لاہور میں اسمبلی ہال کے قریب ہونے والے ایک ’بڑے دھماکے‘ کے نتیجے میں کم از کم 13 افراد ہلاک اور 71 زخمی ہو گئے ہیں۔ہلاک ہونے والوں میں ڈی آئی جی ٹریفک لاہور احمد مبین اور ایس ایس پی پنجاب پولیس زاہد گوندل بھی شامل ہیں۔ اس خود کش حملے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کر لی ہے۔
کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی) کے سربراہ ڈاکٹر محمد اقبال نے کہا ہے کہ حملہ آور پیدل چل کر آیا جبکہ ایک مقامی پولیس افسر علی رضا کے مطابق یہ دھماکا اس وقت ہوا، جب ایک موٹر سائیکل سوار احتجاجی ریلی میں گھس گیا۔
گزشتہ برس ایسٹر کے موقع پر بھی لاہور کے ایک پارک میں بم دھماکا ہوا تھا، جس کے نتیجے میں کم از کم ستر سے زائد افراد مارے گئے تھے۔
جس احتجاجی ریلی میں یہ دھماکا ہوا، وہ حکومت کے خلاف تھی۔ اس ریلی کا انعقاد پنجاب میں ادویات کے کاروبار سے وابستہ مختلف ایسوسی ایشنز کی اپیل پر کیا جا رہا تھا۔
پاکستان میں جماعت الاحرار کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ جماعت الاحرار کا موقف ہے کہ یہ کارروائیاں اُس فوجی آپریشن کے خلاف کی جا رہی ہیں، جس میں اس تنظیم کو ہدف بنایا جا رہا ہے۔ یہ تنظیم 2014ء میں تحریک طالبان پاکستان کے ٹوٹنے کے بعد وجود میں آئی تھی۔
اس دہشت گردانہ حملے نے ملک میں سکیورٹی کی صورتحال پر ایک اور سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ ابھی 7 فروری کوانسداد دہشست گردی کے قومی ادارے نیکٹا کی طرف سے ایک انتباہی پیغام جاری کیا گیا تھا، جس میں پنجاب کے شہر لاہور پر ممکنہ دہشت گردانہ حملے سے خبر دار کیا گیا تھا۔
اس اعلان نامے میں پنجاب کے ہوم سیکرٹری سمیت صوبائی پولیس آفیسروں اور ڈی جی رینجرز پنجاب کے نام ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ پنجاب کے تمام اہم اداروں کی عمارتوں بالخصوص اسکولوں اور ہسپتالوں پر سخت حفاظتی پہرا لگایا جائے اور حساس مقامات اور عمارتوں پر سکیورٹی ہائی الرٹ رکھی جائے تاکہ کسی ممکنہ حملے کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اس پر پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ نیکٹا کے انتباہی نوٹیفیکیشن کے بعد تمام اہم عمارتوں اور مقامات کی حفاظت کے لیے سکیورٹی کے اقدامات سخت تر کر دیے گئے تھے۔ اس کے باوجود پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے نزدیک ہونے والا خود کُش بم حملہ ناقابل فہم بات لگتی ہے۔
امریکا جماعت الاحرار کو ایک دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے۔ سلامتی کے ادارے پاکستان میں سرگرم تمام دہشت گردوں گروپوں میں سے
جماعت الاحرار کو سب سے زیادہ شدت پسند قرار دیتے ہیں۔ اسی تنطیم نے پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی اور 2016ء کے آغاز پر لاہور کے ایک پارک پر ہونے والے حملے میں بھی یہی تنظیم ملوث تھی۔
انسداد دہشت گردی یونٹ کے ایک ذمہ دار نے نام خفیہ رکھنے کی شرط پر بتایا کہ یہ تنظیم پاکستان کے افغانستان سے ملنے والے علاقے میں سکیورٹی فورسز کے لیے ایک چیلنج بنی ہوئی ہے۔ پاکستانی حکام کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ جماعت الاحرار اپنے حملوں کی منصوبہ بندی افغانستان میں بیٹھ کر کرتی ہے او وہیں پر شدت پسندوں کو تربیت بھی فراہم کی جاتی ہے۔
DW