ارشد محمود
اسلام آباد ایک ہائی فائی کلچر کا نام ہے۔ یہاں چاردیواری کے اندر ایسی پرائیویٹ محفلیں سجتی ہیں جہاں ‘پاکستان‘ اپنی پوری منافقت، عیاری کے ساتھ سامنے ہوتا ہےکہ آپ دانتوں میں اپنی انگلی کاٹ لیں۔ ان محفلوں کی میزبان ایک تعلیم یافتہ لبرل سنگل خاتون بھی ہوسکتی ہے۔ مغربی ناؤنوش کے لوازمات وہاں دستیاب ہوتے ہیں۔ان محفلوں میں سول سینئر بیوروکریٹس،ملڑی ریٹائرڈ یا ان سروس اعلی افیسر بھی ہوسکتے ہیں۔ این جی اوز جسے اسلام آباد کی زبان میں ‘ڈیویلپمنٹ‘ سیکٹرکہا جاتا ہے، اس سے اور میڈیا سے متعلقہ لوگ بھی ہوتے ہیں۔
گپیں لگتی ہیں، حالات حاضرہ پرگفتگو ہوتی ہے۔ ظاہری طورپر ماحول لبرل مخلوط ماحول ہوتا ہے۔ آج اسی طرح کی منافق اشرافیہ محفل میں ایک صاحب جو پختون تھے، ان کا سارا گھرانہ پشتوں سے انگریزوں کی فوج اور پھر ‘پاک‘ فوج میں رہا۔ شکار کا شوق ان کی زندگی کا اہم جزو ہے۔ ان کے باپ دادا نے انگریزوں سے تمغے لئے ہوئے ہیں۔ وہ صاحب کٹرپاکستانی، فوجی بیانئے کا مجسمہ تھے۔ ان کو اسلام سے عشق تھا۔ بلیک لیبل پی رہے تھے کیونکہ اس سےکم ان کا ٹیسٹ ڈیویلپ نہیں ہوا۔
شراب وہ نوجوانی سے پی رہے ہیں۔ اللہ ان کو معاف کرےغیر شرعی حرکت ہے۔ایمان کی پختگی کا یہ عالم ہے، وہ یہ بات سن نہیں سکتے کہ “اسلام میں شراب کبھی بھی حرام نہیں کہی گئی“۔ لیکن ساری زندگی پیتے اور نامحرم خواتین کی محفلوں میں زندگی گزارنا ان کا شوق ہے۔ ان کو اسلام سے زیادہ ‘پاکستان‘ سے عشق تھا۔ انڈیا دشمنی ان کا ایمان تھا۔ کشمیرکو تو ہم کسی صورت نہیں چھوڑسکتے۔۔۔نہ تا قیامت چھوڑیں گے۔ کشمیرحاصل کرنا ہے۔ یہ جو پچھلے تین چار دن سے ہورہا ہے،انڈیا ہی تو کروا رہا ہے۔آپ سمجھ سکتے ہیں، میرے جیسا بندہ وہاں ہو توکیا صورت حال ہوئی ہوگی۔یورپ نے سائنس اسلام سے لی ہے۔ لیکن بچارے کو تاریخ کا کچھ پتا نہ تھا۔
محفل میں کچھ دیر کے بعد ایک ان سروس بر یگیڈئر بھی ایک دوست خاتون کے ساتھ آگئے۔بھلے آدمی تھے۔ ہماری شکایت لگائی گئی کہ یہ کشمیر کے مسئلے پر ‘پاکستان کے مخالف اورفوج کے خلاف خیالات رکھتے ہیں‘۔۔۔بریگیڈئر صاحب نے بھی کہا۔۔ ۔کشمیر۔۔ وہ کیسے ہم چھوڑ سکتے ہیں۔۔ وہ تو ہمارا اٹوٹ انگ ہے۔ لیکن ہم نے باتوں کو ہلکے پھلکے موڈ میں موڑ دیا۔ اس پختون خاندانی فوجی نے مجھ پرایک اور وار کیا۔ ‘آپ ( یعنی پاکستانی) پاکستان کا کھاتے ہیں‘۔ (چنانچہ اس کے وفادار ہوں)۔
میں نے کہا، میں نے تو کبھی پاکستان کانہیں کھایا۔ میں تو پاکستان کو کھلاتا ہوں۔ جب سے ہوش سنبھالا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے، ہرپاکستانی شہری ‘پاکستان کو کھلاتا‘ ہے۔ ہاں کوئی لٹیرے ڈاکو، ناجائز آمدنی والے ضرور پاکستان کو کھارہے ہیں۔ پاکستان کا مجھ پرتو کوئی احسان نہیں۔میرے پاکستان پربڑے احسان ہیں۔
پہلی بات تویہ ہے کہ پاکستان کون ہے؟ کہاں رہتا ہے؟ کس چیز کا نام ہے؟ ‘پاکستان‘ ایک مجرد چیز کا نام ہے۔ 13 اگست 1947 کومیری اسی جنم بھومی کا نام پاکستان نہیں تھا۔ میرا وطن ہندوستان تھا۔میں دسمبر1971 تک سمجھتا رہا، کہ ڈھاکہ پاکستان ہے۔ ایک دن اچانک پتا چلاکہ وہ بنگلادیش ہے۔پاکستان نہیں۔۔ وطن فزیکل زمین اوراس میں بسنے والے لوگوں کا نام ہوتا ہے۔ پاکستان 20 کروڑپاکستانیوں اور ہماری اس زمین کانام ہے۔ ہم نہیں تو پاکستان بھی نہیں۔۔ پاکستان میرا نام ہے۔ پاکستان مجھ سے ہے، میں پاکستان سے نہیں ہوں۔
پاکستان تا قیامت سلامت رہے۔ یہ میرا وطن اور ملک ہے۔ لیکن یہ مجھ سے ہے، میں اس سے نہیں ہوں۔ مجھے کیا گارنٹی ہے، کل اس خطے کا نام کچھ اور رکھ دیا جائے لیکن یہ پھر بھی میرا وطن رہے گا۔ ان فوجیوں اور اسلامسٹوں نے یہ بیانیہ بنایا ہوا ہے کہ پاکستان یہاں کے عوام سے جدا اور پرے کوئی الگ چیز ہے۔ جو ہم پرکوئی احسان کررہی ہے۔ وہاں جھگڑے کی صورت بن گئی۔ میرا موقف رہا، کہ میں پاکستان کو نہیں کھاتا۔۔ پاکستان کو میں کھلا رہا ہوں۔ میں اس ملک کا شہری ہوں، اس ملک کا ہرشہری کنڑی بیوٹرہے، ااپنی اپنی صلاحیت کے مطابق، وہ اپنے اس حصہ سے پاکستان کی قومی دولت جی ڈی پی بنا رہا ہے۔
اب اس ‘خاندانی فوجی‘ کو میری بات کی سمجھ نہ آئے اور وہ ‘پاکستان‘ کا مجھ پر احسان جتلانے پر مصر تھا اورمیں منطقی دلیل سے یہ ثابت کررہا تھا کہ پاکستان کا مجھ پرکوئی احسان نہیں، پاکستان میرا نام ہے۔ اور پاکستان کی دولت میری (یعنی عوام کی) پیداکردہ ہے۔۔ لیکن جنہوں نے واقعی پاکستان کو ‘کھایا‘ ہے، اور واقعی پاکستان کی وجہ سے ‘موج‘ اڑا رہے ہیں۔۔وہ پاکستان کے احسان مند ہوسکتے ہیں۔ اس کومیری بات کی مجھ نہ آئی۔
سچ یہ ہے، پاکستان کے سویلین عوام اور ہمارےعسکری بازو کے نقطہ نظرمیں فرق بڑھتا جارہا ہے۔۔اور یہ شایدیہ کبھی نہ مٹ پائے گا۔ عسکری اسٹیبلش منٹ کواپنے اس خول سے نکلنا ہوگا۔ وہ اکیلے خود کو پاکستان کے ‘مامے‘ سمجھتے رہےتو پاکستان مستقل انتشارکا شکاررہےگا۔ سویلین اور آرمی کو ایک پیج پرآنا ہوگا۔۔۔ آرمی کو پاکستان پر اپنا احساس برتری ختم کرنا ہوگا۔ یہ 20 کروڑ عوام کو چھوڑ کر حب الوطنی اور پاکستان کے جو خاکی ٹھیکیداربنے ہوئے ہیں، یہ کسی صورت بھی ٹھیک اور قابل قبول نہیں۔
♦