ارشد محمود
کچھ سال سے اسلامی بنیاد پرستوں نے نیا تماشا شروع کیا ہے کہمغرب میں مسلمان شناخت کے بحران کا شکارہوجاتے ہیں۔ خوشحالی، صاف ستھرے اور ترقی یافتہ ماحول، برابری کے تمام شہری اور انسانی حقوق میسر۔ لیکن ‘کافروں‘ کا وطن۔ مسلمانوں کی شناخت کا بحران صرف مغرب میں جاکرہی نہیں ہوتا۔پاکستان جیسے 99 فیصدمسلم اکثریتی ملک میں پچھلے 70 سال سے شناخت کے بحران کا شکارہیں۔
ورلڈ حجاب ڈے 14 فروری کے یوم محبت کے توڑپرشروع کیا گیا ہے۔ کیونکہ اسلام میں محبت اور مرد وزن کا میل جول حرام ہے۔ مسلمانوں کا کمال یہ ہے کہ وہ ایک تیرسے کئی شکارکرتے ہیں۔ کیونکہ تہذیب جدید کے سیکولراورلبرل تناظرمیں کسی فرد پرکوئی پابندی نہیں لگ سکتی کہ اس کا عقیدہ، ایمان کیا ہے اور کس طرح کا لباس پہنے۔ جو کسی کی مرضی یا چوائس۔
ہم مسلمان معاشروں میں پیدا ہوئے لوگ اچھی طرح جانتےہیں کہ کسی لڑکی یا خاتون کے لئے ‘برقعہ، پردہ، دوپٹہ، حجاب‘ چوائس ہرگز نہیں ہے۔ اسلامی نقطہ نظرسے یہ فرض ہے حکم اللہ و رسول ہے۔ کسی بھی مولوی سے پوچھ لیں۔ وہ یہی کہے گا۔ اور جب حکم اللہ و رسول کاہوجائے، تو کسی قسم کی ‘چوائس‘ کا سوال باقی نہیں رہتا۔
دوسری بات ہم سب جانتے ہیں کہ پردہ اورحجاب معاشرتی مجبوری اور خاندانی دباؤکے تحت بھی پہنا جاتا ہے۔ کسی لڑکی، بچی، خاتون کی کیا مجال کہ وہ اسے ‘چوائس‘ کے دائرے میں لاسکے۔ بے شمارمثالیں اور واقعات ہرکسی کے سامنے ہوسکتےہیں کہ پردہ، برقعہ، حجاب نہ کرنے پر مرد رشتے داروں نے مارپیٹ کی۔ سعودی عرب میں اس کام کے لئے خصوصی پولیس سڑکوں میں گھومتی رہی ہے، جو اسلامی ڈریس کوڈ نہ ہونے پرچھڑی سے مارتے اورمقدمے دائرکرتے ہیں۔ طالبان نے بھی تشدد کے ساتھ برقعے کی پابندی لگائی۔
گویا اسلامی نقطہ نگاہ سے حجاب کوکسی بھی طرح ‘چوائس‘ یعنی فرد کی مرضی کے کھاتے میں نہیں ڈال سکتے۔ لیکن چونکہ مکاری ہمارا اصول ہے لہذا مسلمانوں نے مغرب میں حجاب، برقعے کا حق لینے کے لئے اسے فرد کی آزادی اور چوائس سے جوڑدیا۔ کسی دوسرے کو حق نہیں ہے کہ وہ کسی کے لباس کو متعین کرے۔ یہ مغرب کا قانونی اوراخلاقی اصول ہے۔ جب کہ اسلام میں یہ ‘چوائس‘ نہیں بلکہ لازمی شرعی تقاضا ہے۔
پردہ بنیادی طورپرعورت ذات کوپابند، محدود، کنڑول کرنے کا ذریعہ ہے۔ یہ ایک طرح کا جبر ہے۔ جب ایک بچی کو بچپن سے ہی پردہ وحجاب کی عادت میں ڈال دی جاتی ہے، تو وہ اس کی نفسیات اورذات کا حصہ بھی بن جاتی ہےاور اس کی عادی ہوجاتی ہے۔ اسے ایسے لگتا ہے، حجاب اورپردے کےبغیروہ ننگی ہے۔ بے پردہ ہے۔ مسلم معاشرے چونکہ عورت کو جنسی ہراساں کرنے کے لئے مشہورہیں۔ مسلم معاشروں میں اکیلی عورت محفوظ نہیں ہوتی۔ چنانچہ مسلم معاشرے میں عورت پردے اور حجاب کواپنے لئے تحفظ کا باعث بھی سمجھتی ہے۔ یعنی پہلے عورت کو غیرمحفوظ کرو۔ اور پھر اسے پردے کے فائدے گنواؤ۔
مغرب میں ‘لبرل ازم‘ اور انسانی حقوق ایک مطلق اندھے عقیدے کی شکل اختیارکرچکے ہیں۔ لبرل اور سیکولرازم کے لئے ضروری ہے کہ اس معاشرے کے رہنے والے لبرل اورسیکولراصولوں کوذہنی طور پرتسلیم و اتفاق کریں۔ ان کی یک طرفہ گاڑی نہیں چلائی جاسکتی۔ مغرب کا لیفٹ، لبرل، سیکولر، مغرب میں مسلمانوں کو ‘مظلوم‘ سمجھنے لگ گیا ہے۔ ویسے بھی مسلمانوں کے لئے مظلومیت طاری کرنا مسئلہ نہیں۔ یہ پیدائشی مظلوم ہیں۔ باقی کے تمام مذاہب اور قومیں ان پر 1400 سال سے ظلم کررہی ہیں۔
ایک طرف یورپ میں حق چوائس کے تحت حجاب کا حق لیتے ہیں، اور ساتھ ہی ان کی چوائس کے لباس کو ننگا، فحش اوربے حیا کہتے ہیں۔۔ لیکن اندھے ایمان والے مغرب کے لبرلز کو یہ تضادات نظر نہیں آتے، چنانچہ مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی میں ایک یہودی خاتون نے ایک دن کے لئے امریکہ میں حجاب پہن لیا۔۔ اس یہودی خاتون کو نہیں پتا، کہ کروڑوں مسلمان پیدائشی یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی تباہی کے لئے ہرجمعے کی نماز میں دعا مانگتے ہیں۔ اور انہوں نے کبھی مظلوم غیر مسلموں کے ساتھ یک جہتی کا اظہار نہیں کیا اورمسلم میڈیا، حکومت ریاست، سب خاموش ہوجاتے ہیں۔
♦
One Comment