پاکستان بھی دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرے

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور افغانستان مل کر اپنے مشترکہ دشمن کا مقابلہ کریں گے اور پاک افغان سرحد پر سکیورٹی اقدامات دونوں ممالک کے مشترکہ دشمن سے لڑنے کے لیے کیے گئے ہیں۔

جنرل باجوہ نے افغان انتظامیہ کی اس پیشکش کا بھی خیر مقدم کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے خلاف کارروائیوں کا حصہ بنے گی۔ گزشتہ جمعے کے روز پاکستانی  فوج نے پاک افغان سرحد کے قریب شدت پسندوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے تھے۔

اطلاعات کے مطابق پاکستانی  فوج نے کالعدم تنظیم جماعت الاحرار کے ایک تربیتی کیمپ پر حملہ کیا تھا، جس نے تیرہ فروری کو لاہور اور پندرہ فروری کو مہمند ایجنسی میں خودکش حملوں کی ذمہ داری قبول کی تھی۔ سیہون شریف میں ہوئے دہشت گردی کے بڑے واقعے  اور دیگر دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان نے افغانستان کے ساتھ اپنی سرحد کو بند کر دیا تھا۔

لیکن کیا پاک افغان سرحد کرنے سے مسئلہ حل ہو جائے گا؟

پشاور میں انگریزی روزنامہ دی نیوز کے ایڈیٹر رحیم اللہ یوسف زئی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ پاک افغان سرحد بند کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ سن 2014 میں  پشاور کے ایک اسکول پر حملے کےبعد بھی یہ سرحد بند کر دی گئی تھی اور پاکستان نے افغانستان کو شواہد بھی پیش کیے تھے۔ اس وقت کے فوج اور آئی ایس آئی کے سربراہان یہ ثبوت لے کر کابل گئے تھے۔ رحیم اللہ یوسف زئی تاہم اس بات کو خوش آئند قرار دیتے ہیں کہ دونوں ممالک مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے پر اتفاق کر رہے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’افغانستان کو پاکستان کے تحفظات دور کرنے چاہییں اور پاکستان کو بھی چاہیے کہ وہ افغانستان کے تحفظات اور خدشات دور کرے۔ پاکستان اور افغانستان آپس میں بات چیت کا سلسلہ شروع کریں اور  پھر پاکستان اور دیگر ممالک کوشش کریں کہ افغان طالبان اور کابل حکومت کےدرمیان مذاکرات عمل میں آئیں۔‘‘۔

دوسری جانب افغانستان کا کہنا ہے کہ اس نے شدت پسندوں اور شدت پسندی کے مراکز سے متعلق مکمل تفصیلات پاکستان کے حوالے کر دی ہیں۔ لہذا پاکستان کو بھی اپنے ملک میں موجود دہشت گردوں کے خلاف کاروائی کرنی چاہیے۔

افغانستان کی وزارت خارجہ نے ایک پریس ریلیز میں کہا ہے کہ اسلام آباد میں اُن کے سفارتی اہلکاروں نے پاکستان کو 85 اُن شدت پسندوں کے پتے اور ان تک پہنچنے کے نقشے فراہم کیے ہیں۔

پریس ریلیز کے مطابق اس فہرست میں طالبان کے رہبر شوریٰ، حقانی نیٹ ورک سمیت 85 ایسے دہشت گرد ہیں جو پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں موجود ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ دہشت گرد افغانستان میں شدت پسندی کے واقعات میں ملوث ہیں اور اُنھیں افغانستان کے حوالے کیا جائے۔

پریس ریلیز میں پاکستانی حکام کی جانب سے مثبت جواب کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اُنہیں یقین دلایا گیا کہ وہ ان کے خلاف کارروائی کریں گے۔

اس سے پہلے پاکستانی فوج نے تین روز قبل افغان سفارتخانے کے حکام کو جی ایچ کیو طلب کر کے ان سے وہاں پناہ لینے والے شدت پسندوں کے خلاف فوری کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

DW/BBC

Comments are closed.