افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کہا ہے کہ ‘دہشت گردی ہمارے عہد کا واضح چیلنج ہے۔ اس چیلنج پر فتح پانے کے لیے ایک پوری نسل کی جانب سے عزم و ہمت درکار ہے‘۔
اتور کو جرمنی کے شہر میونخ میں سکیورٹی کے اُمور پر ہونے والی اہم کانفرنس میں افغان صدر نے خطاب کیا اور اپنے خطاب کے اہم نکات پر مشتمل ٹویٹس کیں۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہم ایک ایسے عہد میں جی رہے ہیں جہاں ‘آرڈر‘ (یعنی نظم و ضبط) کو نئے سرے سے بیان کیا جا رہا ہے۔ اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سود مند، پریشان کن یا تباہ کن بناتے ہیں‘۔
انھوں نے پاکستان اور افغانستان سرحد پر حالیہ حملے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ‘اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوئی اچھا یا برا دہشت گرد نہیں ہوتا اورجب تک یہ تفریق اور تقسیم رہے گي ہم ہارتے رہیں گے‘۔
اشرف غنی نے کہا کہ ‘افغانستان میں جاری جنگ خانہ جنگی نہیں۔ یہ منشیات کی جنگ ہے یہ دہشت گردوں کی جنگ ہے اور یہ ریاستوں کے مابین غیر اعلانیہ جنگ ہے۔‘۔انھوں نے امید ظاہر کی کہ ‘ہم دشت گردی کے مقابلے میں کامیاب ہو سکتے ہیں، ہوں گے اور ضرور ہونا چاہیے کیونکہ آنے والی نسل کی زندگی اور خوشحالی اس پر منحصر ہے‘۔
یاد رہے کہ کوئی دو ماہ پہلےانڈیا کے شہر امرتسر میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغانستان کے صدر اشرف غنی نے پاکستان پر ایک بار پھر شدت پسند تنظیموں کی پشت پناہی کرنے کا الزام لگایا تھا۔ انھوں نے کہا تھاکہ دہشت گرد تنظیمیں نہ صرف افغانستان کے امن و استحکام کو نقصان پہنچا رہی ہیں بلکہ ان سے پورے جنوبی ایشیا کو خطرہ لاحق ہے۔
اس سے قبل امریکی نائب صدر مائیک پینس نے میونخ میں ہونے والی سکیورٹی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکہ کا نیٹو کے ساتھ تعاون ‘اٹل‘ رہے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے خارجہ پالیسی کے بارے میں پہلے جامع بیان میں پینس نے کہا کہ امریکہ ‘آج اور ہر دن یورپ کے ساتھ کھڑا رہے گا۔‘۔تاہم انھوں نے یورپی ملکوں کو بتایا کہ وہ مشترکہ دفاع کا پورا خرچ برداشت نہیں کر رہے۔
وائٹ ہاؤس نے بتایا ہے کہ امریکی نائب صدر نے افغان صدر سے سائڈ لائنز پر ملاقات کے دوران افغانستان کی سالمیت کے لیے امریکی تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے۔
BBC