آصف جاوید
پچھلے کالم میں ہم نے گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست) کس کو کہتے ہیں؟ اور پاکستان ایک گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست)کیوں ہے؟ کا سوال اٹھا یا تھا
پروفیسر ڈاکٹر اشتیاق احمد صاحب نے اس سوال کا جو ،جواب دیا میں نیچے درج کررہا ہوں، جس کے بعد لیکچر کی بقایا تفصیلات ہیں۔ قارئین سے میری درخواست ہے کہ اِس کالم کی پہلی قسط بھی اس ہی میگزین “نیا زمانہ” میں موجود ہے۔ قارئین اگر پہلی قسط کو بھی تفصیل سے پڑھ لیں، تو مضمون کا تسلسل قائم رہے گا اور بات بھی آسانی سے سمجھ میں آجائے گی۔
گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست) وہ ریاست ہوتی ہے، جو خود کو مستقل طور پر خطرے میں محسوس کرتی ہے۔چنانچہ ایسی ریاست کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ ریاست کی باگ ڈور ایسے ہاتھوں میں ہو، جو جنگ و جدل اور تشدّد کے ماہرہوں ۔ پاکستانی ریاست اس لئے گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست) ہے، کہ وہ سمجھتی ہے، کہ اسے انڈیا سے مستقل خطرہ ہے۔ اِس ہی لئے پاکستان کی قیادت مستقل طور پر فنونِ حرب کے ماہرین کے ہاتھوں میں ہے۔
سنہ1965 کی جنگ میں جب، امریکہ نے پاکستان پر اسلحہ کی پابندی لگا ئی تھی ، تب ہماری قیادت کو احساس ہوا تھا ، کہ صرف امریکہ پر بھروسہ کافی نہیں ہے۔ ہمیں دوسرے وسائل اور ذرائع بھی دیکھنا ہوں گے۔ پاکستان چونکہ کوئی قابلِ ذکر صنعتی ملک نہ تھا، آمدنی کا زیادہ تر انحصار فرسودہ زراعت پر تھا۔ برآمدات بھی بس واجبی سی تھیں۔ چنانچہ پاکستانی ریاست کسی نہ کسی کی داشتہ ریاست یعنی (پیسے لے کرخدمات دینے والی ریاست ) بن کرہی زندہ رہ سکتی تھی ۔
آپ دیکھ لیں کہ اپنی پوری تاریخ میں پاکستانی ریاست کبھی امریکہ کی داشتہ ، کبھی چین کی داشتہ ، کبھی سعودیہ کی داشتہ بن کر رہی ہے۔ جہاں سے جو “پراجیکٹ“یا “اسائنمنٹ ” ہاتھ لگ جائے، ہماری ریاست پیسوں کے عوض اسے قبول کرلیتی ہے۔ اور یوں اس نے خود کو برقرار رکھا ہوا ہے۔ افغان جہاد میں امریکہ کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی زندگی ملی، اس میں چین اور سعودی عرب کی معاونت بھی شامل رہی۔ اس تمام عرصے میں ہوا یہ پاکستان کی ساورنٹی (خودمختاری) کمپرومائز ہوتی چلی گئی۔۔دوسرے لفظوں میں پاکستان بکتا چلا گیا۔ نتیجہ یہ ہے، کہ آج پاکستان ایک نامعقول اور کمزور ریاست کے طور پر دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد کا اپنے لیکچر میں کہنا تھا، کہ اگر ہمیں اتنا ہی مسلم امّہ کا خیال ہے۔ تو پھرہمارے زیادہ التفات ، پیار و محبّت کا حقدار ہندوستان کے مسلمان ہونے چاہیئں۔ ان کے وطن سے ہماری دوستی ہونی چاہئے۔ پاکستان آبادی کے اعتبار سے انڈیا کا آٹھواں حصّہ ہے۔ ہم مسلسل 70 سالوں سے اپنے ملک کو حالتِ جنگ میں رکھ کرپاکستان کو ترقی اور عوام کو خوشحالی نہیں دے سکے۔
انسانی تعلّقات کے درمیان مذہب کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ یورپ میں عیسائی قومیں جنگوں میں ایک دوسرے کے کروڑوں لوگ مار ڈالتی رہی ہیں۔ مشرق وسطی میں مسلمان ہی مسلمانوں کو تاراج کرتے جارہے ہیں۔ چین کبھی اس خطے میں جنگ نہیں چاہے گا۔ وہ دنیا کی سب سے بڑی کاروباری قوم ہے۔ وہ خطے جہاں جنگیں، تشدد، خانہ جنگی ہو، وہاں کاروباری سرگرمیاں نہیں ہوا کر تیں ۔ چین کے انڈیا کے ساتھ بھی معاشی مفادات اور رشتے ہیں۔
اگر پاکستان نے قائم و دائم رہنا ہے۔ تو اسے گیریژن اسٹیٹ (عسکری ریاست ) سے سیکولر، جمہوری، فلاحی ریاست میں تبدیل ہونا ہوگا۔ کروڑوں لوگ کو تعلیم، صحت کی سہولتیں اور زندگی کو باعزت بنانے والے روزگار کی فراہمی کے بغیر اس ریاست کو آخر کب تک قائم رکھا جا سکے گا؟۔
مسئلہ کشمیر ، دراصل پاکستان انڈیا تصادم کی اصل وجہ نہیں ہے ، بلکہ یہ محض ایک علامت ہے۔اگر پاکستان میں واقعی طاقت ہوتی تو پھر پاکستان انڈیا سے کشمیر لے چکا ہوتا۔ 70 سالوں میں کئی جنگوں اور جھڑپوں کے باوجود کشمیر کی ایک انچ زمین بھی فتح نہیں کی جا سکی ہے ۔ مسئلہ کشمیر نفرتوں کو قائم رکھنے کا ایک بہانہ ہے۔ ایک چولھا ہے ،جس پر عسکری مفادات کی ہانڈی پکائی جارہی ہے۔ ہمیں مذہبی بنیادوں پر ہندو سےنفرت چھوڑ کر جنوبی ایشیا کی 1000 سالہ مقامی تہذیب و تمدّن، حکمت و دانش کو اپنانا ہوگا ، جس کا منبع بدھ مت، صوفی، یوگی، بابا نانک، نظام الدین اولیاء، خواجہ معین الدّین چشتی اجمیری کی انسان دوستی کا پیغام ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد نے اپنے لیکچر میں مزید فرمایا کہ جنرل مشرف کے دور میں انڈیا سے انڈرسٹینڈنگ ہوگئی تھی، تعلّقات بہتری کی طرف گامزن ہوگئے تھے۔ اس نکتے پر بھی اتّفاق رائے ہوگیا تھا کہ 15 سال کے لئے دونوں طرف کے کشمیریوں کو زیادہ سے زیادہ داخلی خودمختاری دے دی جائے۔ اور ان کے آنے جانے کی پابندیاں اٹھا لی جائیں اور اس کے بعد پھر کوئی فیصلہ کرلیا جائے۔
انہوں نےاپنے لیکچر میں مزید فرمایا کہ زندگی اور تہذیب کا مطلب انسانوں کا مل جل کر رہنا ہوتا ہے۔ لڑنا مرنا اور ایک دوسرے کو فتح کرنا نہیں ہوتا ہے ۔ لڑائی اور نفرتیں جہالت کی پیداوار ہوتی ہیں۔ انہوں نے متنبّہ کیا کہ عسکری ریاست کا مقدّر افرا تفری ،انتشار اور بدنظمی، اور حتمی و منطقی انجام تباہی ہوتا ہے۔ اور آج تک پاکستان کی عسکری ریاست نے اپنے عوام کو افرا تفری ،انتشار اور بدنظمی کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔ اور اگر یہی لیل و نہار جاری رہے تو پاکستان کا انجام تباہی کےسوا کچھ نہیں ہوگا۔