علی احمد جان
یہ بات پاکستان میں مسلمہ ہے کہ چھوٹے صوبوں، آزاد کشمیر ، فاٹا اور گلگت بلتستان میں تو وہی جماعت کامیاب ہوتی ہے جس کی اسلام آباد میں حکومت ہو۔ ان علاقوںمیں انتخابات کے دوران پاکستان کے وزیر اور مشیر کھلم کھلا مداخلت کرتے ہیں ، انتخابی عمل میں حصہ لیتے ہیں اور لوگوں کو متاثر کرنے کے لئے ترقیاتی کاموں کے سچے جھوٹے اعلانات بھی کرتے ہیں۔ اگر ان کے اس اقدام کو پاکستان کے قانون اور آیئن کی خلاف ورزی اس بنا پر نہیں سمجھا جاتا ہے کہ گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں ان قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا ہے۔
اگر ایسا ہے تو پھر کن قوانین کے تحت وہاں کے باشندوں کو سزایئں دی جاتی ہیں ، سمجھ میں نہیں آتا کہ کیسے کسی ملک کے قوانین کا اس کے اپنے شہریوں پر اطلاق نہیں ہوتا۔ برجیس طاہر اور قمر الزمان کائرہ کس قانون کے تحت وفاقی وزیر ہوتے ہوئے گلگت بلتستان کے گورنر بھی ہو سکتے ہیں حالانکہ پاکستان کا قانون کہتا ہے کہ ایک شخص دو جگہوں سے تنخواہ نہیں لے سکتا۔ یہاں تو ایک ہی خزانے سے تنخواہ کے ساتھ پنشن اور تا حیات مراعات بھی لےلئے جاتے ہیں ۔
چلو مان لیتے ہیں کہ اگر وہ اپنے کسی وزیر مشیر کو اس کی کار کردگی کے انعام کے طور پر نوازنا چاہے تو گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے لوگوں کو بلا کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ لیکن جب یہاں کے باشندوں کے ساتھ کسی قسم کی تفریق ہوتی ہے تو وہ مزاحمت ضرور کرتے ہیں۔ اس طرح کی ایک تفریق جنرل ضیاء الحق کے مارشلائی دور میں گلگت بلتستان کے مقامی اور غیر مقامی سرکاری ملازمین کے درمیان کی گئی جس میں آخرالذکر کو پچیس فیصد اضافی الاؤنس دیا گیا تھا ۔ اس امتیازی سلوک کے خلاف گلگت بلتستان کے مقامی ملازمین نے تحریک چلائی اور برابری کے حق کے حصول تک جاری رکھی تھی ۔
ایک دفعہ پھر گلگت بلتستان کی سرکار کا ایک خط دیکھ کر میرے ہوش و حواس اڑ گئے ہیں جس میں سرکاری فنڈ کی اسمبلی کے ممبران میں تقسیم میں سرکاری جماعت سے تعلق رکھنے والے ممبران اور حزب اختلاف کے ممبران کے بیچ تفریق کی گئی ہے۔ یہ شائد کسی سرکاری مہر کیساتھ واحدایسا خط ہے جس میں ریاستی وسائل کی تقسیم میں ان لوگوں کو انتہائی بے شرمی اور ہٹ دھرمی کیساتھ سزا دی گئی ہے جنھوں نےا سلام آباد میں بر سر اقتدار جماعت کو ووٹ نہ دینے کا گناہ کیا ہے۔
اگر یہ تعصب نہیں ہے تو پھر جنوبی افریقہ کی سفید فام سرکار تو بالکل ہی متعصب نہیں تھی جس سے آزادی کے لئے نیلسن منڈیلا نے اپنی آدھی زندگی عقوبت خانوں میں گزاردی۔ اگر یہ تعصب نہیں تو ہندوستان میں کونسا تعصب اور تفریق ہے جس کی بنیاد پر کشمیری آزادی مانگتے ہیں اوراسرائیل کی کون سی جانبداری ہے جس سے آزادی کے لئے فلسطینی جدوجہد کر رہے ہیں۔ اگر کسی مہذب جمہوری ملک میں ایساسرکاری خط لکھا گیا ہوتا اور لوگوں کے درمیان کسی سرکار نے ایسی تفریق کی ہوتی تو طوفان برپا ہوتا اور ایسا کرنے والے جیل میں ہوتے۔ یہاں کسی عدالت کا ایسے تعصبی اقدام کے خلاف نوٹس نہ لینا یا خود اپوزیشن کے ممبران کا اس تفریق کے خلاف مذاہمت نہ کرنا ہماری سرد مہری اور نااہلی کا ثبوت ہے۔
منتخب عوامی نمائندے اپنے متعلقہ انتخابی حلقوں کی نیابت کرتے ہیں ان کے ساتھ کسی قسم کا امتیاز پورے حلقے کے عوام کیساتھ امتیازی سلوک سمجھا جاتا ہے۔ شہریوں کے ساتھ سیاسی، مذہبی، نسلی، علاقائی یا لسانی بنیادوں پر کسی قسم کا اامتیاز نہ صرف پاکستان کے آئین اور دستور سے انحراف ہے بلکہ اقوام متحدہ کے چارٹر کی بھی خلاف ورزی ہے جس کا پاکستان دستخطی ہے۔
گلگت بلتستان کی حکومت کا سرکاری جماعت اور اپوزیشن کے ارکان میں سرکاری وسائل کی تقسیم میں امتیاز سنگین تعصب پر مبنی قدم ہے جس کے ان متاثرہ حلقوں کی سماجی اور معاشی ترقی پرانتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ اگر اس طرح کے امتیاز کو نہ روکا گیا تو اگلے اقدام میں ان حلقوں کی ترقی ہی روک دی جائیگی جہاں کے لوگوں نے بر سر اقتدار جماعت کو ووٹ نہ دیا ہو اور پھر دیگر انتقامی کاروائیاں ہونگی جو ریاست کے ماں ہونے کے تصور کو ختم کردیں گی۔
جمہوری حکومتیں ، ملوکیت یا سلطنت نہیں ہوتی ہیں جہاں بادشاہوں اور سلاطین کے شاہی فرامین پر امور مملکت چلائے جاتے ہوں۔ جمہوری حکومتیں اپنے عوام کو جوابدہ ہوتی ہیں اور یہ جوابدہی عوام کے منتخب ایوانوں کے ذریعے ہوا کرتی ہے۔ اگر اس اسمبلی کے ارکان کے خلاف اس قدر امتیاز برتا جارہا ہو ں تو ایک غریب شخص کے حقوق کا تحفظ کیسے ہو سکتا ہے؟ اگر اس حلقے کو مالی وسائل کی فراہمی میں اس قدر تعصب برتا جا رہا ہو جہاں سے حکمران جماعت کو ووٹ نہیں ملاہے تو پھر نوکریوں اور دیگر حقوق کی فراہمی میں کتنا امتیاز ہو رہا ہوگا؟
اس طرح کے واقعات کا کھلم کھلا ہونا تاریخ کی بد ترین آمریتوں میں بھی نہیں دیکھا گیا ۔ ایک دفعہ ایک گروپ کے گلگت بلتستان کونسل کے انتخابات کا بایئکاٹ کے نتیجے میں کچھ حلقے بغیر نمائندگی کے رہ گئے تو ان حلقوں کے ترقیاتی فنڈ قریب کے حلقوں کے نمائندوں کے زریعے وہاں خرچ کئے گئے تھے تاکہ کوئی امتیاز نہ رہے۔ مگر اب کی بار تو حد ہوگئی۔
اگر سرکاری وسائل پر صرف حکمران جماعت کا حق ہے تو پھر کسی قانون یا دستور میں لکھ دیا جائے تاکہ یہ کام قانونی اور دستوری طریقے سے ہو سکے۔ اس بات پر بھی لوگوں کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر یہ بھی لکھ دیا جائے کہ اسلام آباد میں جس جماعت کی حکومت ہو وہی جماعت اپنے من پسند افراد کو مختلف حلقوں سے نامزد کرکے گلگت بلتستان میں حکومت بنادے گی اور انتخابات کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ اس طرح کم از کم سرکاری وسائل کی منصفانہ تقسیم تو ہوسکے گی ۔ مگرجب انتخابات کروادئے گئے ہیں تو کم از کم عوامی فیصلے کا احترام کیا جائے اور اس طرح کے قرون وسطیٰ کے اقدامات سے گریز کیا جائے۔
کسی بھی دشمن ملک کی ایجنسیاں اگر زیادہ سے زیادہ کسی دوسرے ملک کو نقصان وہاں کے عوام کو ریاست سے متنفر کر کے پہنچا سکتی ہیں۔ اگر کسی ملک کی سرکار بنفس نفیس یہ کام اپنے سیاسی تعصب اور امتیاز پر مبنی اقدامات خود ہی سے کر رہی ہو تو وہاں کسی اور ملک کی ایجنسیوں کی سازشوں کی بلا کیا ضرورت رہ جاتی ہے۔ اگر گلگت بلتستان کو فراہم کردہ وسائل کسی اتفاق فاؤنڈری کے منافع یا کسی جدہ، جاتی امرا ءاور قظر وغیرہ سے آتے ہوں ہوں تو عوام کو ان وسائل کی تقسیم پر بالکل کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔
اگر یہ وسائل پاکستان کے عوام کے ٹیکس کے پیسے سے سے آتے ہیں تو ان وسائل کی تقسیم بھی پاکستان کے قانون اور آئین کے دائرہ کار میں آتی ہوں گی۔ ایسے میں پاکستان کے عوام ، یہاں کی حکومتوں ، عدالتوں، قومی سلامتی کے ادروں ، میڈیا اور سول سوسائٹی کو ایسے تعصب اور امتیاز کا نوٹس لینا ہوگا۔ بصورت دیگر گلگت بلتستان کے عوام یہ سمجھیں گے کہ یہ حکومت پاکستان کی قومی پالیسی ہے کہ جو اسلام آباد میں قائم سرکار کا وفادار نہیں ہوگا اس کو ہر قسم کے شہری حقوق سے محروم کردیا جائے۔
آج دنیا جب ہر قسم کے تعصبات اور امتیاز کے خلاف متفق ہے تو ایسے میں گلگت بلتستان کی سرکار کو ایسی تنگ نظری اور سیاسی تعصب سے روکنا ہوگا ورنہ ہم دوسرے ممالک کے ایسے متعصب اقدامات کے خلاف بات کس منہ سے کریں گے۔
♦