عبدا لحئی ارین
گزشتہ دنوں ” ہم سب” اخبار کے معاون ایڈیٹر کی افغانستان بالخصوص پشتونوں کے بارے میں لکھی گئی ایک تحریر پڑھنے کو ملی جس میں موصوف نے نہ صرف مبالغہ آرئی سے کام لیا تھا بلکہ تاریخ سے نا بلد ہونے کے ثبوت بھی دیے تھے۔ جناب نے اپنی تحریر میں قاری کے نفسیات میں یہ بٹھانے کی کوشش کی تھی کہ پشتون نسلاً غلام تھے اور رہیں گے۔
شاید موصوف نے ایران کی جانب سے پشتونوں کے خلاف لکھی گئی وہ کتب پڑھی ہونگی جو گزشتہ کہیں دہائیوں سے ایران اپنے مخصوص لکھاریوں کے ذریعے لکھتا آرہا ہے تاکہ اُس تاریخ کو مسخ کیا جاسکے جو ایران نے ماضی میں مجاہدین اور طالبان دور میں افغانستان کی لائبریریوں، عجائب گھروں اور آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹس سے چوری کئے تھے۔ اور یا پھر چرائے گئے نوادرات خرید کر اُنھیں اپنی تاریخ کا حصہ بنانے کی سازشوں میں ہنوز لگا ہوا ہے۔
جس کیلئے ایران نے ماضی میں بھی شاعر اور مصنف قلندر موند، سید گوہر و دیگر سے ” پٹہ خزانہ “نامی کتاب، پشتونوں کی اصل و نصب کو آریاؤں کی بجائے اسرائیلی ثابت کرنے و دیگر اہم تاریخی دستاویزات کو مشتبہ قرار دینے کیلئے پیسے دے کر خود ساختہ تاریخ کی کتابیں لکھوائی تھیں اور ایسے نقشے چھپوائے تھے تاکہ آنے والی نسلوں کو تاریخی طور پر گمراہ کیا جاسکے۔ موصوف بھی شاید پشتونوں کے خلاف ایران کی اس کلتوری ٹیرارزم بلکہ ثقافتی یلغار” کے شکار دکھائی دے رہا ہے۔
اس لئے اپنے اس مضمون میں کہیں پر بھی جناب نے کسی کتاب کا حوالہ دینے کی بجائے انٹرنیٹ یا ویکی پیڈیا پر موجود فوٹوشاپ کی مدد سے تیار کیے گئے نقشوں ہی کا سہارا لیا تھا۔موصوف کے کالم سے یہ بھی اندازہ ہورہا تھا کہ اُنھیں افغان اور افغانستان میں فرق بھی معلوم نہیں ہے۔ حالانکہ تاریخی طور پر ہر پشتون افغان ہے جبکہ ہر افغان پشتون نہیں ہے۔ اسی لئے تو جناب نے ایرانی نقشوں کی مدد سے اس تحریر میں مختلف بیرونی حکمرانوں کے دور میں افغانستان کو ایک صوبہ ظاہر کیا ہے۔
مگر حقیقت یہ ہے کہ ماضی کے افغانستان کے اکثر علاقے الگ الگ ریاستیں تھیں۔ جیسا کہ کابل الگ ریاست تھی جس پر کابل شاہ کی حکمرانی تھی۔ قندھا ر ایک الگ ریاست تھی تو غیر پشتون علاقوں کے الگ الگ حکمران تھے۔ بلکہ ماضی میں جن علاقوں پر ساسانیوں نے حکمرانی کی تھی اُن علاقوں کو اُس وقت کے افغان حکمران خود اپنی قلمرو میں شامل نہیں کرنا چاہتے تھے کیونکہ وہ علاقے دشت تھے اور یا پھر صحرا ۔
آج بھی افغانستان میں ایسے دور افتادہ علاقے ہیں جو افغان حکومت فوج اور پولیس کے بجائے وہاں کے مقامی لوگوں اور سرداروں سے کنٹرول کرواتی ہے۔ تو اب وہاں پر اگر طالبان قبضہ کرلیں تو کیاہم یہی کہیں گے کہ یہ علاقے افغانستان سے چھینے گئے ہیں۔ ہر گز نہیں۔
موصوف کے مطالعہ سے یہ اندازہ بھی ہورہا ہے کہ جناب کو افغانستان کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں اس لئے وہ ماضی کے خراسان کو افغانستان کہتے ہیں، مگر تاریخی حقیقت یہ ہے کہ خراسان میں پشتونوں کے صرف ہرات اور بلخ کے کچھ علاقے شامل تھے۔ تاریخ کے مطابق جن پشتون علاقوں پر بیرونی قوتیں قابض تھی اُن میں صحرا اور دشت کے علاقے شامل تھے۔
احمد شاہی افغانستان سے پہلے تاریخ کی کتابوں میں جہاں جہاں بھی افغان کا کلمہ استعمال ہوا ہے، اُس سے مراد صرف پشتون ہی ہوتا تھا۔ اس خطے میں ماضی کی الگ الگ ریاستوں اور 1747ء میں احمد شاہ ابدالی کی سربراہی میں بننے والا موجودہ افغانستان کے بارے میں تاریخ میں ڈبکی لگانے والا یہ صاحب کچھ بھی نہیں جانتا ہے۔ اس لئے وہ مقبوضہ علاقہ سمرقند کو بھی افغانستان کا حصہ سمجھتے ہیں۔ اور تاجکوں کو غیر پشتون،مگر حقیقت میں تاجک بھی نسلاً پشتون ہی ہیں۔
جناب والہ! ماضی میں تو افغان دہلی ، بنگال، لاہور ا، ایرانی اصفہان و دیگر مفتوح علاقوں تک حکمرانی کرتے رہے، اب جب کہ یہ علاقے مختلف ادوار میں ان سے واپس لئے گئے، تو کیا جناب اب بھی ان علاقوں کو افغانستان تصور کرتاہے۔
جان کی امان پاؤں تو، زیر نظر سطور میں جناب اور “ہم سب کی ویب سائٹ “کے دیگر قارئین کیلئے پشتونوں (افغانوں)کی شاندار و جاندار تاریخ اور اُن کی مادر وطن کی زمانہ قدیم سے جاری سٹریٹیجک اہمیت کو تاریخ کی روشنی میں بیان کرنے کی جسارت کر نا چاہتا ہوں ۔
مشہور مورخ ٹائم بی نے افغانوں (پشتونوں) کی سرزمین کو دنیا کا “راؤنڈ اباؤٹ” کہا تھا۔ یعنی مشرق، مغرب سنٹرل ایشیا ہو یا مڈل ایسٹ، ہر سو سے اکثر استعمارگروں کا یہی سے گزر ہوا ہے۔
اسی لئے ان سب کیساتھ یہاں کے لوگوں کو اپنی بقاء کیلئے لڑناپڑتی تھی۔ بلکہ ایک زمانے میں شرق میں ہند کے گپتا خاندان اور غرب میں پارس کی ساسانی جیسے دو بڑی سلطنتوں کے درمیان بھی ان آزادی پسند افغانوں نے اپنی حرمت کا بھرم پریتم بڑی شان سے برقرار رکھا تھا۔ وہ آزادی سے اپنے اپنے علاقوں پر حکمرانی کرتے رہے۔ مگر صدیوں بیرونی قوتوں کیساتھ مسلسل نبرد ازامائی کا نتیجہ یہ نکلنا کہ اگرچہ ان پشتونوں نے اپنا نام و نشان اور مادر وطن ان سامراجیوں سے لڑ کر بچا لیا تھا تاہم ان جنگوں کی وجہ سے پشتون تاریخی و نفسیاتی طور پر بہترین جنرل مگر بد ترین سپاہیوں کے طور پر ابھرے اس لئے ان میں ہر کسی کے خلاف والی خصوصیات پیدا ہوئیں۔ (جاری ہے)۔
Pingback: افغانستان تہذیبوں کا پینگوڑا مگر سامراجیوں کا قبرستان ۔حصہ دوئم۔ – Niazamana