آصف جیلانی
کہنے کو تو بعض لوگ کہتے ہیں کہ نام میں کیا رکھا ہے لیکن بہت سے لوگوں کے نزدیک نام ہی میں سب کچھ ہے، نام نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ بے نام یا گمنام کی نہ تو کوئی شناخت ہے اور نہ شخصیت ہے اور نہ کوئی اسے پوچھتا ہے۔ اللہ تعالی کے بھی ۹۹ نام ہیں اور آفرینش میں اللہ تعالی نے جب اس کرہ ارض پر اپنا خلیفہ پیدا کیا تو خود اس کا نام آدم رکھا تھا۔ توریت کے مطابق اس دنیا میں پہلے انسان کا نام” آدمہ “رکھا گیا تھا جس کے معنی عبرانی میں زمین اور سرخ رنگ کے ہیں۔ پھر اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو خود سارے نام سکھائے۔
والدین اپنے بچوں کے نام اول تو شناخت کیلئے رکھتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ بچے ان کا نام روشن کریں گے ۔ دوم وہ ایسے نام رکھتے ہیں جن سے ان کی خواہشات وابستہ ہوتی ہیں اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ بچے اپنے نام کی مناسبت سے صلاحیتیں حاصل کریں۔بعض ناموں میں اللہ تعالی کی توصیف و تعریف اور بعض ناموں میں رسول اللہ سے عقیدت و وابستگی کا اظہار ہوتا ہے ۔
پاکستان واحد ملک ہے جہاں ناموں کی قطعی کوئی پرواہ نہیں ہے اور کراچی منفرد شہر ہے جہاں بے معنی اور بے ڈھنگے ناموں کا ایسا دفتر کھلا ہے کہ انہیں دیکھ کر دم گھٹتا ہے۔ سوچا تھا کہ قیام پاکستان کے بعد آزاد وطن میں نو آبادیاتی نظام سے نجات ملے گی لیکن پاکستان بننے کے فورا بعدکراچی میں جیل کے قریب جو نئی بستی بسی جس میں پڑھے لکھے لوگوں نے اپنے گھر بنائے تھے اس کا نام نہ جانے کیوں پیر الہی بخش کالونی رکھا گیا۔
یہ تو صحیح ہے کہ اس کی زمین اس زمانے کے وزیر اعلی سندھ پیر الہی بخش نے عطا کی تھی لیکن اس بستی کا خوب صورت نام رکھا جا سکتا تھا۔ اگر پیر الہی بخش ہی کے نام پر اس بستی کا نام رکھنا تھا تو پیر الہی بخش نگر، بستی پیر الہی بخش اور گلشن پیر الہی بخش ایسے نام رکھے جا سکتے تھے ۔ کالونی کے نام کی تک سمجھ میں نہیں آئی۔ پھر پیر الہی بخش کالونی کے نام کے بعد شہر میں کالونیوں کا ایساسلسلہ شروع ہوا کہ ستر سال ہونے کو آئے ہیں کہ کالونی کا نام وبا کی طرح پھیل گیا۔ پاک کالونی ایسے جیسے دوسری بستیاں ناپاک ہیں۔ مچھر کالونی کا نام سن کر ملیریا کا بخار چڑھ جاتا ہے۔، بھینس کالونی میں ایسا لگتا ہے کہ بھینسوں کا راج ہے۔ کنواری کالونی، کیا سب کالونیوں میں یہ کنواری ہے یا یہاں سب کنوارے اور کنواریاں رہتی ہیں۔
پھر جن بستیوں اور محلوں کے نام کالونی پر نہیں ہیں تو ان کے نام ایسے بھونڈے رکھے گئے ہیں کہ ان کو سنتے ہی طبیعت مالش کرنے لگتی ہے ۔ اب کوئی پوچھے کہ اکال بونگا کیا نام ہوا کسی بستی کا؟اور اس کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ ۔ پھر بسوں کے رکنے کے مقامات کے بھی بے تکے نام پڑ گئے ہیں ۔ جیسے دو منٹ کی چورنگی اور انڈا موڑ وغیرہ۔
کراچی میں جب مستقل طور پر دارالحکومت کے قیام کی تجویز تھی تو تیموریہ کے نام سے ایک وسیع علاقہ کی نشان دہی کی گئی تھی ، نہ تو یہاں دارالحکومت کے قیام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوا اورنہ یہ نام باقی رہا۔ اب یہ علاقہ فیڈرل بی ایریا کہلاتاہے ۔امیر تیمور سے زیادہ ہم اپنے پرانے آقاوں سے د ل بستگی محسوس کرتے ہیں۔ اسی طرح لاہور میں علامہ اقبال سے دلی لگاؤکے جذبہ کے جوش میں آکر ایک نئی بستی کا نام اقبال کے نام پر رکھا گیا لیکن بات نہیں بنی اور اس کو انگریزی کا جامہ پہنا دیا گیا، اور اقبال ٹاؤن رکھ دیا گیا۔
اب یہ بات ہماری سرشت کا حصہ بن گئی ہے کہ ہم ہر چیز کو اورہر نام کو انگریزی کا سایہ پہنا دیتے ہیں ، حتی کہ ٹیلی وژن کے پروگراموں کے ناموں کے لئے بھی انگریز ی کی بیساکھی استعمال کی جاتی ہے۔ پروگرام اردو میں نشر ہورہے ہیں اور عنوان انگریزی کے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یوں اپنے آپ کو انگریزی تعلیم یافتہ بقراط ثابت کرنی کی کوشش کی جاتی ہے لیکن میرے خیال میں یہ ذہنی غلامی کی علامت ہے۔ ہم انگریزوں کے دور میں بھی بات چیت میں انگریزی کے اتنے الفاظ استعمال نہیں کرتے تھے جتنے آج آزادی کے بعد کرتے ہیں اور اردو کو مسخ کرنے کے در پے نظر آتے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں کسی اردو ادیب نے یہ نہیں کہا تھا کہ یہ زمانہ اب انگریزی لکھنے والوں کا ہے اور اب تو اردو انگریزی کے ریشم میں ٹا ٹ کا پیوند ہے۔
کئی سال پہلے وسط ایشیاء کی نو آزاد جمہوریاؤں کے سفر کے دوران یہ دیکھ کر بے حد خوشی ہوئی اور رشک بھی آیا کہ وہاں لوگوں نے اپنے ادیبوں، شاعروں، ساینس دانوں اور اپنے ورثہ کی اہم شخصیات کے نام پر اپنی شاہراہوں ، سڑکوں اور محلوں کے نام رکھے ہیں اور ہر لحظہ اپنی تاریخ اور روایات کی یاد روشن رکھتے ہیں۔ تاشقند کے مرکز میں ایک وسیع پارک ہے ۔ اس پارک کا نام انہوں نے اپنے ممتاز شاعر علی شیر نوائی کے نام سے موسوم کیا ہے ۔ اور تو اور تاشقند یونیورسٹی سے ملحق ایک خوبصورت محلہ کا نام انہوں نے میرزا غالب کے نام پر غالب محلہ رکھا ہے صرف اس بناء پر کہ میرزا ہمیشہ اس پر فخر کرتے تھے کہ وہ ازبک ہیں۔
اس محلہ میں میں جب ایک شادی کی تقریب میں شرکت کر رہا تھا تو میرے دل نے مجھ سے پوچھا کہ کیا پاکستان میں جہاں ہرشخص اٹھتے بیٹھتے غالب کے اشعا ر دہراتا ہے ، وہاں کسی سڑک یا محلہ کا نام غالب کے نام پر رکھا گیا ہے؟۔ مرزا غالب محلہ ، تاشقند یونیورسٹی کے قریب ایک نہایت کشادہ اور خوبصورت علاقے میں واقع ہے۔ ایک چوڑی چکلی ، صاف شفاف شاہراہ ، جس کے دونوں جانب پھلوں کے درخت لگے ہوئے تھے، اس محلہ میں لے جاتی ہے، اس شاہراہ کا نام بھی مرزا اسد اللہ غالب سے موسوم ہے۔
ادھر سمرقند میں امیر تیمور کے نام پر ایک شاہراہ اور کوچہ اورفارسی کے ممتاز شاعر فردوسی کے نام پر ایک کوچہ دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبہ ، ہوائی اڈہ سے لے کر شہر کے آخری سرے تک ایک شاہراہ پر آباد ہے اور اس کا نام فارسی کے کلاسیکی ادب کے بانی مشہور شاعر رودکی کے نام پر خیابان رودکی ہے ۔ اسی شاہراہ پر ہوائی اڈہ، یونیورسٹی، مرکزی پوسٹ آفس ، پارلیمنٹ، صدر کا محل ،مرکزی لایبریری اور آخر میں مشہور ریستوران کیفے راحت ہے۔
یہاں برطانیہ میں سڑکوں اور محلوں کے نام رکھنے کا طویل مشاورتی عمل ہوتا ہے۔ مقامی کاونسل تجویز کردہ نام پر خاصی طویل بحث کرتی ہے اور اس کی تمام تاریخی اور ثقافتی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے نام رکھتی ہے جسے کوئی تبدیل نہیں کر سکتا ، نہ کوئی فرد اور نہ کوئی گروہ۔
ویسے برطانیہ میں بھی لوگوں اور محلوں کے نام ہم اجبنیوں کے لئے عجیب نام لگتے ہیں۔سن ساٹھ کے عشرہ میں برطانیہ کے وزیر خارجہ مسٹر آرتھر باٹم لے تھے ۔ ایک دن ایک تقریب میں ، میں نے ہمت کر کے ان سے ان کے نام کے بارے میں پوچھ لیا۔ مسکراتے ہوئے انہوں نے کہا کہ باٹم تو آپ جانتے ہیں نیچے اور نشیب کو کہتے ہیں اور لے ، انگریزی میں لیک کا مخفف ہے یعنی جھیل ۔ تو جو لوگ جھیل کے آخری سرے یا نشیبی سرے پر آباد ہیں ، تو باٹم لے ۔ ان کے نام کا جزو بن گیا ہے ۔
یہاں قصبوں اور بستیوں کے نام بھی عجیب وغریب ہیں۔ اسکاٹ لینڈ میں ایک گاؤں کا نام لاسٹ ہے ۔بعض لوگوں کو یہ نام عجیب لگا ۔ انہوں نے اس کا سائن بورڈ اکھاڑ دیا ۔ کئی بار سائن بورڈ چوری ہونے کے بعد کاونسل نے نام ہی بدل دیا اورلاسٹ فارم رکھا لیکن گاؤں والوں نے اس کی سخت مخالفت کی اور آخر کار اس کا نام دوبارہ لاسٹ رکھ دیا اور اب بھی یہی گاؤں کا نام ہے۔
ایک خوابیدہ سا نظر آنے والے گاؤں کا نام گریٹ سنورنگیعنی عظیم خراٹا ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ نام یہاں بہت زور سے خراٹے لینے والے ایک شخص پر رکھا گیا ہے۔ڈرھم میں 19ویں صدی کے ایک گاؤں کا نام ہے پیٹی می یعنی مجھ پر رحم کرو ہے۔
خیر یہ تو کئی صدیوں پہلے کی بات ہے ۔ افسوس تویہ ہے کہ آج کے دور میں ہمارے ملک کے ،کراچی ایسے تعلیم یافتہ لوگوں کے بڑے شہروں میں بلا سوچے سمجھے نئی بستیاں کالونیاں اور ٹاؤن کہلاتی ہیں اور بسوں کے رکنے کی جگہوں کو دو منٹ کی چورنگی اور انڈا موڑکہا جاتا ہے۔
پڑھے لکھے لوگوں کے اس شہر میں جسے لوگ فخر سے شہر قائد کہتے ہیں ، ضرورت ایک مہم چلانے کی ہے کہ بستیوں ، سڑکوں اور محلوں کے جو بونگے نام ہیں ان کو بدل کر اپنی تاریخ کی اہم شخصیتوں ، شاعروں ، ادیبوں، دانشوروں اور وطن کے لئے جان دینے والے بہادروں کے نام پر رکھے جائیں، ان سے عقیدت کا اظہار کیا جائے اور اپنی تاریخ اور روایات کو روشن رکھا جائے۔ناموں کی تبدیلی کا یہ عمل مقامی کاونسلوں کو کرنا چاہیے ورنہ یہ بونگے اوربد نما نام اس شہر پر انمٹ داغ ثابت ہوں گے۔
♥