آج کل آسٹریلیا کے سابق وزیراعظم کا ایک پرانا بیان سوشل میڈیا پر گردش کر رہا ہے۔مسلمان تارکین وطن کے بارے میں اس بیان پر مختلف حلقوں میں بحث جاری ہے۔اسلامی بنیاد پرستوں کو اپنا سینہ پیٹنے اور غصہ ٹھنڈا کرنے کا ایک تازہ بہانا ہاتھ آگیا ہے۔سو وہ حسب سابق تیر و تفنگ سے لیس ہو کر میدان میں اتر آئے ہیں۔وہ اس بیان کی آڑ میں مغرب کے خلاف اپنے دلوں میں چھپ ہوئی بے پنا ہ نفرت، بغض اور حسد کا اظہار کر رہے ہیں۔
مگر بد قسمتی سے جہالت پر مبنی نفرت کے اس ریلے میں موجود کچھ پڑھے لکھے مسلمان نوجوان بھی شامل ہو رہے ہیں۔جو اسی نفرت کا اظہار سوشل میڈیا پر انگریزی اور فرانسیسی میں کر رہے ہیں۔یعنی ان مغربی زبانوں میں ملاں کی بولی بول رہے ہیں۔جو پڑھے لکھے لوگ اس جہالت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ان کی تحریریں خود اس بات کا واضح اور نا قابل تردید ثبوت ہیں کہ انہوں نے آسٹریلین وزیر اعظم کا بیان خود پڑھنے اور سننے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔اس کے بجائے انہوں نے ملاں کے بیان کو سند جان کر ان کی تان پر ناچنا شروع کر دیا۔
ہمارے ملاؤں کی طرح کی مخلوق یہاں مغرب اور آسٹریلیا وغیرہ میں بھی وافر مقدار میں پائی جاتی ہے۔ دائیں بازوں کابنیاد پرست خواہ مغربی ہو یا مشرقی ، اسلامی ہو یا عیسائی اس میں بنیادی طور پر کوئی فرق نہیں ہوتا۔ان میں حیرت انگیز مشابہت ہوتی ہے۔ یہ لوگ صرف ظاہری حلیے سے مختلف لگتے ہیں۔لیکن ان کے دل و دماغ سو فیصد ایک ہوتے ہیں۔جن میں نفرت، غصہ خوف ، حسد اور کینہ بھرا ہوتا ہے۔آسٹریلیا میں وقتاً فوقتاً دائیں بازو کے قدامت پرست سیاست دان اگتے رہے ہیں۔یہ لوگ تارکین وطن کے خلاف اپنے غصے اور نفرت کا سر عام اظہار کرتے رہے۔
یہاں مذہب اور نسل کی بنیاد پر تارکین وطن کے خلاف امتیازی برتاؤ بہر حال ایک بڑا مسئلہ رہا ہے اور ہے۔اس کی جس قدر بھی مذمت کی جائے کم ہے۔یہ بنیاد ی طور پر گہری جہالت کی نشانیاں ہیں جو کئی کئی بد قسمتی سے ان مہذب معاشروں میں بھی ابھی تک پائی جاتی ہیں۔ان نشانیوں کے خلاف یہاں جدو جہد جار ی ہے۔مگر بات یہ ہے کہ کسی بھی شخص کے بیان کو پڑھے اور سمجھے بغیر اس پر تبصرہ انصاف کے تقاضوں کے منافی ہے۔اور یہ سماج میں مزید نفرت اور گمراہی پھیلانے کی ایک شعوری کوشش کا حصہ ہے۔
اس بیان کو اگر غور سے پڑھا جائے تو اس میں غور و فکر کا بڑا سامان ہے۔ سابق وزیر اعظم نے یہ نہیں کہا کہ مسلمان آسٹریلیا سے نکل جائیں۔انہوں نے یہ کہا کہ جو مسلمان آسٹریلیا میں شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ آسٹریلیا سے چلے جائیں۔یعنی اس گفتگو کا اہم لفظ شریعت ہے مسلمان نہیں۔ چنانچہ وزیراعظم کے مخاطب آسٹریلین مسلمان نہیں بلکہ افراد کا ایک چھوٹا سا خوردبینی گروہ تھا۔یہ وہ کوڑھ مغز شدت پسند لوگ ہیں جو مختلف مغربی ملکوں میں شریعت کے نام پر اکثر اپنی جہالت کی نمائش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔یہ لوگ حضرت محمدؐ کے نام اور ان کی تعلیمات پر ایک بد نما داغ ہیں۔
بنیاد ی طور یہ وہ لوگ ہیں جو جو مختلف اسلامی ملکوں میں نافذ طرح طرح کی شریعت اور اس کے بطن سے جنم لینے والی غربت،بدحالی، لوٹ ،ذلت اور نا انصافیوں سے بھاگ کر آزاد ملکوں میں پناہ لیتے ہیں۔قرآن شریف پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولتے ہیں۔ان ملکوں کے آئین ، اس کے قانون کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔لیکن ویلفئیر کا پہلا چیک وصول کرتے ہی ان کو شریعت کے دورے پڑنے شروع ہو جاتے ہیں۔اور پاسپورٹ ہاتھ میں آنے کے بعدتو یہ اپنے اپ کو اللہ کا خاص اور چنا ہو ا فرد سمجھنا شروع ہو جاتے ہیں جن کا مغرب میں تشریف لانے کا مقصد اس معاشرے کو راہ راست پر لانا ہے۔
پھر یہ ہر قدم پر اپنے حلیے چہرے مہرے اور حرکات و سکنات سے یہ ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں کہ یہ انتہائی پاک بلکہ برگزیدہ لوگ ہیں۔اور یہ مقام لوگ انتہائی غلیظ اور گمراہ لوگ ہیں جن کو فی الفور راہ راست پر لانے کی ضرورت ہے۔مغرب کی وہ آزادیاں اور کھلا پن جس کے طفیل ان کو یہاں رہنا نصیب ہوتا ہے اچانک ان کو ایک شیطانی نظام لگنا شروع ہو جاتا ہے۔اور ان کے دماغوں میں ایک خود ساختہ شریعت کی کھچڑی پک رہی ہوتی ہے جس کا نفاذ اس شیطانی سماج پر نافذ کرنا ضرور ہو جاتا ہے۔
ویلفئیر کے چیک اور کیش پر کام کے ساتھ ساتھ ان کے جو فکری ارتقا ہوتا ہے وہ ان کے حلیے میں دکھائی دیتا ہے۔ پاسپورٹ ملتے ہی پتلون کی جگہ شلوار لے لیتی ہے جس کا ٹخنوں سے اوپر ہونا ضروری ہوتا ہے۔ان کی چھ سالہ بچی کے چہرے پر نقاب آجاتا ہے۔ بچوں کو مدرسہ سکولوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔اور یہ پورے خاندان سمیت شریعت کے قافلے میں شامل ہوجاتے ہیں۔ان کی زبان انگریزی یا فرانسیسی کے بجائے عربی یا اردو بن جاتی ہے۔
آسٹریلین وزیر اعظم شریعت کے اس قافلے سے مخاطب تھے مسلمانوں سے نہیں۔چنانچہ مسلمانوں کو آسٹریلین وزیر اعظم سے نہیں اپنے ان خود ساختہ شریعتی بھائیوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔
♦