شاہد اقبال خان
مان لیجیے کہ خون کے لوتھڑے میرے لیے بکاؤ مال ہیں اور مجھے ریٹنگ حاصل کرنے کے لیے انہیں سب سے پہلے عوام کو دکھانا ہے۔ مجھے اس سے کوئی غرض نہیں کہ وہ کسے کسے خوف میں مبتلا کر دیں کیونکہ میں خود غرض صحافی ہوں۔ مان لیجیے کہ لاشوں کی تعداد اور سسکیوں کی آواز میرے لیے دولت کا سامان ہے کیونکہ مجھے یہ سب دکھا کر دنیا کو ڈرا کر اور خود کو مظلوم دکھا کر ڈالرز ملتے ہیں کیونکہ میں پاکستان کا بالواسطہ یا بلاواسطہ بے حس حکمران اور “کرتا دھرتا” ہوں۔
میرے نصیب میں صرف مرنا ہی نہیں سسک سسک کراورخون میں لت پت ہو کر مرنا ہے مگر مجھے اس سب سے نجات کے لیے سوچنا بھی منع ہے کیونکہ میں پاکستانی عوام ہوں۔چلیے ایک صرف ایک لمحے کے لیے پابندی کی چادر اتار کر سوچتے ہیں کہ آخر یہ سب ہی ہمارا مقدر کیوں ہے؟؟
سات سال پہلے کی بات ہے۔ یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم تھے اور ہمیشہ کی طرح شہباز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب۔ شہباز شریف صاحب نے طالبان کے نام ایک خط لکھا جس کا لب لباب یہ تھا “پنجاب نو جان دیو باقی ساری خیر اے” یعنی کہ پنجاب کو دھماکوں سے بخش دو باقی ساری خیر ہے۔ پھر سارا پاکستان لہو لہان ہوتا رہا مگر پنجاب پر امن رہا۔
عوام کے دل میں شدید خواہش نے سر اٹھایا کہ کاش!!! پنجاب جیسا ہی مسیحا ہمارا وزیر اعظم بن جائے تاکہ پورے ملک میں امن ہو جائے۔ اب ملک پر شریفوں کی حکومت ہے اور بدمعاشوں نے لاہور کو لہو لہو کر دیا ہے۔
پنجاب میں دہشت گردوں کی تین قسمیں ہیں۔ مغربی اور جنوبی پنجاب کے غیر ملکی فنڈنگ سے چلنے والے مدرسے، جنوبی پنجاب کے وڈیرے اور وسطی پنجاب کے کرپٹ کاروباری حضرات اور سیاستدان۔ ان مدرسوں کو غیر ملکی ایجنسیاں فنڈ فراہم کرتی ہیں اور یہ مدرسے ان کو خود کش بمبار مہیا کرتے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے وڈیرے اور وسطی پنجاب کے کرپٹ سیاستدان اور بزنس مین ان مدرسوں کے بدمعاشوں کو لوگوں کی پراپرٹی زبرستی ہتھیانے اور بندوق کی نوک پر ووٹ حاصل کرنے میں استعمال کرتے ہیں اور پھر الیکشن جیت کر جواب میں ان دہشت گردوں کو قانونی اور سیاسی تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ پنجاب کے دہشت گردوں میں جتنا اتفاق ہے کاش پاکستانی قوم میں بھی ہوتا۔
جب معاشرے میں کسی ایک طبقے پر ظلم ہوتا ہے تو اس طبقے کو ایک ایسے مسیحا کی ضرورت پڑتی ہے جو ان کو ان کے حقوق دلوا سکے مگر عام طور پر وہی مسیحا ان کے حقوق کے نام پر ذاتی طاقت اور دولت اکھٹی کرتا ہے اور حقوق کی جنگ بس سیاسی نعرہ بن کر رہ جاتی ہے۔ الطاف حسین نے بھی کراچی میں حقوق کے نام پر دہشت گردوں کی ایسی فوج تیار کی کہ روشنیوں کا شہر کراچی اندھیروں کی آماجگاہ بن گیا ۔ الطاف حسین کے ہیرو سے زیرو کے سفر میں تو رینجرز بہت حد تک کامیاب رہی ہے مگر آج بھی الطاف حسین کے کمانڈر ان چیف فاروق ستار، مصطفی کمال اور وسیم اختر جیسے لوگ آزاد پھر رہے ہیں اور ان کو اگلے الیکشن میں “مناسب حصہ” دینے کے بھی پوری منصوبہ بندی یو چکی ہے مگر پھر بھی کراچی کو مستقل امن کا خواب کیوں بیچا جا رہا ہے؟؟
بلوچستان کی کہانی سب سے الگ ہے۔ بلوچستان میں سادہ لوح بلوچوں کو ان کے حقوق غضب کرنے والے سرداروں نے ہی حقوق کے نام پر ایسے بھڑکایا کہ انہیں قاتل مسیحا لگنے لگا اور مسیحا قاتل۔ مگر ہمارے اعلیٰ عسکری اور سیاسی دماغوں کو اکیس توپوں کی سلامی کہ انہوں نے بھڑکتی آگ کو سیاسی مصالحت سے نمٹنے کی بجائے فوجی طاقت کا پٹرول ڈال کر بجھانے کی کوشش کی اور ابھی بھی اسی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ براہمداغ بگٹی اب بھی بلوچوں کا ہیرو ہے اور بلوچستان میں امن اسے مار کر نہیں بلکہ اسے ہیرو سے ولن بنا کر ہی آسکتا ہے۔
روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو مان لیتے ہیں کہ اس کا اگلا ہدف پاکستان تھا اور اسے وہاں روکنے کے لیے طالبان کا وجود ضروری تھا۔ یہ بھی مان لیتے ہیں کہ افغان مہاجرین کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دینا بھی انسانی حقوق کی پاسداری کا معاملہ تھا مگر کیا ان افغانیوں کی پاکستان میں شادیاں کرانا اور انہیں بغیر رجسٹریشن کے پاکستان میں رہنے کی اجازت دینا بھی ٹھیک تھا؟ انہیں ہر طرح کے ہتھیار کے ساتھ پاکستان میں گھومنے پھرنے کی اجازت دینا بھی ٹھیک تھا؟
جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو دوبارہ سے بہت سے طالبان اور افغانی پاکستان آئے اور یہاں پختونخواہ اور فاٹا میں اپنے رشتے داروں کے پاس مقیم ہو کر افغانستان میں اپنی آزادی کی جنگ لڑتے رہے۔ پٹھان قوم کے لیے انہیں واپس افغانستان جانے کا کہنا ممکن نہیں تھا کیونکہ ان کی یہاں رشتہ داریاں تھیں اور پٹھان قوم کی غیرت گوارہ نہیں کرتی کہ رشتہ داروں کو جانے کا کہا جائے۔ امریکی پریشر پر جب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے پٹھانوں کو کہا کہ وہ ان افغانیوں کو واپس بھیجیں تو انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر ان کے خلاف ایک نہ ختم ہونے والا آپریشن شروع ہوا اور ایک ایک کر کے پٹھان قبیلے اس آپریشن کے خلاف طالبان گروپ میں شامل ہوتے رہے اور تحریک طالبان پاکستان کا وجود عمل میں آیا۔
اگر یکسوئی سے تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی کی جاتی تو ہو سکتا ہے کہ کچھ عرصے بعد امن قائم بھی ہو جاتا مگر ہم نے طالبان کو بھی تقسیم کر دیا۔ جو طالبان صرف افغانستان میں پاکستان سے بیٹھ کر کاروائی کرے اسے معافی ہے حالانکہ اصل فساد تو شروع ہی اس بات سے ہوا تھا اور جو طالبان پاکستان میں کارروائی کرے اسے سزائے موت ہے۔ افغان ایسٹیبلشمنٹ نے بھی آہستہ آہستہ یہی پالیسی اختیار کر لی۔ اب وہاں جو طالبان پاکستان میں حملے کرتے ہیں انہیں پورا پروٹوکول دیا جاتا ہے اور جو افغانستان میں حملے کرے اسے سختی سے کچلا جاتا ہے۔ در اصل طالبان اب پاکستانی اور افغان ایسٹیبلشمنٹ کو کمال طریقے سے لڑا کر اپنے مقاصد حاصل کر رہے ہیں۔
مگر ہم عام عوام ہیں اور ہمیں یہ سب سوچنا منع ہے۔ اگر سوچا تو اس جنت سے نکال دیے جائیں گے یا اٹھا لیے جائیں گے۔ اس لیے ہر دھماکے کے بعد ٹی وی کوریج دیکھیے، فوج اور حکومت کے دہشت گردی کو کچلنے کے آہنی عزم کو سنیے دہشتگردوں پر دوحرف بھیجیے اور عمران خان کو طالبان خان کہ کر سکون سے ٹی وی بند کر کے سو جایے تاکہ اگلے دن کسی اور حملے کی خبر سننے کے لیے ذہن کو ریلیکس کیا جا سکے۔
♦