خالد تھتھال
جس رفتار سے سائنس میں نئی نئی دریافتیں اور ایجادات ہو رہی ہیں، اسی رفتار سے مذہب کا دائرہ اثر تنگ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن عمر کے بڑھنے کے نتیجے میں بڑھاپا، موت اور موت کے بعد کی ”زندگی“ کا تصور مذہب کو کسی حد تک آکسیجن مہیا کر رہے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی مذہب کے ماننے والے کے پاس اب یہ آخری ”دلیل“ بچی ہے ” تمہیں مرنے کے بعد پتہ چلے گا۔ اس بات کا تو یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مذہب کی سرحد کہاں ختم ہونے والی ہے لیکن انسانی کھوج کی کوئی انتہا نہیں۔
بہتر خوراک ، بیماری کے نتیجے میں درست تشخیص، مناسب علاج معالجے کی وجہ سے انسانوں کی طبعی عمر ماضی کے مقابلے میں بہت بڑھ چکی ہے۔ لندن کے امپیرئیل کالج کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق 2030 میں جنوبی کوریا جیسے ممالک میں خواتین کی طبعی عمر اوسطاً 90 سال کو چھولے گی۔ جس کی وجہ ان کی خوراک کے علاوہ موٹاپے اور فشار خون جیسے امراض پر قابو پانا ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ بہت زیادہ سائنسدان اس بات پر قائل ہو رہے ہیں کہ بڑھاپا ناگزیر نہیں بلکہ ایک بیماری ہے، جس کا علاج ہو سکتا ہے، جس کی رفتار کم کی جا سکتی ہے یا اسے مکمل طور پر روکا جا سکتا ہے۔ اس سلسلہ میں لومانوسف ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی اور سٹاک ہوم (سویڈن) یونیورسٹی کی تحقیق جرنل ایجنگ نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے جس میں مائٹو کانڈریا اور بڑھاپے کے تعلق کا ثابت کیا گیا ہے۔
معروف روسی ماہر حیاتیات ولادیمیر سکولاچیف کے زیر نگرانی ہونے والی اس تحقیق کیلئے سٹاک ہوم نے خاص قسم کے چوہے مہیا کئے جن میں جینیاتی طور تبدیلی کی گئی تھی۔ اس جنیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ان چوہوں کے جسم میں مائٹو کانڈریا کی مقدار بڑھنے سے چوہے دو سال سے زیادہ عرصہ زندہ رہنے کی بجائے ایک سال سے پہلے ہی مر گئے۔ اور مرنے سے پہلے ان چوہوں میں وہ تمام اثرات اور بیماریاں ظاہر ہونا شروع گئی تھیں جن کا تعلق بڑھاپے سے ہوتا ہے۔
اسی تحقیق میں ایسے چوہوں پر بھی تجربات ہوئے جن کی عمر 100 دن تھی۔ ان چوہوں کے ایک کنٹرول گروپ کو ماسکو یونیورسٹی کی سکولاچیف لبیارٹری میں خصوصی طور پر تیار کردہ” ایس کے کیو 1” نامی معلول پانی میں ملا کر پینے کو دیا گیا۔ یہ معلول مائٹو کانڈریا کے اثرات کو ختم کرتا ہے۔ جب کہ دوسرے گروپ کو سادہ پانی پینے کو دیا گیا۔
سادہ پانی پینے والے چوہوں میں 200 سے 250 دن کے بعد بڑھاپے کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے، جن میں وزن کم ہونا، زیاہ متحرک نہ ہونا، جسم کو آکسیجن کی سپلائی کم ہو جانا اور بالوں کا جھڑنا شامل تھا۔ جب کہ ان کے مقابلے میں دوسرا گروپ جس کو” ایس کے کیو ا” پینے کو دیا گیا تھا۔ ان کی حالت ڈرامائی حد تک بہتر تھی۔
سکولاچیف کا کہنا ہے کہ اس تجربے نے ثابت کر دیا کہ مائٹو کانڈریا کا بڑھاپے کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اس تجربے کا نہ صرف علمی بلکہ عملی فائدہ ہے۔ اان کے بقول ہماری تحقیق نے بڑھاپے کے علاج کا راستہ کھول دیا ہے۔
اس تحقیق کے امید افزا نتائج کی وجہ سے سکولاچیف بڑھاپے کے علاج کیلئے ایک ایسی دوائی کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس کی بنیاد ” ایسکے کیو 1” ہو گی۔بڑھاپے کو روکنے کے اس سلسلے کی پہلی دوائی ویسا میتن ہے، جسے آنکھ میں ڈالا جائے گا۔ اس دوائی کو روس میں منظوری حاصل ہو چکی ہے جب کہ امریکہ میں ہونے والے کلینکل تجربات کے دوسرے مرحلے کو یہ دوائی پاس کر چکی ہے۔
اسی سلسلہ کے د وسرے منصوبے میں “ایس کے کیو1” کی بنیاد پر بننے والی ایک دوائی ہو گی جسے کھایا جا سکے گا۔ اس دوائی پر روس میں کلینکل تجربات جاری ہیں۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو یہ دوائی دو تین سالوں تک دستیاب ہو گی۔
بڑھاپے کو روکنے کیلئے امریکہ میں بھی تحقیقات ہو رہی ہیں، جن میں سان فرانسسکو میں موجود یونیٹی بائیوٹیکنالوجی نامی ایک ادارہ کام کر رہا ہے۔ اس ادارے کے ماہرین خلیات کے عمل کو سمجھ کر بڑھاپے پر قابو پانے کیلئے کوشش کر رہے ہیں۔ کچھ سائنسدان سٹیم بیماری یا بڑھاپے کی وجہ سے متاثرہ ٹیشوز کو بہتر بنانے پر کام کر رہے ہیں۔ ایک نوبل انعام یافتہ سائنسدان کے خیال کے مطابق کروموسوم کے آخر پر ٹیلومیئرز کی لمبائی بڑھانے سے یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔
بڑھاپے کے حوالے سے جس قدر تحقیق ہو رہی ہے، شائد وہ دن زیادہ دور نہیں جب بڑھاپے کو اگر ختم نہ کر دیا گیا تو کم از کم اسے بہت دیر تک ملتوی کر دیا جائے گا۔
مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے
خدا تیری خدائی جا رہی ہے
♦
2 Comments