آزاد کشمیر کے نئے چیف جسٹس، چوہدری ابراہیم ضیا ، نے حلف اٹھانے کے بعد عدلیہ میں کرپشن ختم کرنے کی بجائے ملازمین کو نماز کی ادائیگی کی حکم دیا ہے اور اس عمل کو سالانہ ترقی سے مشروط کیا ہے۔یاد رہے کہ پچھلے ہفتے ہی پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے قرآن کی لازمی تعلیم کا بل بھی منظور کیا ہے۔
چیف جسٹس نے ابھی یہ وضاحت نہیں کہ لازمی نماز پڑھنے کا حکم ہائی کورٹ تک ہی محدود ہو گا یا نچلی عدالتوں پر بھی لاگو ہوگا؟
سوال یہ ہے کہ کیا ان اقدامات سے پاکستان کے عوام کو صحت ،تعلیم و سماجی انصاف جیسی بنیادی سہولتیں مہیاہو جائیں گی؟کیا قرآن پڑھنے اور نمازیں پڑھنے سےعدلیہ سمیت شعبہ ہائے زندگی سے کرپشن ختم ہوجائے گی؟ افسوس سے کہنا پڑتا ہے مندرجہ بالا اقدامات سے معاشرے میں کسی قسم کی بہتری کی بجائے منافقت میں اضافے کے موجب ہی بنیں گے۔
ماہر عمرانیا ت کے مطابق عبادات یا مقدس کتابوں کے پڑھانے سے کسی بھی قوم کو مذہب کی جبری تعلیم اور عبادات سے درست نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی عوام کو بنیادی سہولتیں مہیا کی جاسکتی ہیں ۔اگر ایسا کچھ ہو سکتا تو آج کم ازکم اسلامی دنیا ایک مثالی سماج کا نمونہ ہوتی۔
سابق ڈکٹیٹر جنرل ضیا کے بعد پہلی مرتبہ کسی بھی سرکاری ادارے کے سربراہ نے اس طرح کے احکامات جاری کیے ہیں جس میں سرکاری ملازم کی ترقی کے لیے کارکردگی کے ساتھ ساتھ نماز کی پابندی سے ادائیگی کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ جبکہ نواز حکومت سکولوں میں قرآن کی لازمی تعلیم کا بل لا رہی ہے۔
پاکستانی سماج تو ابھی تک جنرل ضیا کی متعارف کردہ منافقت کا خمیازہ بھگت رہا ہے کہ اوپر سے نواز حکومت اور اس کے خوشامدیوں نے اس میں مزید اضافے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔
پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ مظفر آباد کی جانب سے جاری کردہ تحریری بیان میں درج ہے کہ چیف جسٹس ابراہیم ضیا کا کہنا تھا کہ ‘آج کے بعد سپریم کورٹ میں تعینات ہر کوئی آفیسر و اہلکار نماز کا پابند ہو گا۔ سالانہ ترقی نماز کی باقاعدگی سے مشروط ہو گی۔ دو گروپ بنائیں ایک گروپ کی امامت خود کرواؤں گا جبکہ دوسرے گروپ کی امامت امام مسجد کروائیں گے‘۔اس کے لیے انہوں نے نظام صلوۃ کمیٹی بنانے کا اعلان بھی کیا ہے۔
چیف جسٹس چوہدری ابراہیم ضیا کا یہ بھی کہنا تھا کہ خفیہ طور پر چیک بھی کیا جائے گا کہ کون ملازم نماز کی پابندی نہیں کرتا۔انھوں نے کہا کہ ‘سرکاری ملازمین اپنے فرائض منصبی پوری محنت، دیانت، خلوص نیت، لگن اور ذاتی پسند نا پسند سے بالاتر ہو کر سر انجام دیں علاقائی، لسانی اور گروہی تعصبات سے بالا تر ہو کر ملت اسلامیہ کے فرد کی حیثیت سے اپنے فرائض کی بجا آوری یقینی بنائیں۔
چیف جسٹس ابراہیم ضیا کی جانب سے سپریم کورٹ کے ملازمین کی ترقی کارکردگی کے علاوہ نماز کے ساتھ مشروط کرنے پر پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے عوام نے اس متنازعہ حکم پر اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے۔
مظفرآباد سینٹرل بار کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر احمد ایڈوکیٹ نے اس بیان پر اپنے اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘ہمارے عقیدے کے مطابق نماز فرض ہے اگر کوئی ملازم نماز جیسے فرض کو ادا کرنے میں کوتائی کرتا ہو تو ممکن نہیں کہ وہ ملازم فرائضں منصبی بھی درست انداز میں ادا کرے ۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر چیف جسٹس نے ملازمین کو فرض پر عمل کرنے کو کہا ہے تو اس میں کوئی عار نہیں کیونکہ بحیثیت مسلمان ہم ا س سے انکار نہیں کر سکتے۔
صحافی امیرالدین مغل کا کہنا ہے ‘نماز ہر مسلمان پر فرض ہے لیکن ملازم کی ترقی کارکردگی اور ایمانداری سے مشروط ہونی چاہے‘ انھوں نے کہا کہ ‘سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی ملازم نماز پڑھے مگر وہ اپنے فرائضی منصبی دیانتداری سے ادا نہ کرے تو کیا وہ ترقی کا مستحق ہو گا‘۔
BBC/News Desk
♦
2 Comments