آصف جاوید، ٹورونٹو
کینیڈا میں آج کل جس اسلاموفوبیا کا خوف دلایا جارہا ہے، اور مستقبل میں جس اسلاموفوبیا کے خلاف قانون بنائے جانے کی راہ ہموار کی جارہی ہے، اس کا کینیڈین معاشرے میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ یہ بنیاد پرست اور فاشسٹ مسلمانوں کی درپردہ سازش ہے کہ کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا خوف دلا کر مزید رعائتیں اور ہمدردیاں حاصل کی جائیں اور انتہا پسند مسلمانوں کے فاشزم کی وجہ سے ہونے والی حرکتوں پر تنقید اور مذمّت کا ہر دروازہ بند کردیا جائے۔
کینیڈا ایک کثیر الثقافت اور کثیر العقائد معاشرہ ہے ، جس میں دنیا کے 193 ممالک کے تارکین وطن ، 40 اور سے زیادہ مذاہب کے پیروکار تمام تر نسلی و ثقافتی تنوّع کے ساتھ باہم شیرو شکر ہو کر رہتے ہیں۔ معاشرتی تنوّع ،کینیڈا کی ترقّی ، فلاح اور معاشی خوشحالی کی اساس ہے۔کینیڈا کی سلامتی اور خوشحالی کا راز اس کے عظیم فلسفہ ِ اجتماعیت، برداشت، رواداری، باہمی احترام، اور ثقافتی تنوّع میں پنہاں ہے۔
کینیڈا ایک عظیم ملک ہے۔ اِس عظیم ملک کے تمام باشندے بلا امتیاز مذہب وعقیدہ، رنگ و نسل ، زبان اور ثقافت مساوی شہری حقوق اور لامحدود آزادیوں کے ساتھ رہتے ہیں۔ یہی کینیڈا کے آئین کے نفسِ ناطقہ یعنی پلورل ازم (اجتماعیت ) کی اصل روح ہے۔ یہاں کسی بھی قسم کے فوبیا ، امتیاز اور تعصّب کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ اسلامو فوبیا کی بھی کوئی جگہ نہیں ہے۔
بنیاد پرست اور فاشسٹ مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی، اور دہشت گردانہ کارروائیوں سے جس طرح پوری دنیا کو خطرات لاحق ہیں، اس ہی طرح ، کینیڈا کو بھی خطرات لاحق ہیں۔ خود اسلامی ممالک بھی اِس انتہا پسندی کی تباہ کاریوں سے محفوظ نہیں ہیں۔ انتہا پسند خیالات اور انتہا پسندی کے پیروکاروں کی کینیڈا کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں کوئی کمی نہیں ہے۔مسلمانوں کے مقاماتِ مقدّسہ مکّہ اور مدینہ بھی ان دہشت گردوں کی آزار سے نہیں بچ سکے ہیں۔ مذہبی انتہا پسندی کی آگ نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔کینیڈا تو ایک لبرل، سیکولر ملک ہے۔ جو اپنے آئین و قانون میں دی جانے والی رعائتوں کے سبب آتش فشاں کے دہانے پر بیٹھا ہوا ہے۔
مگر ان تمام تر خطرات کے باوجود کینیڈا میں مسلمانوں کے لئے کوئی امتیازی سلوک یا رویّہ نہیں پایا جاتا۔ ابھی پچھلے دنوں کیوبیک کی ایک مسجد میں دہشت گردی کے واقعہ میں معصوم مسلمان عبادت گذاروں کی شہادتوں کے واقعہ پر کینیڈا کے وزیرِ اعظم سے لے کر عام شہری تک بلا امتیاز، مذہب، عقیدہ، زبان ، رنگ و نسل ، تمام لوگ مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ غمگسار کھڑے تھا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ کینیڈا میں مسلمانوں کے ساتھ نہ تو کوئی امتیاز برتا جاتا ہے نہ ہی کوئی ناروا سلوک کیا جاتا ہے۔
کینیڈا میں اسلامو فوبیا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ اگر ہوتا تو پوری دنیا میں مسلمان سب سے زیادہ کینیڈا میں محفوظ اور خوش حال نہ ہوتے۔ مذہبِ اسلام کو کینیڈا سے کوئی خطرہ نہیں، مگر کینیڈا کو انتہا پسند مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی جنونیت سے خطرہ ہے، اسلامی شریعت کے بہیمانہ احکامات سے خطرہ ہے، اسلامی فاشزم سے خطرہ ہے۔
دنیا بھر میں مسلمانوں سے جڑے دہشت گردی کے واقعات، مسلم ممالک میں انسانی حقوق کی بدترین پامالی ، داعش جیسی تنظیموں کا معصوم انسانوں کے ساتھ ظلم و تشدّد ، بربریت، آزادیِ اظہار پر قدغن، مذہب کے بارے میں ہر قسم کی تنقید پر پابندی، کفّار پر غلبہ اور فتح پانے کی خواہش اور دعائیں، غیر مسلموں سے نفرت اور ان کو راہِ راست پر لانے کی باتیں، ہم جنس پرستی کو قابل نفرت عمل قرار دینا، خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک، شریعت ِ اسلامی میں معمولی جرائم کے لئے ہاتھ پاؤں کاٹنے اور مرتد کی گردن کاٹنے کی سزائیں، زنا کے جرم میں سنگسار کرنے کی سزائیں، مسلمانوں کی اپنے آپ کو مومن قرار دینے اور دنیا کی بہترین امّہ سمجھنے کی اخلاقی بر تری ، اور غیر مسلموں کو دوزخ کا عذاب سمجھنا، اور کافروں کے خلاف تلوار لے کر جہاد کرنا ، یہ سب اسلامی فاشزم نہیں ہے تو پھر اور کیا ہے۔
خود اسلام کی پوری تاریخ فاشزم سے بھری پڑی ہے۔ پیغمبرِ اسلام کے بعد سے شروع ہونے والا فاشزم آج تک جاری ہے۔ کربلا میں نواسہ رسول کے ساتھ کیا ہوا تھا؟، بنو امیّہ اور عبّاسی خلفاء کے دور میں کیا ہوتا رہا؟۔ اور آج داعش کیا کررہی ہے؟ سب کو معلوم ہے۔ خود مسلم امّہ کا نظریہ ایک فاشسٹ نظریہ ہے۔ یہ بالکل نازی فاشسٹ رویّے کے مترادف ہے۔ اگر ہٹلر اور مسولینی موجودہ دور کے فاشسٹ ہیں تو بنو قریضہ میں یہودیوں کے ساتھ کیا ہوا تھا؟ دولتِ اسلامی داعش اس ہی فاشسٹ نظرئیے کو لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔
ہمیں “اخلاقی اسلام “اور “سیاسی اسلام “میں فرق کرنا ہوگا۔ سیاسی اسلام، فاشسٹ نظریات اور سوچ کا حامل اسلام ہے، جس کی کینیڈین معاشرے میں کوئی جگہ نہیں بنتی ہے۔ کینیڈین پارلیمنٹ میں لبرل ممبر پارلیمنٹ اقراء خالد نے جو موشن نمبر103 جمع کروائی ہے وہ کینیڈا میں اسلاموفوبیا کی مذمّت، سماج /نظام میں موجود ہمہ اقسام کی نسل پرستی، اور مذہبی امتیاز و تعصّب کی بیخ کنی سے متعلّق ہے ۔ جب کہ اسلام نے تو خود دنیا کو مومن اور مشرک ، مسلمان اور کافر ،میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ میرا محترمہ اقراء خالد سے سوال ہے کہ کیا یہ امتیاز نہیں ہے؟
پچھلے دنوں جب کیوبیک کی ایک مسجد میں دورانِ نماز دہشت گردی کا ایک واقعہ پیش آیا تھا، تو ہم نے دیکھا کہ لبرل ممبر پارلیمنٹ جناب مارک ملر نے کیوبیک سانحہ پر مسلمانوں سے اظہارِ یک جہتی کے لئے انفرا اسٹرکچر کی وزارت کے پارلیمانی سیکریٹری کی حیثیت سے حلف اٹھاتے وقت بائبل کے علاوہ قرآن پر بھی حلف اٹھایا تھا، تاکہ غم زدہ مسلمانوں سے افسوس اور اور اظہارِ یک جہتی ہوسکے۔
مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایسے تمام نیک نیت اقدامات اس وقت ضائع چلے جاتے ہیں جب مسلمان ایسے نیک جذبات و احساسات کے مقابلے میں اسلامی فاشزم پر مبنی رویّہ کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مسلمان علماء اپنی کتاب یعنی قرآن سے آیت کا حوالہ دے کر کہتے ہیں کہ یہ یہود و نصاری‘ تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ۔ پھر یہی مسلمان اس ہی کینیڈا میں اپنے خطبات اور دعاؤں میں پڑھتے ہیں کہ
فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ” یعنی اے اللہّ پاک ہمیں کافروں پر غلبہ اور طاقت عطا فرما ، تو اس وقت ہمیں سمجھ نہیں آتا کہ, یا اللہْ جن کو یہ مسلمان علماء کافر کہتے ہیں ، وہ تو ہم مسلمانوں کو اپنے ملک میں رہنے، تعلیم حاصل کرنے، روزگار حاصل کرنے ، پیسہ کمانے، جائیدادیں بنانے، اپنی بہنوں، بیٹیوں سے شادی کرکے گھر بسانے کی اجازت دیتے ہیں، اور اعلی‘ معیار کی زندگی گزارنے کا مساوی حق دیتے ہیں۔ پھر بھی ہم مسلمان اُن پر غلبہ پانے اور فتح حاصل کرنے کی دعائیں مانگتے ہیں، ایسا کیوں ہے؟؟؟؟
بس یہی وہ رویّہ ہے ، جسے اسلامو فاشزم کہتے ہیں۔ جس سے کینیڈا کی سالمیت اور اجتماعیت کو خطرہ ہے۔ اور اس رویّہ کے خلاف قانون بنانے کی ضرورت ہے۔
اقراء خالد صاحبہ آپ غیر جانبدار ہوکر صرف یہ بتائیں کہ کیا یہ رویّہ اسلامی فاشزم نہیں ہے؟۔ ہماری آپ سے درخواست ہے کہ خدارا جنگل میں آگ نہ لگائیں۔ کیونکہ جنگل کی آگ جب پھیلتی ہے تو بے قابو ہو کر پورا جنگل جلا کر بھسم کر دیتی ہے۔ اپنی نادانی میں اس آگ سے نہ کھیلیں۔ کینیڈا کو اسلاموفوبیا کے خلاف قانون کی نہیں ، بلکہ اسلامو فاشزم کے خلاف قانون بنانے کی ضرورت ہے۔ وما علینا الالبلاغ،
One Comment