وارسا کے ہوائی اڈے پر بہت رش تھا۔امیگریشن کاونٹر کے سامنے لمبی لمبی قطاریں تھیں۔ پہلی لمبی قطار یورپین یونین کے پاسپورٹ رکھنے والوں کی تھی۔دوسری اور انتہائی طویل قطار دوسر ے تمام پاسپورٹ رکھنے والوں کی تھی۔ اس طرح آگے بھی مختلف قطاریں تھیں۔میں دوسری قطار کے آخر میں کھڑا ہوگیا۔یہ قطار بہت سست رفتاری سے آگے بڑھ رہی تھی۔ میں ٹو رانٹو سے جنیوا جا رہاتھا۔اور پولش ائیر ویز کے طیارے سے اتر کر اس قطار میں لگا تھا۔
میں جنیوا جاتے ہوئے چند گھنٹوں کے لیے پولینڈ کے اس اس تاریخی شہر کو دیکھنا چاہتا تھا جو اپنی عظیم ارکیٹیکٹ سے زیادہ واسار پیکٹ جیسے تاریخی معاہدے کی وجہ سے مشہور ہے۔۔کوئی کنیڈین پاسپورٹ والے اگر اس قطار میں ہیں تو میرے ساتھ آئیں۔ ہمارے پیچھے سے ایک خاتون نے آواز لگائی۔۔ میں اور ایک اور کنیڈین قطار سے نکل کر خاتون کے ساتھ ہو لیے۔خاتون نے ہمیں ایک ایسے کاونٹر پر پہنچایا جہاں کوئی نہیں تھااور شکریہ ادا کر کہ چلی گئی۔میں نے اپنا پاسپورٹ کاونٹر پر بیٹھی ہوئی ایک ادھیڑ عمر خاتون کے سامنے رکھا۔اس خاتون نے دو دفعہ پاسپورٹ کی تصویر اور میرے چہرے کو بہت غور سے دیکھا اور بغیر ایک لفظ کہے سنے پاسپورٹ پر مہر لگائی ، شکریہ ادا کیا اور پاسپورٹ واپس کر دیا۔
میں نے یہ سمجھا کہ میں وارسا میں محض ٹرانزٹ پر ہوں۔ اس لیے اس خاتون نے کوئی سوال کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ میری اگلی منزل جنیوا ہے اس لیے شاید وہاں ہی میری امیگرین ہو۔مگر میں جب جنیوا میں اترا تو ہمیں بغیر امیگرین کے گرین چینل کے ذریعے جانے کو کہا گیا۔جنیوا ائیرپورٹ پر جو دوست مجھے لینے ائے تھے انہوں نے پوچھا کے اپ کچھ حیران سے لگ رہے ہیں ،خیریت تو ہے۔میں نے ان کو بتایا کہ اگر یہ حیرت ہے تو یہ بڑی خوشگوار حیرت ہے۔
چونکہ آج دو یورپین ائرپورٹس پر جو سلوک ہمارے ساتھ ہوا ہم اس کے عام طور ر عادی نہیں ہیں۔ہم نے ایک عرصے تک پاکستانی پاسپورٹوں پر سفر کیا جس پر نظر پڑتے ہی امیگریشن آفیسر کے تیور بدل جاتے تھے۔کبھی لائن سے نکال دیا جاتا ، کبھی لائن میں لگا دیا جاتااور کبھی طویل پوچھ گوچھ ہوتی۔نہ ہم دہشت گرد تھے، نہ ڈرگ ڈیلر او نہ کبھی جعلی ویزے پر سفر کیا ،اس کے باوجود امیگریشن والوں کی محض اس پاسپورٹ کی وجہ سے ہم پر خاص نظر عنایت ہوتی۔ اور اپنے اس نا روا رویے پر کبھی کسی امیگریشن افیسر نے معذرت کرنے کی زحمت تک نہ کی ۔پھر جب ہم نے کنیڈین پاسپورٹ پر سفر کرنے کا لطف اٹھانے کا ابھی آغاز ہی کیاتھا کہ اوپر سے نائین الیون کا واقعہ ہو گیا۔
پھر کنیڈین پاسپورٹ کے باوجود اگر کسی افسر کی نظرجائے پیدائش والے خانے پر پڑھ جاتی تھوڑی بہت صفائی کا موقع نکل ہی آتا۔اس طرح کے واقعات و حوادث سے بار بار گزرنے والے شخص کے ساتھ اگر اچانک بلکہ الٹا سلوک ہو یعنی لائن سے نکال کر پوچھ گچھ کے بجائے ، لائن سے نکال کرخصوصی سہولت اور عنائیت فرمائی جائے تو دل کی دھڑکن تھوڑی بہت تیز بھی ہوتی ہے۔اورخوشگوار حیرت بھی۔ایسے موقع پر احساس ہوتا ہے کہ اگرچہ ہم نے جلاوطنی کا روگ ضرور برداشت کیا مگر سب کچھ رائیگاں نہیں گیا ۔ شائد اپنا وطن چھوڑ کر ہم نے غلطی ضرور کی ، اور بے بسی میں کی ،مگر کنیڈا جیسے ملک کا انتخاب کر کے شائد ہم نے زندگی کا سب سے درست فیصلہ کیا۔
کینیڈا اگرچہ تاریخی اعتبار سے عالمی برادری میں بہت ہی محترم رہا ہے مگر درمیان میں کچھ حکومتیں ایسی بھی آگئیں تھی جن کی وجہ سے اس کے احترام و توقیر میں کچھ کمی آگئی تھی۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم کے انتخاب کے بعد نا صرف کنیڈا کا روایتی احترام بحال ہو رہا ہے بلکہ اس شخص کے ذاتی کرشمے کی وجہ سے اس میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔
میں نے پہلے بھی عرض کیاتھا کہ مجھے جب کبھی سفر کرنے یا آن لائن کسی غیر ملکی سے مکالمے کا موقع ملتا ہے تو مجھے یہ یہ دیکھ کر خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا پرائم منسٹر غیر ملکیوں میں خصوصاً نوجوان نسل میں کس قدر مقبول ہے۔اس طرح کے فخر کا احساس مجھے بچپن میں ذولفقار علی بھٹو یا سردار ابراہیم کے بارے میں ہوتا تھا۔ حالانکہ ان تین مذکورہ بالا شخصیات کے نظریات یا خیالات سے ہمارا کبھی پورا اتفاق نہیں رہا۔
بہرحال میں بات کرر ہاتھا جنیوا کے سفر کی۔میں یہاں جنیوا میں اقوام متحدہ کی ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے آیا ہوں ۔میں اس اجلاس میں لائیرز رائٹس واچ کینیڈا کی نمائندگی کر رہاہوں۔ یہی کینیڈین وکلاء کی تنظیم ہے جو دنیا بھر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے وکلاء اور ججز اور انسانی حقوق کے لیے لڑنے والے لوگوں کی مدد کے لیے سرگرم ہے۔
اس تنظیم کا تازہ ترین اعزاز یہ ہے کہ اس نے سعودی عرب کے مشہور قیدی وکیل جناب ولید ابو الخیر کے رہائی کے لیے بڑے پیمانے پر لابنگ کی ہے جس پر لا سوسائٹی آف کینیڈا کی طرف سے ان کو سالانہ ایوارڈ بھی دیا گیا۔ یہ ایوارڈ ابو خیر کے قید میں ہونے کی وجہ سے ان کے ایما پر ھماری ہی تنظیم کے نمائندے نے گزشتہ ہفتے ٹورنٹو میں وصول کیا ہے۔ کالم کی جگہ ختم ہو گئی ، اس لیے ہیومن رائٹس کونسل کے اجلاس اور جنیوا میں دیگر سرگرمیوں پر ان انشا اللہ آئندہ کالم میں بات ہوگی۔
♦