پاکستانی ریاست کے پاس انتہا پسندی کے خاتمے کا کوئی حل نہیں

جنوبی ایشیائی امور کے جرمن ماہر یوخن ہِپلر کے بقول پاکستان کے پاس انتہا پسندانہ خونریزی کا تاحال کوئی دیرپا حل نہیں ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان میں یکے بعد دیگر کئی خود کش دہشت گردانہ حملے کیے گئے، جن میں 100 سے زائد افراد ہلاک ہو گئے۔ ان میں سے صرف صوبہ سندھ کے شہر سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار پر کیے گئے حملے میں 20 بچوں سمیت 88 افراد مارے گئے۔

سوال یہ ہے کہ پاکستان میں خونریزی کی اس تازہ لہر کی اگر کوئی وضاحت ممکن ہے، تو وہ کیا ہے؟ ان سوالات کے جوابات تلاش کرتے ہوئے ڈوئچے ویلے کے ہنس شپروس نے جرمنی کی ایسن ڈوئسبرگ یونیورسٹی کے ادارہ برائے ترقی اور امن سے وابستہ ماہر سیاسیات اور جنوبی ایشیائی امور کے ماہر ڈاکٹر یوخن ہِپلر کے ساتھ ایک تفصیلی گفتگو کی۔

ہنس شپروس نے ڈاکٹر ہِپلر سے پوچھا کہ صوفی اسلام کے خلاف مسلمانوں کے مختلف مذہبی گروپوں میں پائی جانے والی نفرت اور دشمنی کہاں سے آئی؟ اس سوال کے جواب میں یوخن ہِپلر نے کہا، ’’یہ مختلف سلفی گروہ ہیں، جو چاہے امن پسند ہوں یا تشدد پسند، جو صوفیانہ اسلامی سوچ کے خلاف نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔

صوفی اسلام ’معمول‘ کے اسلام کی طرح اس مذہب کے تحریری پیغامات پر بہت سختی سے عمل پیرا نہیں ہوتا۔ صوفی شخصیات مذہب میں روحانی رابطوں کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ اس کے برعکس سلفی نظریات کے پیروکار مذہبی احکامات اور الہامی پیغامات پر حرف بہ حرف عمل درآمد کو لازمی قرار دیتے ہیں۔

اسی لیے سلفیوں نے مسلم صوفیوں اور ان کے مزارات کو اسلام کے لیے خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ایسے انتہا پسندانہ سلفی حملوں کی اب تک سینکڑوں مثالیں پاکستان، افغانستان اور شمالی افریقہ میں مالی جیسے ممالک تک میں بھی دیکھنے میں آ چکی ہیں‘‘۔

اس سوال کے جواب میں کہ سلفی ایسے حملے کرنا درست اور اپنے لیے ضروری کیوں سمجھتے ہیں، ڈاکٹر ہِپلر نے کہا، ’’اصولی طور پر یہ حملے کسی مذہبی حکم  کا حصہ نہیں ہیں۔ جب معاشرے پرامن ہوں اور سماجی ڈھانچے بخوبی کام کر رہے ہوں، تو ایسے نظریاتی یا فرقہ ورانہ اختلافات کو بات چیت کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔

لیکن بحرانی حالات میں جب معاشرتی کشیدگی کی ایک پوری تاریخ موجود ہو اور مخالف مذہبی دھڑے انتہا پسندانہ رجحانات کے حامل ہو چکے ہوں، خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں ریاست نے اپنی طاقت اور اہلیت استعمال کرتے ہوئے ایسے مسلکی اختلافات کو دور نہیں کیا، وہاں ایسی خونریزی ملک میں پائے جانے والے حالات کا منطقی نتیجہ ہے۔ اگر پاکستانی ریاست اس کارکردگی کا مظاہرہ کرتی، جو اسے دکھانا چاہیے تھی، تو کافی زیادہ امکان ہے کہ مسلمانوں کے اندرونی مذہبی یا فرقہ ورانہ اختلافات ایسی خونریز صورت اختیار نہ کرتے‘‘۔

ہنس شپروس نے اس انٹرویو کے دوران ڈاکٹر ہِپلر سے یہ بھی پوچھا کہ پاکستان میں اس سخت گیر اسلام کی ترویج کیسے ہوئی، جسے زیادہ تر سعودی وہابیت سے جوڑا جاتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں یوخن ہِپلر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب میں 80 کی دہائی کے آخری برسوں میں پہلی بار پاکستان گیا تھا تو تب وہاں ’وہابی‘ کا لفظ تقریباﹰً ایک گالی تھا۔ لیکن اب صورت حال بدل چکی ہے۔

سلفی وہابی نظریات آج کے پاکستان میں قطعی معمول کی بات بن چکے ہیں اور دوسرے مذہبی مکتبہ ہائے فکر کی طرح پاکستانی معاشرے کی متنوع مذہبی پہچان کا حصہ ہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ روزگار کے لیے خلیجی عرب ملکوں کی طرف ترک وطن بالخصوص سعودی عرب میں کام کرنے والے لاکھوں پاکستانی کارکن اور سعودی عرب کی طرف سے پاکستان میں مساجد اور مدرسوں کی تعمیر کے لیے دی جانے والی وسیع تر رقوم‘‘۔

جرمن ماہر کے بقول ماضی میں پاکستان میں نظر آنے والا اسلام زیادہ تر صوفی اسلام ہی تھا۔ برصغیر میں اسلام پھیلانے میں صوفیاء  کا کردار فیصلہ کن تھا۔ لیکن گزشتہ چند عشروں کے دوران پاکستان میں محبت اور باہمی برداشت کا پیغام دینے والی صوفی مذہبی سوچ کو قدامت پسند اور غیر لچکدار سلفی نظریات کے پھیلاؤ نے بہت نقصان پہنچایا ہے۔

اگر اسلام کے اندر ہی مختلف مذہبی دھارے پاکستانی معاشرے کو شدید نقصان پہنچاتے ہوئے عام شہریوں کی ہلاکت کا باعث بن رہے ہیں تو پاکستانی ریاست کیا کر رہی ہے؟

اس سوال کے جواب میں امن پر تحقیق کرنے والے جرمن ماہر ڈاکٹر ہِپلر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان میں ایسے اکثر حملوں کے بعد، چاہے وہ ریاستی اداروں، فوجی اہداف یا مذہبی اہمیت کے حامل مقامات پر کیے جائیں، عام طور پر سرکاری ردعمل کی ایک لہر شروع ہو جاتی ہے۔ مذمتی بیانات، سکیورٹی میں اضافہ، چند ایک گرفتاریاں، کچھ لوگوں کو عدالتی سزائیں اور چند ایک مشتبہ دہشت گردوں یا عسکریت پسندوں کا سکیورٹی آپریشن کے نام پر ہلاک کر دیا جانا۔

لیکن حکومت اس دلدل کو خشک کرنے کی کوئی کوشش نہیں کرتی، جہاں سے یہ ہلاکت خیز انتہا پسندی جنم لیتی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں موجودہ ریاستی ادارے بھی نظر انداز نہیں کیے جا سکتے، جنہیں دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی ختم کرنے سے پہلے خود بھی جامع اصلاحات کی ضرورت ہے‘‘۔

DW

Comments are closed.