لیاقت علی
تلہ گنگ چکوال سے 455کلو میٹر دور ضلع کی ایک تحصیل ہے۔ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہونے کے علاوہ اس میں ایسی کوئی خصوصیت نہیں جو اسے اس سطح کے دوسرے شہروں سے ممتاز بناتی ہو۔ پوٹھوہار کے دوسرے شہروں اور قصبوں کی طرح اس کی آبادی کا بڑا ذریعہ معاش افواج پاکستان میں ملازمت ہے۔
تلہ گنگ کا ایک نوجوان جس کا رحجان دینی علوم کی طرف تھا کچھ سال قبل بہتر مستقبل کی تلاش میں امریکہ چلا گیا ۔ امریکہ میں قیام کے دوران اس نوجوان نے ایک مسجد میں امامت کے فرائض انجام دینا شروع کر دیئے ۔ 2009 میں یہ نوجوان واپس اپنے شہر تلہ گنگ آیا اور یہاں پیری مریدی کا سلسلہ شروع کیا ۔ اس کا یہ کام چل نکلا اور دور نزدیک سے دیہاتیو ں کی بڑی تعداد اس کے ’روحانی فیوض و برکا ت ‘ سے مستفید ہونے کے لئے اس کے آستانے پر حاضری دینے لگی۔
ہمارے دیہات میں تعلیم اور شعور کی کمی کے باعث حسد اور کینہ کی وبا بہت عام ہے ۔ چنانچہ ان صاحب کی’ روحانی ترقی‘ بعض افراد کے لئے ناقابل برداشت تھی اور وہ اسے کسی نہ کسی طرح نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے تھے۔
پہلے پہلے ’پیر‘ کے مخالفین نے اسے جھوٹا اور فراڈ ثابت کرنے کی ایک مہم شروع کی لیکن کام نہ بنا۔بعد ازاں ایک رشتہ دار اسد اللہ نے جو سرکاری ملازم ہے، پولیس کو درخواست دی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ’پیر توہین مذہب مرتکب‘ کا ہو ا ہے ۔ یہ درخواست وصول ہونے کی دیر تھی ایس۔ایچ۔او نے آؤ دیکھا نہ تاؤ ’پیر ‘ کے خلاف 295 اے بی سی تعزیرات پاکستان کے تحت توہین مذہب کی ایف آئی آر کاٹ کر ’پیر‘ کو گرفتار کر لیا۔ توہین مذہب کا پرچہ درج ہونے کی دیر تھی ’دین کی محبت میں سرشار‘ مذہبی انتہا پسند وں نے ’ سر تن سے جدا ‘ کے نعرے لگاتے ہوئے تھانے اور کچہری کے چکر لگانے شروع کر دیئے ۔
توہین مذہب کا مقدمہ درج ہوتے ہی یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ ملزم نے لازمی توہین مذہب کا ارتکاب کیا ہوگا ۔ یہی کچھ اس مقدمے میں بھی ہوا ۔ نہ صرف ’پیر‘ بلکہ اس کے اہل خانہ، رشتہ داروں اور دوست احباب کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیں ۔ جو کوئی بھی ’پیر‘ کی مدد کے لئے آگے بڑھتا اسے قتل کی دھمکی پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیتی تھی۔
جب ’پیر ‘ کے لواحقین نے اس کی ضمانت کے لئے عدالت سے رجوع کرنے کیا تو پتہ چلا کہ تلہ گنگ بار ایسوی ایشن نے ایک قرارداد کے ذریعے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی وکیل ’پیر‘ کو قانونی معاونت فراہم نہیں کرے گا ۔ لواحقین نے اس مشکل کا حل یہ نکالا کہ اسلام آباد کے ایک وکیل کو مقدمے کی پیروی کے لئے راضی کر لیا۔درخواست ضمانت دائر کی گئی لیکن ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے درخواست کو مسترد کر دیا ۔
ماحول کو مولوی حضرات نے انتہائی کشیدہ بنا دیا تھا ۔ مولوی حضرا ت کی بڑی تعداد ہر تاریخ پیشی پر حاضر عدالت ہوتی تھی جس کا مقصد دباؤ ڈالنا ہوتا تھا۔ یہ دباؤ ہی کا نتیجہ تھا کہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج نے سماعت سے معذوری کرتے ہوئے مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چکوال کی عدالت کو منتقل کر دیا ۔
متعدد رکاوٹوں اور مشکلات کو عبور کرتے ہوئے یہ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ساجد اعوان کی عدالت میں سماعت کے لئے پیش ہوا ۔جج صاحب نے مقدمہ کی سماعت مکمل کی لیکن فیصلہ سنانے سے قبل چیف جسٹس ہائی کورٹ کو لکھا کہ ماحول انتہائی کشیدہ ہے جس کی بنا پر وہ فیصلہ نہیں سناسکتے۔ لہذا مناسب ہوگا کہ مقدمہ کو کسی دوسری عدالت میں منتقل کر دیا جائے۔
ہائی کورٹ نے یہ مقدمہ ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج جہلم ممتاز حسین کی عدالت میں بھیج دیا ۔ انھوں نے اڈیالہ جیل میں اس مقدمہ کی سماعت کی اور 30۔جنوری 2012کو اس کا فیصلہ سنادیا ۔انھوں نے ’پیر‘ کو موت کے ساتھ دس سال قید اور دولاکھ جرمانے کی سزا سنائی ۔
اس سزا کے خلاف ’پیر‘ نے چوہدری محمود اختر ایڈووکیٹ کی وساطت سے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں اپیل دائیرکی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ملزم کے خلاف توہین مذہب کا الزام بے بنیاد ہے اور ملزم بے گناہ ہے ۔ پانچ سال بعد یہ اپیل 2017 میں ہائی کورٹ میں فکس ہوئی اور عدالت نے سیشن کورٹ کی عدالت سے ملنے والی تمام سزاؤں کو ختم کرتے ہوئے ملزم کو بری کرنے کا حکم دیا ۔
ابھی عدالت نے مختصر فیصلہ سنایا ہے تفصیلی فیصلہ ابھی آنا باقی ہے ۔ عدالت اپنی تفصیلی فیصلے میں یقیناًان وجوہات کا ذکر کرے گی جن کی بنا پر ملزم کو بری کیا گیا ہے لیکن ایک بات اس حوالے بہت اہم ہے : کیا عدالت توہین مذہب کا جھوٹا الزام لگانے والے کو کوئی سزا دے گی کہ نہیں؟
توہین مذہب کے زیادہ تر مقدمات ذاتی رنجش اور جائداد ہتھیانے کے لئے بنائے جاتے ہیں ۔ جس پر یہ مقدمہ ایک بار قائم ہوجاتا ہے وہ چاہے اس میں بری بھی ہوجائے اس کا عام زندگی گذارنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوجاتا ہے ۔کیا ’پیر‘ کے لئے ممکن ہوگا کہ وہ رہائی کے بعد پاکستان میں رہ سکے۔ ماضی کے واقعات کو پیش نظر رکھا جائے تو ایسا ممکن نہیں ہے۔
♥