ایمل خٹک
تاریخ کی ستم ظریفی یہ ہے کہ جس فساد کو ایک فوجی آمر نے شروع کیا مطلب جدالفساد جنرل ضیاء الحق سے ہے ۔ جس فساد کی آبیاری اور اس کو پروان چڑھانے میں تمام ریاستی اداروں نے حصہ لیا اور ابھی تک اس سے ناتا مکمل توڑا نہیں گیا اس فساد کو رد کرنے کی باتیں ہو رہی ہے ۔ جدالفساد کی شروع کی گئی فساد سے کئی اور فسادوں نے بھی جنم لیا۔ اور فساد صرف افغانستان تک محدود نہ رہا۔ اس فساد نے پاکستان کو اگر افغانستان سے زیادہ نہیں تو کچھ کم بھی تباہ و برباد نہیں کیا۔
ایک ایسے ملک میں جس میں فساد پھیلانے والوں کو جب ریاستی سطح پر سٹرٹیجک اثاثہ ، پہلی دفاعی لائن اور ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کے بے تنخواہ محافظ سمجھا جاتا ہو اور قومی سلامتی کی پالیسیوں میں ان کا اہم مقام متعین ہو تو وہاں اس فساد کو ختم کرنے کی باتیں بڑی مضحکہ خیز لگتی ہے ۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا ان فساد پھیلانے والوں کے بارے میں ریاستی پالیسی تبدیل ہوئی ہے یا نہیں۔ غیب کا علم تو اللہ میاں کے پاس ہے مگر بظاہر نہ تو کسی نئی قومی سلامتی پالیسی کا کوئی وجود ہے اور نہ اشارے ۔ البتہ چھوٹا موٹی ٹیکٹیکل ایڈجسمنٹ ہو رہی ہے۔
آپریشن اور اس کی باتیں تو ہم گزشتہ پندرہ سالوں سے سن رہے ہیں ۔ اور اب تو تعداد بھی یاد نہیں کہ ملک میں کتنے آپریشن ہوچکے ہیں ۔ اگر قوم کا حافظہ کمزور نہیں تو یہ سب کی سب آپریشنز کامیاب اور کامران رہے۔ یہ اور بات ہے کہ ہر کامیاب آپریشن کے بعد نئے آپریشن کی ضرورت بھی پڑتی رہی۔ ہر نئے آپریشن کے بعد پھر قوم کو کامیابی کی خوشخبریاں ملتی تھی۔ اس طرح آپریشنوں کا چکر چلتا رہا اور یقین سے نہیں کیا جاسکتا کہ یہ سلسلہ کب ختم ہوگا ۔ زیادہ تر پشتون بیلٹ میں کئے جانے والے ان آپریشنز کی کارکردگی کے بارے میں پشتونوں سے زیادہ کون جانتا ہے کون بتا سکتا ہے جو ان کے نہ صرف شاھد ہیں بلکہ اس کو محسوس کیا برداشت کیا اور اس سے سب سے زیادہ متاثر بھی ہوئے۔
یا تو ہمیں اس بات کو تسلیم اور کھلم کھلا اعتراف کرناچائیے کہ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے کمزور ہیں اور ہماری انٹلیجنس اداروں کی کارکردگی ناقص ہیں کہ پے درپے آپریشنوں میں ہم ان فسادیوں کا قلع قمع نہ کرسکے ۔ سلطان راہی مرحوم کی طرح بڑھکیں مارنا اور دہشت گردی کی کمر ، ٹانگیں اور پتہ نہیں کیا کیا توڑنے کے بلند وبانگ دعوے اپنی جگہ مگر عملاً نہ تو دہشت گردی ختم ہو سکی اور نہ دہشت گرد۔ البتہ واقعات میں کمی آئی ۔ مگر دوسری طرف دہشت گرد بار بار ہمیں یہ بات یاد دلانے کی کوشش کرتے رہے کہ وہ جس وقت اور جہاں بھی چاہے حملہ کرسکتے ہیں۔
اگر پھر بھی ہم اس بات پر مصر ہیں کہ ہمارے ادارے پتہ نہیں دنیا کی ٹاپ اداروں میں فلاں فلاں نمبر پر ہیں تو پھر یہ بات تسلیم کرنی ہوگی کہ ماضی کی آپریشنوں میں اپنے پرائے کی تمیز روا رکھی گئی تھی جس طرح کہ بہت سے اندرونی اور بیرونی تجزیہ نگار بھی الزام لگاتے ہیں۔ ہم پر ڈبل گیم کھیلنے کا الزام لگاتے ہیں یا شک کرتے ہیں کہ آپریشنوں میں اچھے طالبان کو تحفظ فراہم کیا گیا اور جس طرح کہ ملکی اور غیر ملکی میڈیا میں کئ رپورٹیں چھپ چکی ہیں کہ آپریشنوں سے پہلے کئی اچھے طالبان کو بمعہ سازوسامان کے علاقے سے نکالا گیا ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہی عمل سوات میں بھی ہوا اور شمالی وزیرستان میں بھی ہوا۔
جہاں تک ضرب عضب کا تعلق ہے تو شمالی وزیرستان آپریشن میں جن دہشت گردوں کی وجہ سے وہاں کے عام عوام کی زندگی اجیرن تھی وہ تو آپریشن سے پہلے ایرکنڈیشنڈ لینڈ کروزرز میں آرام سے نکالے گئے جبکہ عام لوگ انتہائی مشکل ، دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہوئے اور ناگفتہ بہ حالات میں نکلنے پر مجبور ہوئے۔ آپریشن کے نام سےایک ڈرامہ اور سہی کیونکہ ریاست جدالفساد کی باقیات ختم کرنے میں مخلص نظر نہیں آتی اور مختلف حیلوں بہانوں سے اس کو تحفظ دیتی ہے ۔ اس فساد سے ریاستی اداروں کی دوستی اور تعلق اتنا گہرا ہے کہ کچھ فسادیوں کو بچانے کیلئے کئی چور دروازے بنائے جاتے ہیں جس میں ایک اچھے اور برے طالبان کی تمیز کی پالیسی ہے ۔
ایک ہی امیرالمومنین کی بیعت کرنے والے ایک ہی قسم کی نظریاتی تربیت کے حامل ایک ہی استاد کے تربیت یافتہ اور ایک جیسے آئیڈیل رکھنے والوں میں فرق خود فریبی اور انتہائی درجے کی خوش فہمی کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا ۔ اچھے اور برے طالبان کی تمیز اس حوالے سے بھی واہیات اور بھونڈی ہے کہ سب طالبان ابتدا میں اچھے تھے بعد میں برے بنے۔ اور اچھے سے برا بننے یا برے سے اچھا بننے میں کچھ وقت نہیں لگتا ۔ جو برے کہلائے جاتے ہیں وہ اگر آج ایجنسیوں کی ڈکٹیٹس مان لیں تو اچھے اور اگر اچھے آج سے ڈکٹیٹس ماننے سے انکار کر دے تو برے۔ جو بظاہر برے کہلائے جاتے ہیں ان میں سے بہت سے بھی برے نہیں بلکہ ان کی ذمہ داری وہاں لگائی گئی ہے۔
پاکستان تو چھوڑئیے دنیا بھر میں کالعدم اور مطلوب اشتہاری نامی گرامی دہشت گرد تو قانون کی تحفظ میں کھلم کھلا گھوم ر ہے ہیں ریلیاں اور جلسے کر رہے ہیں ۔ تمام بڑے بڑے اور نامی گرامی عسکریت پسند تنظیموں کے مراکز پنجاب میں ہے۔ مگر ابھی تک فوجی آپریشنوں کا دائرہ پشتون بیلٹ تک محدود رہا اور کئی سالوں سے قوم کو پنجاب میں آپریشن کی لالی پوپ دی جارہی ہے ۔ پتہ نہیں قوم سے یہ مذاق کب تک جاری ر ہے گا، کب تک عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوگا، کب تک پنجابی اور غیر پنجابی عسکریت پسند کے ساتھ سلوک میں امتیاز برتا جائیگا۔ غلط ریاستی پالیسیاں اب افشا ہوچکی ہے ۔ اور عوام میں شعور اور بیداری بڑھ رہی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر پہلے روز سے انسداد دہشت گردی کا آپریشن خلوص نیت اور ایمانداری سے کیاجاتا تو پندرہ سال پہلے یہ فساد ختم ہوچکا ہوتا۔ پتہ نہیں یہ آپریشن ردالفساد کتنا خلوص نیت سے شروع کیا گیا ہے اور آیا واقعی ھر قسم کے دہشت گردوں کا قلع قمع ہوجائیگا اور یا دہشت گردی کی عفریت کسی نہ کسی شکل میں ملک پر کچھ عرصہ اور بھی چھائی رہے گی۔ آیا ماضی کی طرح اچھے عسکریت پسندوں کو پھر بچایا جائیگا اور امتیازی سلوک کی پالیسی جاری ر ہے گی۔ آپریشن کی کامیابی کا دارومدار ٹھوس نتائج پر ہوگا نہ کہ بلند وبانگ دعووں پر۔ آپریشن کی کامیابی کیلئے ھر قسم کی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنی ہوگی ۔
بدقسمتی سے یہ فساد ختم نہیں ہوسکتا اور نہ پاکستانی ریاست اس کو ختم کرنے میں دلچسپی رکھتی ہے ۔ ماضی کے آپریشنوں اور ریاستی پالیسیوں کو دیکھ کر آپریشن ردالفساد کی کامیابی کے بارے میں کئی حلقوں میں شکوک و شبھات پائے جاتے ہیں۔ خدا کرے کہ یہ شکوک و شبہات غلط ثابت ہوں اور قوم کو واقعی اس فساد سے نجات ملے۔ ورنہ اب انتظار اس بات کا ہوگاکہ عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ایک اور نیا آپریشن کسی اور عرب ، دلکش اورسیکسی نام کے ساتھ کب شروع ہوگا ۔
♣
One Comment