عبدا لحئی ارین
تاریخی طور پر افغانستان تہذیبوں کا پنگوڑا رہا ہے۔ قبل از تاریخ میں جب آریائی قبیلے (ارین) اریانہ ویجہ کے علاقے سے نکل کر کوہ ہندوکُش، نجدی (بلخ) اور باختر ( پشتونخوا) کے علاقوں میں آکر آباد ہوئے تھے، تاہم بعد میں جب یہاں ان کی آبادی بڑھ گئی تھی اور اُن کو اپنے مال مویشیوں و زراعت کیلئے مزید وسائل کی ضرورت پڑی تو ایک آریائی قبیلہ “پارسو” یہاں سے مغرب کی طرف چلا گیا تھا جو کہ آج کا ایران کا علاقہ ہے۔
دوسرا آریائی قبیلہ ہند کی طرف اور ایک بڑا قبیلہ یورپ چلا گیا تھا جن کے باقیات میں جرمن، فرانسیسی اور یونانی اقوام سرفہرست ہیں۔ وہاں جانے کے بعد ان آریائی قبیلوں نے وہاں کی مقامی آبادی کیساتھ لڑائیاں کی تھیں، اُن کی زمین، جائیدادیں اور مال مویشی چھیننے اور بعد میں وہاں کے مقامی افراد سے شادیاں کیں اور وہاں کی تہذیب ، تمدن و زبان اختیار کئے ۔ جبکہ جو آریائی بلخ اور باختر میں رہ گئے تھے ۔چونکہ یہ کسی اور تہذیب کیساتھ مکس نہیں ہوئے تھے اسی لیے انھوں نے اپنی زبان، ثقافت و دیگر تہذیبی اطوار کو اپنی اصل شکل میں برقرار رکھا تھا اور یہی آریائی بعد میں افغان، پشتون یا پختون کے ناموں سے تاریخ میں ابھرئے۔
افغانوں کی سرزمیں نے دنیا کے دو قدیم تہذیبوں “ویدی تہذیب اور اویستائی تہذیب” کو جنم دیا ہے۔ باختر یا موجودہ پشتوں خوا ویدی تہذیب کا جنم بومی رہا ہے۔ جہاں ہندوؤں کے چار وید (رگ وید، سام وید, اتھر وید اور یجور وید) کا ظہور ہوا تھا۔ بعد میں جب چند آریائی قبائل باختر سے ہند گئے تھے تو اپنے ساتھ یہ مشترکہ تہذیب بھی لے گئے تھے۔ اور وہاں پر برہمن، کشتری، ویش اور شودر میں منقسم ہوئے تھے۔ ان تمام ویدوں اور مہابھارت میں پانڈوں کی لڑائیوں میں پشتونخوا کے دریاؤں، علاقوں، تاریخی واقعات اور چند پشتون بادشاہوں و قبیلوں کے ناموں کا ذکر بھی ہے، جن میں بڑیسہ، پنی قبائل قابل ذکر ہیں ۔ پانڈوں کی لڑائی میں اس علاقے سے بقول رگ وید پکت قبیلے نے حصہ لیا تھا جو اب پکتین، پشتون یا پختون میں تبدیل ہوچکاہے۔
اسی طرح جو آرین قبائل مغرب کی جانب چلے گئے تھے۔ جس میں پارسو سب سے بڑا قبیلہ تھا اور وہاں قبضہ جمانے کے بعد اسی قبیلے کے نام سے وہ علاقہ منسوب ہوکر پارس بنا جو کہ آج کا ایران ہے۔
جس زمانے میں پشتون اس خطے میں حکمرانی کرتے تھے اُس دور میں ایرانی و ہندوستانی لوگ ، حکمرانی تو دور کی بات خانہ بدوشی کی زندگی سے بھی نہیں نکلے تھے۔ پشتونوں کی دوسری بڑی مدنیت “اویستائی مدنیت ” (1200م ز)کا ظہور بلخ میں ہوا تھا، یہ وہ زمانہ تھا جب اکثر پشتون خانہ بدوشی کی زندگی سے نکل آئے تھے اور انھوں نے بلخ شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ جہاں سے دو اہم شخصیات کے نام منسوب ہیں۔ جلال الدین بلخی (مولانا رومی) اور زرتُشت (پشتو میں زرسے مراد پیلا، تشت سے مراد اوش یعنی اونٹ )۔ زرتشت پشتون نسل نبی اور اویستائی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے پیغمبر تھے۔
یہ مدنیت با الفاظ دیگر پشتونوں کی یہ شہنشایت ماضی کی افغانستان کے بلخ ، کوہ ہندکُش ، ہلمند اور بعد میں ایران کے کچھ علاقوں تک پھیل گئی تھی۔اس تہذیب کی کتاب ” اویستا” اُس وقت کے افغانستان کے لوگوں کی مدنی، فکری اور فرھنگی حالات کو تفصیل سے بیان کرتا ہے۔۔ اس دور کے مشہور پشتون بادشاہ “یما ” (فارسی کا جام جمشید) تھے جو مشہور بادشاہوں میں شمار ہوتا تھا۔
مگر بد قسمتی سے پشتون اپنی جغرافیائی حالات و جنگ و جدل کی وجہ سے اپنی اس اعظیم تاریخ کو اپنے نام سے دنیا میں روشناس نہیں کرا سکے۔ جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ، ایران نے دنیا میں زرتُشت اور اویستائی تہذیب کو ایرانی تمدن کا حصہ ظاہر کیا ہے۔ موصوف نے اپنی تحریر میں پشتونوں کی اس اویستائی دور حکومت کے سرے سے ذکر تک نہیں کیا ہے۔
جناب نے تو یہاں تک صحافتی خیانت کی ہے کہ پشتونوں، اور یونانیوں (دونوں آریائی اقوام) کی مدنی، فکری اور معاشی خصوصیات پر مشتمل “گریک باختر” مدنیت کو بھی مکمل طور پر نظر انداز کیا ہے۔ اور تواور اگرچہ جناب اپنے نام کیساتھ پشتونوں کا سب سے بڑا قبیلا “کاکڑ” لکھتا ہے، لیکن اُسے اس قبیلے کے بارے میں بھی بالکل معلومات نہیں ہیں۔ اسی لئے تو انھوں نے غوریوں کو غیر پشتون اور اُنکا تعلق تاجکستان سے ظاہر کیا ہے ۔ حالانکہ غوریوں کا تعلق غور کے علاقے سے ہے اور سوری ان کا مشہور قبیلہ ہے۔
ہندوستان کے مشہور شہنشاہ فرید خان المعروف شیرشاہ سوری کا تعلق انہی غوریوں سے تھا۔ اور سوری نسلا کاکڑ ہوتے ہیں۔ غوریوں کی درباری زبان پشتو اور دری تھیں جوکہ افغانوں ہی کی زبانیں ہیں۔ پشتو کا پہلا شاعر امیر کروڑ کا تعلق بھی غور ہی سے تھا۔ ۔غوریوں کی سلطنت خراسان سے لیکر ہند کے گنگا کے کنارے تک پھیلی ہوئی تھی۔
ہخامنشی سلطنت کو تاریخ کی کتابوں میں پڑھنے کی بجائے موصوف کو شاہد ” تندور پر ملنے والی گمنام و بغیر تاریخ والے اخبار” میں یہ سب کچھ پڑھنے کا موقع ملا ہوگا۔ جس میں جناب ہخامنشی سلطنت کا ذکر تو کرتا ہے لیکن اس سلطنت کی بنیا رکھنے والے پشتونوں سے بے خبر ہے۔
تو جان کی امان پاؤں، تاریخ یہ کہتی ہے کہ ایران کے شمال (جوکہ موجودہ افغانستان ہے) میں مادی کے علاقے سے قدیم پشتونوں نے ماد کی سلطنت کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اور بقول فرانسیسی تاریخ دان مسٹٹر، ماد کے لوگوں کی زبان موجودہ پشتو ہی جیسی تھی۔ یہ سلطنت افغانستان سے ایران اور یونان تک پھیلی ہوئی تھی۔ بعد میں ایران کے ہخا منشی خاندان اس سلطنت پر حاوی ہوگئے، لیکن اس کے باوجود یہ ایرانی بادشاہ بھی مادی بادشاہوں کے حکم کے تابع تھے۔ اور ہخامنشی بادشاہ کورش یا سورس شہنشاہ کے دور میں بھی پشتون علاقوں پر پشتون ہی حکمران تھے ۔ جن کے شہنشاہ سے صرف سٹریٹجک تعلقات ہوا کرتے تھے۔
مثلا یدھو کرث سکندر کے کتاب میں فرماتے ہیں کہ سکندر اعظم اور داریوش سوئم کے درمیان ہونے والی لڑائی ” گوگمل” میں کوہ ہند کُش کے لوگ اور پشتون حکمران داروش کی طرف سے سکندر کے خلاف لڑے تھے۔
دوسری اہم بات کہ سکندر یونانی نے تو صرف چار سال یہاں حکومت کی تھی جس میں اُسے سوات اور باجوڑ وغیرہ میں سخت مذمت کا سامنا رہا تھا۔ سکندر کو ملتان کے لودیوں نے زخمی کیا تھا جس کے بعد وہ کراچی (مکران ) چلے گئے تھے۔ شاہد جناب کو ایران کی لکھی گئی ان کتابوں میں یہ تاریخ پڑھنے کو نہیں ملی تھی۔
خطے میں عربوں کی آمد کے وقت مغربی علاقوں سیستان، ہرات و قریبی علاقوں پر ساسانیوں کی حکومت تھی جبکہ مرکزی پشتون علاقوں زابلستان، کابل، کندھار اور ارغنداو سے کو ہندکُش تک پشتون حکمران کوشانیوں اور ہپتالیوں (425) کی حکومت تھی۔ مگر ہم تو غلام اور بیمار ذہینت کے مالک ہیں، کیونکر اپنی سچی تاریخ لکھیں گے۔
♦
2 Comments