بھارتی پریس سے :ظفر آغا
وہ ایک مصرعہ ہے جو اب ایک مثل بن چکا ہے، وہ کچھ یوں ہے: ’’ گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے ‘‘۔ یہ مصرعہ اس وقت اتر پردیش میں بی جے پی پر صادق آرہا ہے۔ بات یہ ہے کہ عین یو پی اسمبلی انتخابات کے درمیان ریاستی بی جے پی میں بغاوت اور پھوٹ پڑی ہے ، اور ستم یہ کہ باغی کوئی اور نہیں بلکہ کل تک خود جو بی جے پی کی جانب سے ریاست کے عہدہ وزیر اعلیٰ کے دعویدار تھے۔
یوں تو یو پی میں تقریباً ہر ضلع سے بی جے پی میں بغاوت کی خبریں آرہی ہیں۔ لیکن سب سے خطرناک خبر مشرقی اتر پردیش کے قدآور لیڈر یوگی آدتیہ ناتھ کے گروپ کی بغاوت ہے۔ یوگی آدتیہ ناتھ سنگھ پریوار اور بی جے پی کے کوئی معمولی لیڈر نہیں ہیں بلکہ یہ شہر گورکھپور کے صدیوں پرانے مٹھ کے مکھیا ہیں اور ہندو یوا واہنی کے سربراہ بھی ہیں۔ یہ مٹھ خصوصاً گاؤ رکھشا میں پیش پیش رہتا ہے اور کم از کم مشرقی اتر پردیش کے ایک درجن اضلاع میں اس کی شاخیں ہیں۔ اس کے ممبران زمین پر اپنی گرفت رکھتے ہیں اور آر ایس ایس اور بی جے پی کے ہندوتوا ایجنڈہ کو لاگو کرنے کے لئے اپنی جان نچھاور کرنے کو تیار رہتے ہیں۔ سوامی آدتیہ ناتھ سے ان کی گہری عقیدت ہے۔
یہ تو رہا سوامی آدتیہ ناتھ کی بی جے پی کے لئے اہمیت کا خلاصہ۔ اب ذرا دیکھیئے کہ ہوا کیا، اور موصوف بی جے پی سے کیوں خفا ہوگئے۔ دراصل انہوں نے 2002 میں ہندو یوا واہنی تنظیم قائم کی تھی جو خصوصاً ہندوتوا ایجنڈہ مثلاً ’ لو جہاد ‘ اور ’ گاؤ رکھشا ‘ جیسے پروگرام کو لاگو کرنے کیلئے پیش پیش رہتی تھی ان کے کام سے متاثر ہوکر 2014 کے لوک سبھا چناؤ میں آدتیہ ناتھ کو گورکھپور لوک سبھا حلقہ انتخاب سے ٹکٹ دیا گیا۔ اسوقت وہاں کی بی جے پی نے یہ پوسٹر لگائے کہ آدتیہ ناتھ کو ووٹ دیجئے کیونکہ مودی جی ان کو وزیر بناکر گورکھپور کی ترقی میں مدد کریں گے۔
ظاہر ہے گورکھپور کی ترقی سے خود آدتیہ ناتھ کی ترقی مراد تھی۔ مگر مودی چناؤ جیت گئے اور وزیر اعظم بھی بن گئے لیکن آدتیہ ناتھ کی امیدوں پر پانی پھر گیا۔ ان کو وزارت کے بجائے ٹھینگا ملا۔ ظاہر ہے کہ اندر ہی اندر غصہ بھرگیا۔ اسوقت سوامی جی کو یہ کہتے ہوئے بہلا پھسلا دیا گیا کہ جب یو پی کے چناؤ ہوں گے تو انہیں وزیر اعلیٰ کا امیدوار نامزد کیا جائے گا۔ بات آئی گئی ہوگئی۔ جب چناؤ آئے تو آدتیہ ناتھ نے ہندو یوا واہنی کے کوئی درجن بھر افراد کے لئے پارٹی ٹکٹ کی فہرست جمع کی۔ ایک تو آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کیلئے نامزد نہیں کیا گیا پھر ان کے لوگوں کو صرف دو ٹکٹ ملے۔ بس پھر کیا تھا صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا اور ہندویواواہنی نے کھلی بغاوت کردی۔ اب ہندو یوواواہنی بی جے پی باغیوں کی فہرست کا اعلان کررہی ہے۔ واہنی کے اعلان کے مطابق ہندویوا واہنی کے ورکرس اس وجہ سے ناراض ہیں کہ بی جے پی نے آدتیہ ناتھ جی کو ذلیل کیا ہے۔ مشرقی یو پی کے لوگوں کی خواہش تھی کہ آدتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کا امیدوار بنایا جائے۔ لیکن بی جے پی نے اس خواہش کو درکنار کردیا ہے۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہندویووااہنی مشرقی یو پی کے 64حلقوں پر اپنے امیدوار کھڑے کرے گی۔
اس کو کہتے ہیں کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑے۔ جی ہاں، اس وقت اتر پردیش بی جے پی اولوں کی چوٹ سے زخمی ہے اور یہ چوٹ خود اس کے اپنے پریوار کے ہندوتوا سپاہیوں کے ہاتھوں برداشت کرنی پڑ رہی ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اتر پردیش بی جے پی چناؤ کے سربراہ اور پارٹی صدر نے جو حکمت عملی بنائی ہے اس کے مطابق یو پی کے جو دگج و پرانے بی جے پی لیڈر تھے ان کا قد کم کرنے کیلئے نئے لوگوں کو ٹکٹ دیئے جائیں۔ اسی حکمت عملی کے تحت یو پی میں آدتیہ ناتھ اور ہندویووا واہنی جیسوں کو ان چناؤ میں سبق دیا جارہا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف گورکھپور یعنی مشرقی اترپردیش بلکہ پوری ریاست میں چاروں طرف سے بغاوت کی خبریں آرہی ہیں اور امیت شاہ خود اپنی فوج سے گھرتے چلے جارہے ہیں۔
یو پی چناؤ کے درمیان خود پارٹی کی اندرونی بغاوت بی جے پی کے لئے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔ پھر آپس میں اور جھگڑے نہ ہوں اس کی وجہ سے بی جے پی نے صوبہ میں کسی کو وزیر اعلیٰ کے عہدہ کیلئے کو نامزد نہیں کیا ہے بس قد آور راج ناتھ سنگھ جیسے دوچار بڑے لیڈروں کی اولادوں کو ٹکٹ دیئے گئے ہیں۔ اس صورتحال میں چناؤ کی جیت اور ہارکی پوری ذمہ داری مودی جی کے کاندھوں پر ہے۔ مودی جی جب لوک سبھا کا چناؤ لڑے تھے تو ملک کو ان سے بڑی اُمیدیں تھیں۔ اب ان کو اقتدار میں آئے تقریباً تین برس ہونے والے ہیں۔ چناؤ کے وقت بی جے پی نے جو سبز باغ دکھائے تھے وہ سیاہ ہوگئے ہیں کیونکہ نہ تو کہیں اسمارٹ سٹی نظر آرہی ہے اور نہ ہی بلٹ ٹرین جیسے خواب پورے ہوتے نظر آرہے ہیں۔ سوچھ بھارت اور میک اِن انڈیا جیسے نعرے بھی کھوکھلے ہوگئے ہیں۔
پھر ستم یہ کہ نوٹ بندی نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے اور کسان بھیک مانگنے کی نوبت کو پہنچ چکا ہے۔ ان حالات میں حالیہ اسمبلی چناؤ میں مودی جی کا جادو کس حد تک چل پائے گا کہنا مشکل ہے۔ پھر یہ مت بھولیے کہ لوک سبھا کی شاندار جیت کے بعد ارویند کجریوال نے بی جے پی کو دہلی چناؤ میں دھول چٹا دی تھی۔ ان سب سیاسی حالات میں اتر پردیش بی جے پی کے قدآور لیڈر آدتیہ ناتھ جیسے لوگوں کی بغاوت حالیہ چناؤ میں پارٹی کیلئے کوئی خوش آئند خبر نہیں ہے۔ پنجاب میں بی جے پی کی نیا ڈوبتی نظر آرہی ہے۔ ممبئی میں شیوسینا نے میونسپل چناؤ میں بی جے پی سے ناطہ توڑ لیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ گوا اسمبلی چناؤ میں آر ایس ایس اور کچھ اور ہندو تنظیموں نے بی جے پی کے خلاف چناؤ لڑنے کا اعلان کردیا ہے۔
حالیہ اسمبلی چناؤ کے نتائج جو بھی ہوں لیکن اب یہ طے ہے کہ مودی جی کے خلاف خود سنگھ پریوار میں ہلچل پیدا ہوگئی ہے۔ کہیں یہ ہلچل کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ تو نہیں جو مودی جی کو مہنگی پڑ جائے۔
♥