہے۔ پاکستان کی سہولت کاری سے پہلے چین اور اب روس کے طالبان کے ساتھ تعلقات روزافزوں ہیں ۔ طالبان ان تعلقات کو زیادہ مربوط اور نتیجہ خیز بنانے کیلئے ایران کی طرح روس اور چین کیلئے بھی اپنے خصوصی نمائندے مقرر کرنے کا سوچ رہے ہیں ۔ روس اور چین کی افغانستان میں انتہاپسندوں ( داعش) کو میانہ رو (طالبان) عسکریت پسندوں سے الگ کرنے کی نئی رٹ دراصل پاکستان کی اس پالیسی کی توسیع اور ان کی جانب سے توثیق ہے ۔ اب طالبان کو ختم کرنے کی بجاہے ان سے مذاکرات اور ان کو افغان حکومت میں اکاموڈیٹ کرنے کی باتیں ہو رہی ہے۔ مگر ماسکو کانفرنس میں اس مسئلے پر اختلاف نظر رہا ۔ انڈیا اور افغانستان نے ہر قسم کی عسکریت پسندی کی قلع قمع کرنے کی بات کی ۔
جہاں تک امریکہ کا تعلق ہے تو نئی امریکہ انتظامیہ کو ابھی افغانستان کے حوالے سے کئی اہم فیصلے کرنے ہیں۔ گزشتہ جمعرات کے روز ڈونلڈ ٹرمپ نے صدارت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی بار اپنے افغان ہم منصب سے ٹیلی فون کے زریعے بات چیت کی ہے۔ اور امریکی امداد جاری رکھنے کا عندیا دیا ہے۔ اس بات چیت سے چند گھنٹے قبل افغانستان میں تعینات بیرونی افواج کے امریکی سربراہ جنرل جان نکلسن نے سینٹ کی آرمڈ سروسز کی کمیٹی میں کہا ہے کہ افغانستان میں طالبان کو کمزور کرنے کیلئے چند ہزار مزید فوج کی ضرورت ہے ۔ امریکی جنرل نے ایران اور روس پر طالبان کی حمایت کا الزام بھی لگایا ۔ روس کا نام لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ روس افغانستان میں امریکہ اور نیٹو کو کمزور کرنے کیلئے طالبان کو قانونی جواز فراہم کررہا ہے ۔ روس کے برعکس امریکہ داعش کی نسبت طالبان کو بڑا خطرہ قرار دے رہے ہیں۔ انڈیا افغان مسئلے پر امریکہ کی ہمنوا نظر آرہی ہے ۔
ایک طرف افغان حکومت اور مخالفین کے درمیان طاقت کے توازن کی بات ہورہی ہے اور دوسری طرف امریکی فوجی حکام اس توازن کو توڑنے کیلئے افغانستان میں فوجیوں کی تعداد بڑھانے کا مطالبہ کر رہے ہیں جبکہ روس اور چین وغیرہ اس توازن کو سیاسی ذرائع سے توڑنے کے حق میں ہیں۔ اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن مذاکرات بحال کرنے پر زور دے رہے ہیں ۔
اگر جاری علاقائی کوششیں افغانستان میں قیام امن کیلئے کوئی دیرپا اور قابل عمل منصوبہ یا پروگرام لے کر آتی ہے اور افغانستان میں امن و امان کی صورتحال پر اسکا مثبت اثر پڑتا ہے تو امریکہ کیلئے اس سے بہتر بات کیا ہوسکتی ہے ۔ تحفظات اور شکوک کے باوجود امریکہ کی روس اور چین کے ساتھ افغانستان میں قیام امن کے حوالے سے مشاورت کا سلسلہ بند نہیں ہوا۔ ضمیر قابلوف کے مطابق ماسکو اور نئی امریکی انتظامیہ کے مابین مسئلہ افغانستان کے حوالے سے ابھی تک باقاعدہ رابطہ یا مشاورت نہیں ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ روس موجودہ صورتحال میں افغانستان سے بیرونی افواج کے انخلاء کے خلاف ہے اور وہ امریکہ اور نیٹو سے افغانستان میں قیام امن کیلئے تعاون کیلئے تیار ہے ۔
یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ افغانستان میں پیداشدہ سیاسی اور فوجی سٹیل میٹ یا توازن روس کی سفارتی پہل کاری یا امریکہ اور اس کی اتحادیوں کی فوجی طاقت سے تبدیل ہوگی مگر عالمی اور علاقائی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی چاہے جس مقصد اور مفاد کیلئے ہو افغانستان میں قیام امن کیلئے مفید ثابت ہونگی ۔ ایک طرف پاکستان میں دہشت گردی کی نئی لہر اور ایک ھفتے سے کم وقت میں ملک کے طول و عرض میں آٹھ دہشت گردی کی ہولناک کاروائیاں اور دوسری طرف ماسکو میں علاقائی کانفرنس مسئلہ افغانستان کے فوری اور دیرپا حل کا متقاضی ہے۔
اب پاکستانی پالیسی سازوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ چاہے جو بھی صورتحال ہو جب بھی افغانستان کی حوالے سے علاقائی اور بین الاقوامی امن پراسس ہو تان آکر طالبان پر ٹوٹتی ہے اور آتے آتے توجہ افغان طالبان کی حمایت کیلئے نیک نام یا بدنام پاکستان پر مرکوز ہوجاتی ہے۔ اور امن مذاکرات کیلئے پاکستان پر طالبان میں خیرسگالی اور اثر و رسوخ کو استعمال کرنے کیلئے بالواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ جب پاکستانی پالیسی ساز حسب منشا ڈیلیور نہیں کرتے تو دنیا خفا ہوجاتی ہے ۔ اور جب تک طالبان موجود ہیں یہ چکر اس طرح چلتا رہتا ہے۔
♦