آصف جاوید
دنیا کے بیس بڑے ممالک کے بارے میں مستقبل کے اقتصادی جائزے اور عالمی اکنامک ورلڈ آرڈر پر دی لانگ ویو نامی پی ڈبلیو سی کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی معیشت 2030ء تک دنیا کی 32 طاقتور ترین معیشتوں میں شامل ہوجائے گی اور 2030ء تک دنیا میں پاکستانی معیشت کا نمبر 20 واں ہو جائے گا ۔ جو کہ 2050ء تک بڑھ کر 16 ہوجائے گا، اور سال 2050 تک پاکستانی معیشت ،کینیڈا اور اٹلی کی معیشت کو بہت پیچھے چھوڑ جائے گی ، جبکہ عالمی معیشت کا حجم دوگنا ہوجائے گا۔
قارئین اکرام ، ہنسیں بالکل نہیں ۔ بلکہ مذاق بھی نہ اڑائیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ حیران ہوں گے کہ سال 2016 میں جس ملک کی آدھی آبادی خطِ غربت کے نیچے مفلسی کی زندگی گزار رہی ہو، جس ملک کی معیشت آئی ایم ایف ، ورلڈ بینک، ورلڈ فوڈ آرگنائزیشن اور ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کی کڑی شرائط میں جکڑی ہوئی ہو۔ جس ملک کی آمدنی کا انحصار آئی ایم ایف کے قرضوں اور دولت مند ممالک سے فوجی و اقتصادی امداد پر ہو، درآمدات و برآمدات کا توازن بری طرح بگڑا ہوا ہو، جس ملک کو بیرونی طور پر جارحیت اور اندرونی طور پر دہشت گردی کا سامنا ہو۔ جس ملک کی فوج گذشتہ 20 سالوں سے اندرونی طور پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہو، آئی ایم ایف کے قرضے کی تلوار سر پر لٹک رہی ہو، جس ملک میں توانائی کا شدید ترین بحران ہو، سستی بجلی نہ ہونے کی وجہ سے صنعتیں دم توڑ رہی ہوں، سی پیک کے علاوہ بیرونی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہو، ملکی سرمایہ اور صنعتیں ملک سے باہر منتقل ہورہی ہوں۔
ایسے حالات میں اگر کوئی اس ملک کے بارے میں یہ رپورٹ دے کہ اگلے 13 برسوں میں مذکورہ ملک دنیا کی 32 طاقتور ترین معیشتوں میں شامل ہوجائے۔ تو یہ بات فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے نجومی کی فال یا کسی دیوانے کا خواب محسوس ہوگی۔ مگر جس رپورٹ کا میں ذکر کررہا ہوں، یہ خبر یا رپورٹ کوئی میرے دماغ کی اختراع نہیں ہے۔ بلکہ دنیا کی ممتاز ترین اقتصادی ریٹنگ ایجنسی پرائس واٹر ہاؤس کُوپرز کی مستقبل میں دنیا کی معیشتوں کے بارے میں ایک اقتصادی جائزہ رپورٹ ہے۔
قارئین اکرام ، مزید بات کرنے سے پہلے میں ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کو پی ڈبلیو سی یعنی اقتصادی ریٹنگ ایجنسی پرا ئس واٹر کُوپر کے بارے میں کچھ معلومات فراہم کردوں ۔ پی ڈبلیو سی، پرائس واٹر کُوپر ایک اقتصادی ریٹنگ ایجنسی ہے، جس کا کام دنیا کی معیشت پر نظر رکھ کر معلومات و اعداد و شمار جمع کرنا اور پھر ان معلومات اور اعدادو شمار کی بنیاد پر اقتصادی جائزہ رپورٹیں شائع کرنا ہے اقتصادیات کی دنیا میں ریٹنگ ایجنسیوں کی طرف سے دئے گئے اشارہ جات، مستقبل کی پیش بندیوں اور منصوبہ سازی کے کاموں میں بہت معاون ثابت ہوتے ہیں۔
عالمی شہرت یافتہ فرم پرائز واٹر ہاؤس کوپر (پی ڈبلیو سی) نے پیش گوئی کی ہے کہ پاکستانی معیشت 2030ء تک دنیا کی 32 طاقتور ترین معیشتوں میں شامل ہوگی جبکہ 2050ء تک پاکستانی معیشت کینیڈا اور اٹلی کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ بین الااقوامی مالیاتی فرم پی ڈبلیو سی کی جانب سے رپورٹ سال 2050ء میں عالمی اکنامک آڈر کیسے تبدیل ہوگا، جاری کر دی گئی ہے۔ دی لانگ ویو نامی اس رپورٹ میں 32 ممالک کی معیشت کا ذکر کیا گیا ہے جس میں پاکستان کا 20 واں نمبر ہے۔
اقتصادی فرم نے ملکوں کی درجہ بندی قوت خرید اور جی ڈی پی میں اضافے کے تناسب سے کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 2050ء میں چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت بن جائے گی، 2030ء تک پاکستانی معیشت کا نمبر 20 واں ہوگا جو کہ 2050ء تک بڑھ کر 16 واں ہو جائے گا۔ سال 2050ء تک پاکستانی معیشت کینیڈا اور اٹلی کو پیچھے چھوڑ دے گی۔ جبکہ عالمی معیشت دوگنی ہوجائے گی۔ رپورٹ کے مطابق روس یورپ کی بڑی معاشی طاقت بن جائے گا۔ برطانیہ بریگزٹ کو فالو کرتے ہوئے اپنی معیشت کو اوپن کردے گا، ترکی کی معیشت کا انحصار سیاسی استحکام پر رہے گا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ویتنام، بھارت اور بنگلہ دیش کا گروتھ ریٹ صرف پانچ فیصد سالانہ رہے گا، تین دہائیوں تک ان ممالک کی معیشت اسی رفتار سے بڑھے گی جبکہ ترقی پذیر ممالک معاشی ترقی کا انحصار باہمی تجارت پر رہے گا، جس ملک کی تجارت ترقی کرے گی اس کی معیشت اسی رفتار سے آگے بڑھے گی۔ رپورٹ میں چین پہلے، امریکا دوسرے جبکہ بھارت تیسرے نمبر پر ہے۔ رپورٹ میں ان 32 ممالک کے منصوبوں، خریداری کی طاقت اور عالمی مجموعی ملکی پیداوار کا جائزہ لیا گیا تھا۔ پرائس واٹر ہاؤس کوپرز کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت 2050ء تک دوگنی ہو جائے گی۔ چین، بھارت، امریکا اور انڈونیشیا ٹاپ فائیو میں شامل ہو سکتے ہیں، فرانس ٹاپ ٹین جبکہ اٹلی ٹاپ 20 کی فہرست سے نکل جائے گا۔
قارئین اکرام، آئیے پاکستان کی معیشت کا ایک طائرانہ جائزہ لیتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت کودرج زیل خطرات اور چیلنجز لاحق ہیں۔ اندرونی و بیرونی قرض کا بڑھتا ہوا بوجھ، کا لے دھن کی عفریت، ، سیلز ٹیکس، کسٹم ڈیوٹی، ریگولیٹری ڈیوٹی، مختلف اقسام کے ٹیرف، سرچارج اور حکومتی لیوی سے بوجھل ٹیکسیشن کا نظام ، زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی، درآمدات اور برآمدات کا بگڑا ہوا توازن، بڑھتے ہوئے دفاعی اخراجات اور جنگی جنون، بیرونی سرمایہ کاری میں مسلسل کمی، افراطِ زر کی شرح میں مسلسل اضافہ۔ سٹیٹ بنک آف پاکستان نے اپنی حالیہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ ملک میں جی ڈی پی کی شرح نمو چار سے پانچ فیصد رہے گی۔
اگر سٹیٹ بنک کی بات کو درست تسلیم کر بھی لیا جائے تو بھی اس امر کا تعین کرنا بہت اہم ہے کہ یہ شرح نمو کیسے حاصل کی جا رہی ہے اور اس کا عوام کی حقیقی زندگی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ قارئین اکرام جی ڈی پی میں شرح نمو ایک بہت ہی پُر فریب پیمانہ ہے۔
جو اپنے اندر بہت خوفناک تضادات چھپائے ہوئے ہوتا ہے۔ جی ڈی پی میں اضافہ تو ایک فائیو اسٹار ہوٹل کی تعمیر یا کسی بڑے بڑے پر تعیّش مہنگے اسپتال کی تعمیر سے بھی ہوسکتا ہے۔
مگر کیا، اس فائیو اسٹار ہوٹل اور مہنگے اسپتال کی تعمیر سے غریب آدمی کو ہوٹل کی تفریح یا علاج کی سہولتیں میسّر آجائیں گی ؟ اگر افراط، زر اور کالے دھن کی بدولت اسٹاک مارکیٹ میں سٹّے بازی اور رئیل اسٹیٹ کی قیمتوں میں تیزی آئے گی، تو بالواسطہ طور پر جی ڈی پی میں تو اضافہ ہو گا۔ مگر عام آدمی کیلئے رہائش کا حصول کتنا مشکل ہو جائے گا ؟ کیا یہ اسٹیٹ بنک نے اپنی رپورٹ میں بتایا؟ پاکستان کی جی ڈی پی میں موجودہ مصنوعی شرحِ نمو پاک چائنا اقتصادی راہداری کی آڑ میں شروع کئے جانے والے انفرا سٹرکچر کے منصوبے ہیں، جو چائنا سے بھاری سود پر قرض لے کر شروع کئے جارہے ہیں۔
پاکستان میں جی ڈی پی میں شرح نمو میں اضافے کی ایک اہم وجہ اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرح سود کو کم کر کے چھ فیصد پر لے آنا بھی ہے ۔ جس سے ایک طرف تو حکومت کیلئے اندرونی قرضوں کا حصول آسان ہو گیا ہے، وہیں دوسری طرف نجی شعبے کو بھی سستا سرمایہ میسر آگیا ہے ، جسے وہ کسی پیداواری شعبے میں لگانے کے بجائے سٹاک مارکیٹ اور رئیل اسٹیٹ کی سٹے بازی میں اندھا دھند لگا رہا ہے۔ جی ڈی پی کی شرح میں مصنوعی اضافے کے باوجود بیروزگاری اور مہنگائی میں جو خوفناک اضافہ ہورہا ہے، کیا اسٹیٹ بنک نے اس کی کوئی وجہ بتائی ہے؟
پاکستانی معیشت کا ایک قابلِ ذکر حصہ مجرمانہ سرگرمیوں پر مبنی ہے۔ جرائم کی اس معیشت میں منشیات خصوصاً ہیروئین کی پیداوار اور اسمگلنگ، اسلحہ کی اسمگلنگ، انسانوں کی اسمگلنگ، اغوا برائے تاوان، دہشت گردی کی صنعت، چوری ڈکیتی، قحبہ گری، ٹیکس چوری، بجلی و گیس چوری، ٹمبر مافیا، لینڈ مافیا، بھتہ خوری، جعل سازی سمیت ہر قسم کے جرائم شامل ہیں، اور یہ سب جی ڈی پی کی شرح نمو میں حصّہ دار ہیں۔
قارئین اکرام پاکستان کے بارے میں پرائس واٹر ہائوس کوپر ز کی رپورٹ جی ڈی پی میں شرحِ نمو کی پروجیکشن سے اخذ شدہ ہے۔ پر فریب جی ڈی پی گروتھ کی موجودگی میں پرائس واٹر ہاؤس کوپرز کی رپورٹ خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ اقتصادی جائزہ ایجنسی پرائس واٹر کوپر نے اسٹیٹ بنک آف پاکستان کی رپورٹوں اور جن اعداد و شمار و معلومات کی بنیادوں پر اپنی رپورٹ شائع کی ہے ، کیا ان اعداد و شمار کی صحت اور سچّائی کی تصدیق آزاد ذرائع سے کرلی گئی تھی؟ کیا پرائس واٹر ہاؤس نے حکومت کی جانب سے فراہم کئے گئے اعداد و شمار کے پلندے میں سے پہلے سچ اور جھوٹ کو سائنسی بنیادوں پر الگ کیا تھا؟ پاکستان کے موجودہ زمینی حالات، سیاسی و اقتصادی صورتحال اور اوپر اٹھائے گئے سوالوں کے جوابات کی تصدیق کے بغیر پرائس واٹر ہا ؤس کوپر کی رپورٹ پر بھروسہ کرکے خوش آئند مستقبل کے خواب دیکھنا ، ہمارے خیال میں ایک احمقانہ فعل ہی سمجھا جائیگا۔
♠