حضرت لال شہباز قلندر کی درگاہ شریف پر ہشت گردی کا واقعہ دردناک ہے۔افسوس ناک ہے۔مگر نیا نہیں۔غیر متوقع بھی نہیں۔ارباب اختیار کا ر عمل بھی حسب روایت ہی ہے۔بیرونی قوتوں کو مورد الزام قرار دیکر اپنی ذمہ داری سے سبکدوشی یا پھر چند اضطراری اقدامات۔یہ واقعہ کوئی آخری بھی نہیں کہ ارباب اختیار سچائی کو تسلیم کرنے سے گریزاں ہیں۔اور جب تک یہ گریز جاری رہے گا،آگ و خون کا یہ کھیل بھی جاری رہے گا۔معصوم اور غریب لوگوں کا خون اسی طرح بہتا رہے گا۔
سچائی کیا ہے ؟ سچ یہ ہے کہ دہشت اور خوف کا یہ کھیل کھیلنے والے لوگ جو ہم نے سوویت یونین کے خلاف مغربی سرمایہ داری کی مقدس جنگ لڑنے کے لیے کچھ دنیا بھر سے ڈھونڈ کر جمع کیے اور کچھ پاکستان کے ان مقامی کارخانوں اور نرسریوں میں پیدا کیے جن کو ہم نے مدارس کا مقدس نام دے رکھا ہے۔سوویت یونین اپنے اندرونی حالات اور گورباچوف کے آئیڈل ازم کی وجہ سے خود اپنی مرضی سے افغانستان چھوڑ کر چلا گیا، مگر ہم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ یہ سب ہمارہ کیا دھرا ہے۔ہم نے با آواز بلند یہ کہنا شروع کر دیا کہ ہم نے نہ صرف سوویت یونین کو جہاد کے ذریعے شکست دی بلکہ اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دئیے۔
تاریخ کا یہ سب سے بڑا جھوٹ ہم نے اتنی کثرت سے بولا، لکھا اور پڑھا کہ ہمیں خود اس کے سچ ہونے کا یقین ہو گیا۔چنانچہ ہم اپنا اتنا بڑا کارنامہ دیکھ کر اپنے آپ کو عظیم سمجھنے لگے۔اپنی عظمت کے عشق میں مبتلا ہو گئے۔ہم نے اپنے آپ کو یہ یقین دلا دیا کہ یہ جہادی ہمارا عظیم اثاثہ ہیں۔ ان اثاثوں کی موجودگی میں ہمیں خود کوئی جنگ لڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔اپنا ایک بھی فوجی شہید کروائے بغیر ہم اپنے دشمنوں کو ان اثاثوں کے ذریعے جب چاہیں خون میں نہلا سکتے ہیں۔یا اٖفغانستان جیسے ملکوں میں سیاسی تبدیلی اور طاقت کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔کشمیر میں جہاد کر سکتے ہیں۔ بھارت میں خون خرابہ اور دہشت پیدا کر سکتے ہیں۔
اس سوچ کے زیر اثر ہم نے ان لوگوں کو باقاعدہ سرکاری سطح پر گود لے لیا۔ان کو مزید منظم ہونے اور پھلنے پھولنے کی سہولیات اور وسائل مہیا کر دئیے۔ان کو دنیا کی نظروں سے چھپانے اور تحفظ دینے کا فریضہ سر انجام دیا۔یہاں تک کہ یہ لوگ قدیم دیو مالائی کہانیوں کے خوفناک اور طاقتور جن بن گئے۔ یہ لوگ ہمارے دئیے ہوئے ٹھکانوں میں بیٹھ کر خود کش بمبار تیار کر کے ہم پر چھوڑنے لگے۔ہمار ی دی ہوئی بندوقیں ہم پر تان لیں۔ اس کے جواب میں ان کے خلاف کوئی کاروائی کرنے سے گریز کرتے رہے۔یہاں تک کے ہم بند گلی میں پہنچ گئے۔بند گلی سے ہو کر ہم نے جو ادھوری کاروائی کی اس کے باوجود دہشت گردی کا کھیل جاری ہے۔
اور یہ کھیل اس وقت تک جاری رہے گا جب تک ہم دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کاروئی کے علاوہ دہشت گردوں کی نرسریاں اور کارخانے بند نہیں کرتے۔ان نرسریوں کی موجودگی میں آپ جتنے دہشت گرد ماریں گے اتنے ہی اور پیدا ہو جائیں گے۔دہشت گردوں کے پیچھے بے شک غیر ملکی ہاتھ ہو۔ان کو شاید تربیت بھی دی جاتی ہو یا مال وسائل مہیا کیے جاتے ہوں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان لوگوں کے باقاعدہ سیاسی اور مذہبی نظریات ہیں جن کے بغیر وہ اس طرح کی کاروائیاں نہیں کر سکتے۔ان کے نظریات کا اظہار ان کے منتخب شدہ ٹارگٹ سے ہوتا ہے۔
ہمارے سماج میں ان کے سہولت کار موجود ہیں۔جو مختلف سیاسی اور مذہبی گروہوں کی شکل میں منظم ہیں جو کبھی کھلے عام اور کبھی بین السطور ان کے نظریات اور ان کی سرگرمیوں کی حمایت کرتے ہیں۔یہ سیاسی اور مذہبی گروہ دہشت گردوں کے ذریعے پھیلائے ہوئے خوف سے فائدہ اٹھا کر اپنا سیاسی اور مذہبی ایجنڈاآگے بڑھاتے ہیں۔کچھ عرصہ پہلے تک تو یہ کھلے عام ان دہشت گردوں کے حق میں رطب السان تھے۔ اور اس حد تک چلے گئے تھے کہ فوج کے ساتھ لڑائی میں مارے جانے والوں کو شہید قرار دیتے تھے۔ مگر جب فوج نے اس باب میں اپنی پالیسی میں سختی اپنائی تو ان لوگوں کے لہجے میں تھوڑا بہت فرق آ گیا۔
اب یہ سر عام دہشت گردوں کے حق میں ریلیاں نکالنے اور پریس کانفرنس کرنے کے بجائے ایسے طریقے اور زبان استعمال کرتے ہیں کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی بچ جائے۔ دہشت گردوں کو یہ اپنا اتحادی اس لیے بھی سمجھتے ہیں کہ یہ لوگ ان کے پاکستان میں ثقافتی دہشت گردی میں ان کے معاون ہیں۔یہ چونکہ ہر اس چیز پر حملہ کرتے ہیں جس میں اس دھرتی کی اپنی اوریجنل ثقافت، روایات یا کلچر کی کوئی نشانی باقی ہو۔ان میں خانقاہوں، درگاہوں سے لیکر سٹیج اور تھیٹر تک سب شامل ہیں۔رقص و موسیقی سے لیکر وآرٹ، فن و ادب سب ان کے نزدیک ترغیب گناہ ہے۔
پاکستان میں کلچر اور روایت پر اس کھلے اور خود کش حملے میں یہ دہشت گرد ان رجعتی قوتون کے قدرتی اتحادی ہیں۔ ان کے پیچھے ایک خاص مکتبہ فکر کی سوچ اور وسائل بھی شامل ہیں۔یہی وہ سوچ تھی جس نے دو ہزار چودہ میں حضرت محمد ؐ کی قبر مبارک کو مٹانے کی منصوبہ بندی کر لی تھی۔خانقاہوں پر حملوں کے پیچھے ان کی یہ قبر دشمنی، بزرگ دشمنی، اور کلچر دشمنی کی بیمار سوچ کار فرما ہے۔اس سوچ کے خلاف لڑے بغیر پاکستان میں دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہو گا۔
♣