لیاقت علی
شہباز قلندر کی درگاہ پر حملے کے حوالے سے اپنے بیان میں وزیر اعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ یہ حملہ دراصل قائد اعظم کے پاکستان پر ہوا ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بیان ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس حقیققت کو جان چکے ہیں کہ قائد اعظم کا پاکستان کن سیاسی اور سماجی اقدار پر عمل در آمد کے لئے قائم کیا گیا تھا ۔
میاں نواز شریف گذشتہ تیس سال سے اقتدار میں موجود ہیں وہ تین مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بن چکے ہیں ان سے زیادہ سیاسی تجربہ ہم سیاست دانوں میں کم ہی کسی کو حاصل ہوا ہوگا۔ فوجی آمر کی پشت پناہی سے سیاست کا آغاز کرنے والے نواز شریف کو ایک دوسرے فوجی جنرل کے ہاتھوں جلاوطن ہونا پڑا۔ وہ دس سال تک اپوزیشن میں رہےاور اپوزیشن بھی ایسی جس میں ان کی ملک کی واپسی پر پابندی عائد تھی۔
نواز شریف جان چکے ہیں کہ پاکستان شمالی ہندوستان کے مسلمان اکثریت والے صوبوں کے مسلمانوں کے لئے قائم کیا تھا یہ مسلمانوں کو ملک تو ضرور تھا لیکن یہ ’ اسلامی نظا م کے نفاذ کی تجربہ گاہ ‘ بالکل نہیں تھی جیسا کہ ہماری مذہبی قیادت پاکستان کے عوام کو باور کرانے کی کوشش کرتی ہے۔ مسلم لیگ نے اپنی کسی ایک قرارداد میں مجوزہ پاکستان میں ’اسلامی نظام ‘ کے نفاذ کی بات نہیں کی تھی۔ مسلم لیگ کی کانگریس کے ساتھ لڑائی سیاسی تھی نہ کہ مذہبی۔
آزادہندوستان میں مسلمانوں کو کس قدر آئینی حقوق حاصل ہوں گے مسئلہ زیر بحث یہ تھا یہ کہیں نہیں تھا کہ آزادی کے بعد کس فرقے یا مذہب کے ماننے والوں کی حکومت ہوگی۔ یہی وہ سیاق و سباق تھا جس کو ذہن میں رکھتے ہوئے قائداعظم نے 11اگست 1947 کوپاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے پہلے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئےمملکت پاکستان کے آئینی خدو خال متعین کر دیئے تھے ۔ انھوں نے واضح اور دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ پاکستان کی ریاست کا اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ کسی شہری کا تعلق کس مذہب، عقیدے یا فرقے سے ریاست کو اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔ پاکستان کے شہری اپنی مساجد، مندروں اور دوسری عبادت گاہوں میں جانے کوآزاد ہیں اور وقت آئے گا جب ریاست کے شہری مسلمان اور ہندو نہیں رہیں گے مذہبی حوالے سے نہیں کیونکہ یہ ہر شہری کا ذاتی عقیدہ بلکہ ریاست کے شہری کی حیثیت سے۔
قائداعظم کے نزدیک یہی نظریہ پاکستان تھا اور اسی نظریہ کی روشنی میں پاکستان کے مستقبل کے آئین کی تشکیل و تدوین ہونا تھا لیکن بدقستی سے سیاسی طالع آزماؤں ،مذہبی پیشوائیت اور فوجی مہم جووں نے قائد اعظم کے تصور پاکستان کو پش پشت ڈال دیا اور یہ ملک جسے ایک جمہوری فلاحی بننا تھا ایک گیریژن سٹیٹ بن گیا جہاں لبرل، روشن خیال تنظیوں اور افراد کو قومی سلامتی کے نام پر پابند سلاسل کیا گیا اور ان کی سوچ و فکر پر پہرے بٹھائے گئے۔
یہ انہی پابندیوں کا نتیجہ ہے کہ آج پاکستان دنیا میں دہشت گردی اور مذہبی بنیاد پسندی کے حوالے سےمشہور ہے۔ آج پاکستانی جہاں بھی جاتے ہیں انھیں مشکوک نظروں سے دیکھا جاتا ہے ۔ آج کا پاکستان ترقی کی شاہراہ پر آگے بڑھنے کی بجائے پسماندگی اور دہشت گردی کے گہرے گڑھے میں لڑھکتا چلا جارہا ہے۔
وزیر اعظم اگر یہ سمجھ چکے ہیں کہ دہشت گرد قائداعظم کے تصور پاکستان کے خلا ف ہیں اور ان کی دہشت گردانہ سر گرمیوں کا ہدف قائداعظم کا پاکستان ہے تو انھیں چاہیے کہ وہ پاکستان کے تمام شہریوں کو مساوی سیاسی اور سماجی حقوق دینے کا اعلان کریں۔ وہ ان قوتوں سے دور ہٹیں جو روشن خیالی اور خرد افروزی کی دشمن ہیں جو عقیدے کے نام پر انسانوں کے خون بہانے پر یقین رکھتی ہیں۔
نواز شریف کو قائداعظم کے نظریے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مذہب اور ریاست کو علیحدہ کرنے کی ابتدا کرنی چاہیے تاکہ قائد اعظم کے خواب کی تکمیل ہوسکے۔
♥