ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ
بلاخر ایک سو چالیس سال تک علاقہ غیر، یاغستان ، فاٹا، آزاد قبائل اور پتہ نہیں کیا کیا کچھ کہلائے جانے والے خطے کو جدید ریاستی اور قانونی ضابطے میں ڈالنے کی ضرورت مقتدر قانون ساز عوامی نمائندوں اور اسٹیبلشمنٹ کو یاد آ ہی آگئی۔اب تک اس کرم فرمائی سے کیوں محروم کئے رکھا گیا اس پر شاید کسی نے سوال اُٹھایا ہو۔
ایک نامہربان کافر نوآبادکار نے فاٹا کو کم و بیش ۴۶ سال تک ایف سی آر کے شرمناک قانون کے تحت رکھا، لوگوں پر اپنی دھاک بٹھانے کیلئے اجتماعی سزائیں دیں گئیں، ایک شخص کی بغاوت کے پاداش میں گاوں اور قصبے جلائے گئے، گھر اور قلعے مسمار ہوئے، پولیٹیکل ایجنٹ کوآقائے مطلق بنا کر لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولتوں اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھاگیا۔ اقبال نے جس مرد کوہستانی کی کو سراہا تھا ، یک گونہ جبر اور استحصال نے اسکی روح کوتو مسخ کیا ہی اور کرداری نقائص میں بھی اتنا آگے نکلتا چلا گیا کہ دنیا جہان میں اپنےہی خون کا پیاسا بنا ۔وہ اسلحے سے پہلے بھی محبت کرتا تھا، سوسال تک کاندھے پر لٹکائے رکھتا اور ایک دن اسکے استعمال کا ہوتا۔ وہ دن کسی ملی اور قومی دشمن کو ناکوں چنے چبوانے والا دن ہوتا تھا ۔
ایجنسیاں بنانے کا پائلٹ ٹیسٹ ۱۸۷۸میں ہوا جب خیبر کی جیزائلچی (بعد میں خیبر رائفلز) کی قبائلی لشکر کو ڈیورنڈ لائن کی عملداری کیلئے بنایا گیا۔ ہندوکش کے پشتونوں کو افغانستان کے پشتونوں کے روبرو لا کھڑا کرنے کا یہ سامراجی گُر کافی حد تک کامیاب رہا، جس نے افغانستان کو اگلے ڈیڑھ سوسال تک (آج تک) سٹرٹیجک دفاعی خطے تک محدود کیا۔ نوآبادیاتی دور میں یہ خطہ روس اور برٹش انڈیا کی براہ رست مداخلت کا شکار رہا، اور آزادی ہند کے بعد پاکستان اور ہندوستان نے ان روایتی نوآبادکاروں کی سُنت کو زندہ کئے رکھا۔
قصہ کوتاہ، انگریزوں کے سامراجی دفاعی منیجمنٹ کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے ۱۸۷۸میں خیبر کے قبائل کو وظیفوں، الاونسز اور لنگی کے نام پر نقد رقوم دینے کا رواج شروع ہوا۔ دوسری اینگلو ۔افغان جنگ میں یہ حکمت عملی کافی حد تک کارگر ثابت ہوئی اور ہندوستان سے افغانستان میں داخل ہونے والے تمام درے اسی نظام کے توسط سے محفوظ بنائے گئے۔ قبائل کے گنے چنے اور پروردہ افراد کے ساتھ معاہدے کئے گئے۔یہاں سے قبائلی لشکر اور لیویز فورس وجود میں آئی ۔ عوامی جرگہ رفتہ رفتہ سرکاری جرگے میں ڈھلنے لگا، پشتون ولی کے ضابطے کے مطابق ایک عام شخص کو جوابدہ ملک، خان اور سردار پولیٹیکل ایجنٹ کے نمک خوار اور وظیفہ خور بن گئے، ایف سی آر کے کالے قانون کو لاگو کرنے میں انکے ہاتھ پیر بنے رہے ۔
سال ۱۹۴۷ میں پاکستان بننے کے بعدآزادی ہند کے ایکٹ کے مطابق انگریزوں سے کئے گئے تمام معاہدے از خود منسوخ قرار پائے۔ انگریزوں کے رخصت ہو جانے کے بعد اس عضوئے پریشان (فاٹا) کی دیکھ بھال ایک مہربان مسلم ریاست کے دست شفقت میں ہونا تھی۔لیکن فاٹا کے اس خطے کو خودمختار قرار دیا گیا اور پاکستانی افواج کوخطے سے نکالے جانے کی شرط پر ایف سی آر کو فاٹا کا انتظامی اور عدالتی قانون بنایا گیا۔
ایف سی آر کو لاگو کرنے کیلئے گورنر کی سفارش پر ایک سنئیر آفیسر پولیٹیکل ایجنٹ بنتا اور پھر وہ یہاں پر ایف سی آر کے کالے قانون کی مدد سے بادشاہوں کی طرح رعب و دبدبے اور جاہ و جلال سے زندگی گزارتا۔ بد قسمتی سے فاٹا کے نوآبادیاتی ساخت میں کوئی خاطر خواہ رد وبدل نہیں کی گئی۔ آزادی اور خودمختاری نے مختلف قسم کے جرائم کو بڑھاوا دیا ، اسلحے اور منشیات کی آزادانہ نقل و حرکت، اور کاروبار نے یہاں کی سماجی ساخت کو یکسر بدل ڈالا۔ تشدد، مارپیٹ، قتل و غارت گری ، اسلحہ سازی، منشیات فروشی، اغوا برائے تاوان اور ناجائز طور طریقوں سے دولت کی کمائی نے سماجی سطح پر جواز حاصل کیا۔
سرگرمیوں پر مطلق پابندی، متبادل تعلیمی اور معاشی پالیسیوں کی عدم موجودگی نے فاٹا کی سات ایجنسیوں کو مذہبی عسکریت کیلئے ایک محفوظ پناہ گاہ بنا لی ۔ سرد جنگ کے دوران اس علاقے کے عوام کا بے دریغ جذباتی استحصال کیا گیا، انھیں مذہب کے نام پر منظم کیا گیا اور پھر یہاں پر دو دہائیوں تک عسکری تنظیمیں کسی نہ کسی صورت میں اپنے وجود پر قائم رہیں۔نائن الیون کے المناک واقعے کے بعد جب افغانستان سے طالبان اور القاعدہ کےپاوں اکھڑ گئے، تو انہوں نے شمالی وزیرستان سے فاٹا میں داخل ہونے کا محفوظ رستہ پالیا۔
اس طرح ۲۰۰۲ کے بعد انہیں یہاں پر ازسر نو منظم کیا گیا، جس نے رفتہ رفتہ عالمی سطح پر خوف و ہراس کے ابھرتے ہوئے سائے محسوس کروائے۔ معروف تجزیہ نگار رشید احمد اپنی کتاب” ڈیسنٹ انٹو کیاس “ میں لکھتے ہیں کہ لندن، میڈرڈ، بالی، جرمنی، ڈنمارک، اسلام آباد اور کابل میں کئے گئے دھماکوں کی منصوبہ بندی یہیں سے ہوئی تھی۔ لیکن اس سے مقامی معاشرہ شدید بدنظمی اور عدم اعتماد کا شکار رہا۔
جنگی معیشت نے قبائلی سماج کی اندر طاقت کے توازن کو بری طرح سے متاثر کیا، جس نے یہاں کے ثقافتی اقدار اور اداروں کو غیر متعلق بنادیا۔نوآبادیاتی دور میں تو اگرچہ قبائلی معاشرے کے ثقافتی ڈھانچے کو اپنے حق میں تبدیل کرانے کیلئے موقع پرست اور لالچی لوگوں کو بطور مشیران متعارف کرایا گیا۔ سیاسی رشوتیں، مراعات ، راہداریوں کے کلچر کو خوب پروان چھڑایا گیا ۔
اکبر ایس احمد کی معروف کتاب” وسل اینڈ ڈرون” اسی معروضی حقیقت کو بتانے کی کوشش کرتی ہے کہ فی الوقت دہشت گردی کی جنگ دنیا کے مضبوط ترین ٹیکنالوجیکل قوم اور پسماندہ ترین قبائل کے درمیان لڑی جارہی ہے، فاٹا کے عوام اکیسویں صدی کی اس سفاک اور یکطرفہ لڑائی میں سب سے زیادہ قتل ہوئے، بے گھر ہوئے، معاشی اور ثقافتی طور پر تباہی سے دوچار کئے گئے۔ جنگ سے ملنے والی خون بہا کی قیمت اگرچہ اربوں ڈالر تھی، لیکن دوبارہ آبادکاری، یا اقتصادی حالت کو بہتر کرنے کیلئے کوئی قابل ذکر کام منصوبے دیکھنے میں نہ آسکے ۔
اگرچہ آخری ایام کے انگریز مستشرقین میں سے چند فاٹا کے عوام کےساتھ رکھے گئے انگریز سامراج کے اس چلن پر تو شرمسار ہیں لیکن پاکستانی سیول اور عسکری قیادت نے شاید ابھی تک پانچ ملین انسانوں کو اس چڑیا گھر میں رکھنے کے حوالے سے کوئی پشیمانی ظاہر نہیں کی۔ آج سوال یہ ہے کہ ستر سال تک اس خطے کو یوں ہی سامراجی ضابطوں کے طرز پر چلانے میں کیا مصلحت پوشیدہ تھی ؟ ۔ آزادی کے بعد یہ علاقہ مقامی اور ملکی سطح کی بدنام ذمانہ پیشہ ور مجرموں کی آماجگاہ کیوں بنی رہی، یہاں پر اسلحے اور منشیات کے آزادانہ استعمال اور خرید و فروخت کو کیوں کسی قانونی ضابطے میں نہیں لایا گیا؟۔
اس خطےمیں اصلاحات کرنے کی کاوشیں بھٹو، بینظیر اور زرداری کے ادوار میں دیکھنے کو ملیں، لیکن کوئی بھی اقدام بیگانگیت، اور جغرافیائی جبر کے اس کالے جادو کا توڑ نہ ڈھونڈ سکے۔ اب چونکہ فاٹا کی تقدیر کا درخشندہ ستارہ ایک بار پھر چمک اُٹھا ہے۔ ارباب اقتدار اسے خیبر پختونخوا میں ضم کرنے پر غور کر رہے ہیں ۔ زیادہ تر متحارب سیاسی تنظیمیں جو عموماً کسی بھی مسئلے پر یکجا نہیں ہو پا تے۔ فاٹا کے انضمام کے حق میں ایک ہی صف میں ہیں ۔ عوامی نیشنل پارٹی جو اس خطے میں بااثر پشتون قوم پرست تنظیم ہے۔ اسی موقف کے ساتھ میدان عمل میں اتری ہے ۔جبکہ اس موقف سے اختلاف رکھنے والے سیاسی جماعت خصوصا پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی اور جمیعت علما اسلام فاٹا میں متوقع تبدیلی کو عوامی رائے سے منسوب کرنے کے حق میں ہیں۔
وہ فاٹا کو بتدریج ایک باقاعدہ صوبے کا درجہ دینے کی تجویز کے ساتھ ساتھ اس پر عوامی سطح کی مکالمے اور رائے دہی کو اہم سمجھتے ہیں۔ فریق اولیٰ خصوصا عوامی نیشنل پارٹی کی قیادت انضمام کی مخالفت کرنے پر مذکورہ پارٹیوں کو شدید انداز میں ہدف تنقید بناتی ہے اور اس عمل کو فاٹا کی تقدیر کے ساتھ کھیلواڑ سے منسوب کرتے ہیں۔ دوسری طرف فریق ثانی عجلت میں انضمام کے عمل کو غیر منطقی تصور کرتی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اسی مسئلے سے متعلق دونوں فریقین کے سرگرم عمل کارکنوں نے آستینیں چڑھا لیں ہیں، دلائل کے تیرکش خالی ہونے میں نہیں آرہے۔ایک فریق جرگے کی ساکھ اور اس میں شرکت کی اہلیت پر سوال اُٹھاتی ہے جبکہ دوسرا فریق اسے کامیاب قرار دے رہا ہے۔ بہر صورت دونوں پشتون قوم پرست سیاسی پارٹیوں کے درمیان اس مسئلے پر جو اختلاف پیدا ہوا ہے وہ شاید پشتون قومی سوال کو مزید الجھانے کا سبب بنے۔ یاد رہے کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا وجود میں آنا اور نیب سے علیحدہ ہونا بھی ایک ایسے ہی تاریخی انضمام کی وجہ سے ہوا جس نے بلوچستان میں پشتونوں کی شناخت، تناسب اور سیاسی نمائندگی کو نصف صدی سے شدید انداز میں متاثر کیاہے۔
پشتونوں کو چار انتظامی اکائیوں میں تقسیم کئے جانے اور انکی عددی برتری کی اثر کو زائل کرنے کے عمل کو چیلنج کرنا، وفاق کو ایک نئے عمرانی معاہدے کیلئے آمادہ کرنا، صوبائی خودمختاری کے منزل تک پہنچنا اور پشتونوں کو اس ملک کے باعزت اور باوقار شہریوں کے طور پر تسلیم کرانا دونوں سیاسی جماعتوں کے مشترکہ اھداف ہیں۔لیکن فی الوقت جو خلیج فاٹا کی مستقبل سے متعلق درمیان میں آیا ہے یہ بلاشبہ محکوم اور نظرانداز پشتونوں کیلئے بد شگون ہے۔
خاکسار کی رائے بس اتنی سی ہے کہ فاٹا کی تقدیر کا فیصلہ عجلت میں کرنے سے شاید اس خطے کے مسائل کا مداوا نہ ہو سکے۔ جس انداز سے اس خطے کو ۱۴۰سا ل تک رکھا گیا، یہاں پر اکیسویں صدی کی سب سے خطرناک جنگ لڑی گئی، اب یہاں پر اکثر لوگ جنگ زدہ ہیں ، بے گھر ہیں ، ہزاروں بچے یتیم ہوئے ہیں ، معاشی انفرا سٹرکچر اور سماجی فیبرک بری طرح سے تباہ ہوا ہے، لہٰذا مملکت خداد پاکستان کا یہ انگ پریشان خصوصی توجہ اور بھرپور ریلیف کا طالب ہے۔
جنگی معیشت اور قبائلی طرز زندگی سے جڑے ہوئے مسائل کی نوعیت پیچیدہ بھی ہے اور ملک کے دیگر علاقوں سے مختلف بھی ۔انہیں جس شدت سے طویل عرصے کیلئے نظر انداز کیا گیا اب کم ازکم اپنے وسائل کو بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے ہی محکومی اور محرومی کے دلدل سے انہیں نکالا جاسکتا ہے۔ جبکہ انضمام میں انکے حقوق ، نمائندگی اور وسائل کے روندھے جانے کے امکانات زیادہ ہیں۔عبوری دور میں کم ازکم ایف سی آر کا قلع قمع کیا جائے اور مکمل خودمختا ر صوبائی حیثیت کیلئے منظم سیاسی تحریکیں ، عوامی سطح پر مکالمے کا اہتمام کیا جائے جو کہ یہاں کی عوامی امنگوں ، خواہشات اور ضروریات کے مطابق اس خطے کی تشکیل نو میں اہم سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔
زخم خوردہ اور سیاسی عمل کے نتیجے میں پیچھے رکھے گئے خطے کا مداواا کیسے ہو یہ اپنی جگہ ایک بہت بڑا چیلنج ہے، کیونکہ فاٹا کا دکھ باقی علاقوں سے مختلف ہے، اور اسکا مداوا بھی اسی حساب سے کیا جائے ۔ غالب کا ایک فارسی شعر شاہد اس مظہر کو بیان کرنے میں مدد کرسکے۔
جنت نہ کند چارہ ئے افسردگی دل
تعمیر بہ اندازہ ئے ویرانی ئے ما نیست
♦
One Comment