اینڈرسن شاہ
اسلامی لبرل ازم کا مفہوم لبرل ازم کے مخالفین کو اب بہت کھٹکنے لگا ہے جس میں ہمارے خیال میں مسلمانوں کی خلاصی پنہاں ہے خاص کر اگر ذیل کی باتوں کا خاص خیال رکھا جائے:۔
۔1۔ ہمیں مذہب اور مذہبی شدت پسندوں کے درمیان فرق کرنا ہوگا جنہوں نے اسلامی لبرل ازم کی بھرپور مخالفت کی کیونکہ مصری فلسفی مراد وہبہ کے مطابق مذہب “ایمان”ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی ایک مخالف”عقیدہ” ہے۔
۔2۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مذہبی انتہاء پسند جو “اسلامی لبرل ازم” کے مخالف ہیں انہوں نے ایمان کو عقیدہ بنا رکھا ہے جسے وہ اپنے سیاسی، مذہبی اور فکری مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
۔3۔ “اسلامی لبرل ازم” اپنی ذات اور اقدار میں ایک مذہب ہے جبکہ مذہبی شدت پسندی اجتہادات، احکامات اور سزاؤوں کا ایک ملغوبہ ہے۔
۔4۔ یہ بھی یاد رہے کہ اسلامی لبرل ازم کے حامی خواص ہیں جبکہ اس لبرل ازم کے مخالفین عوام ہیں اور عوامی مذہب کے پیروکار ہیں۔
۔5۔ اسلامی لبرل ازم کے پیروکاروں کا مقصد اچھے لوگ پیدا کرنا اور امن ومحبت کا پیغام دینا ہے جبکہ اس کے مخالفین کا مقصد دہشت گرد پیدا کرنا ہے تاکہ”مطلق حقیقت” کے دفاع کے لیے مسلح جد وجہد کی جاسکے جس پر کوئی بحث نہیں کی جاسکتی کہ یا تو آپ ہمارے ساتھ ہوجائیں یا مر جائیں، یہی کچھ ساری تاریخ میں ہوتا آیا ہے، سقراط انہی مطلق حقیقت کے حامل شدت پسندوں کا شکار ہوا تھا جب اس نے ان کا سامنا کیا اور ان کا مذاق اڑایا، مہاتما گاندھی، اسحق رابین اور انور السادات بھی انہی لوگوں کا شکار ہوئے تھے اور اب یہ لوگ ساری دنیا میں تباہی وبربادی لانے کے لیے کوشاں ہیں۔
۔6۔ اسلامی لبرلز اور اس کے متشدد مخالفین کے درمیان جو سخت اختلاف ہے وہ اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ لبرل فکر مقدس مذہبی مُتون کو ابن رشد کی طرح تاریخی اور مجازی طور پر سمجھنے کی دعوت دیتی ہے جس کے مطابق ایک ظاہری اور دوسرا باطنی (مجازی) معنی ہوتا ہے اسی طرح ایک معنی عوام کے لیے ہوتا ہے اور ایک خواص کے لیے، یوں اسلامی لبرل ان مقدس مُتون کو حرفی طور پر پڑھ کر سمجھنے کی مخالفت کرتے ہیں۔
گزشتہ صدی کی تیس کی دہائی میں مصر کے طہ حسین نے “السیاسۃ” اخبار میں اپنے کالموں میں تعلیم اور اس کی اہمیت پر انتہائی سختی سے زور دیا، تعلیم کے حوالے سے ان کا فلسفہ تعلیم کی مفت دستیابی پر زور دیتا تھا تاکہ امیر وغریب، کالے اور سفید، مسلم وغیر مسلم کو تعلیم کے مساوی مواقع میسر آسکیں، مزید برآں انہوں نے تعلیم کو جمہوریت سے منسلک کرنے کی تجویز دی اور کہا کہ جو ریاست تعلیم کو عام نہیں کرتی وہ ایک غیر جمہوری ریاست ہے۔
اپنی کتاب”مستقبل الثقافۃ فی مصر” میں وہ کہتے ہیں کہ جمہوری ریاست کو ابتدائی تعلیم کی دستیابی کا پابند ہونا چاہیے، وہ کبھی بھی تعلیم اور اس کی اہمیت پر زور دینے سے باز نہیں آئے، اپنی مختلف کتابوں میں جیسے: روح التربیۃ، القصر المسحور، احلام شہرزاد، شجرۃ البؤس، المعذبون فی الارض، ودیگر میں انہوں نے تعلیم اور اس کی بے شمار قدروں پر روشنی ڈالی اور بتایا کہ پسماندگی، جہالت اور غربت سے چھٹکارا تعلیم کے بغیر ممکن نہیں، سب کے لیے بلا استثناء تعلیم کی یہ دعوت”اسلامی لبرل ازم” کی ایک اہم، گہری اور بنیادی قدروں میں شامل ہے، مزید برآں طہ حسین کے مطابق اسلام بھی دسیوں مقامات اور مُتون میں تعلیم کی اہمیت کی بار بار تلقین کرتا ہے اور اس پر زور دیتا نظر آتا ہے۔
جب طہ حسین نے اپنی کتابیں: علی ہامش السیرۃ، الشیخان، علی وبنوہ، مرآۃ الاسلام ودیگر شائع کیں تو اسلامی لبرل ازم کے مخالفین کو لگا کہ طہ حسین ان کتابوں کے ذریعے اپنے اس لبرل ازم سے تائب ہوگئے ہیں اور کنایتاً معافی طلب فرما رہے ہیں جس کا اظہار انہوں نے اپنی کتاب”فی الشعر الجاہلی” میں کیا تھا، یہ مخالفین یہ بات نہ سمجھ سکے کہ طہ حسین اپنی ان کتابوں میں یہ کہہ کر اپنے فکری لبرل ازم کی مزید تاکید کر رہے تھے کہ تاریخی حقائق کو لازماً جانچ پڑتال کے مرحلہ سے گزرنا چاہیے اور یہ کہ سیاست کو سب کے لیے غیر جانبدار ہونا چاہیے تاکہ کسی فریق کے حق میں کسی دوسرے فریق کے ساتھ زیادتی نہ ہو جیسا کہ عباسی دور میں یا دیگر ادوار میں ہوتا رہا۔
ناقدین یہ سمجھتے رہے کہ طہ حسین اپنے لبرل ازم سے مرتد ہوگئے ہیں، اس بات کا اظہار البرت حورانی نے اپنی کتاب “الفکر العربی فی عصر النہضۃ” میں بھی کیا ہے مگر ان لوگوں کے پلے یہ بات نہ پڑی کہ طہ حسین اپنے لبرل ازم کے ذریعے سادہ لوح مسلمانوں سے قربت حاصل کرنا چاہتے تھے جن کی مذہب پرستی سادہ، فطری اور عوامی تھی تاکہ اپنے افکار ونظریات کے لیے مزید حامی جمع کر سکیں جن کا تعلق پسے ہوئے طبقہ سے تھا۔
مصری محقق مصطفی عبد الغنی اپنی کتاب “طہ حسین والسیاسۃ” میں کہتے ہیں کہ طہ حسین کے اسلامی لبرل ازم نے یہ یقین دلایا کہ صرف عقل سے ہی زندگی کو صحیح ڈگر پر نہیں لایا جاسکتا، اپنی کتاب “علی ہامش السیرۃ” میں طہ حسین صراحتاً اور انتہائی بہادری سے کام لیتے ہوئے کہتے ہیں کہ: “کچھ لوگوں کو یہ کتاب اچھی نہیں لگے گی کیونکہ وہ صرف عقل کے پیروکار ہیں اور صرف اسی پر یقین رکھتے ہیں جبکہ عقل سب کچھ نہیں ہے”۔
ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ گزشتہ صدی کے نصفِ اول میں طہ حسین کے مخالفین کا تعلق بشمول حکومتِ وقت کے نہ صرف مصر بلکہ بیرونِ مصر سے بھی تھا، مگر طہ حسین نے تمام تر مشکلات کے با وجود اپنی دعوت جاری رکھی اور اپنی تحریروں اور کتابوں میں ایک آزاد لبرل کے طور پر جبر واستبداد کے خلاف ڈٹ گئے اور آزادی وجمہوریت کا سختی سے مطالبہ جاری رکھا۔
ان کے خیال میں اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ اسلام آزادی، مساوات، تعددیت کا مذہب نہ صرف ہمیشہ سے تھا بلکہ اب بھی ہے اور یہی لبرل ازم کی اقدار ہیں جن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ اپنی کتاب “من بعید” میں کہتے ہیں کہ: “ہمیں ان زمانوں پر حسرت ہے جب ہم جو کچھ چاہتے سوچ سکتے تھے اور اس کا اظہار بھی کر سکتے تھے اور رائے اور آزادی اظہار رائے کو ہم نہ صرف زندگی کی ضرورت بلکہ آزاد وجود کی ضروریات میں سے گردانتے تھے آج ہمارا یہ وجود کہاں ہے؟”۔
آج عرب ممالک بالخصوص اور اسلامی ممالک میں بالعموم جمہوریت اور آزادی اظہار رائے کا جو حال ہے، اگر طہ حسین آج زندہ ہوتے تو گزشتہ صدی کے نصفِ اول کے اپنے زمانے پر رشک کرتے۔ آج جس قدر ہمیں “اسلامی لبرل ازم” کی ضرورت ہے ماضی میں شاید کبھی نہ تھی کیونکہ یہی وہ واحد ذریعہ ہے جس سے اسلامی ممالک میں ڈولتی آزادی وجمہوریت کی کشتی کو کنارے پر لگایا جاسکتا ہے۔
بشکریہ: جرات و تحقیق
♠