داعش سے چھٹکارے کے بعد، شیعہ ملائیشا کی دہشت گردی کا خوف

عراق کے شہر موصل میں نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے جہادیوں کی ہار یقیناً ان کی تنظیم کے لیے ایک بڑی ناکامی ہوگی۔ لیکن اس سے عراق میں امن قائم ہونے والا نہیں ہے۔

اس وقت موصل کے قدیم شہر میں داعش کی سخت مزاحمت کے سبب عراقی فوج پیش قدمی نہیں کر پا رہی ۔ لیکن مضبوط اتحادی فورسز کے سامنے جہادی بہت دیر تک ٹک نہیں سکتے کیونکہ اتحاد میں عراقی خصوصی فوسرز کے ساتھ جہاں امریکی فضائیہ ہے وہیں ان کے ساتھ سیاسی عزم بھی ہے۔

اس جیت سے عراق میں داعش کا خاتمہ تو نہیں ہوگا لیکن خلافت کے قیام کے ان کا خواب ضرور چکنا چور ہوجائے گے۔ گذشتہ برس بغداد کے پاس فلوجہ کے شہر میں بھی داعش کو شکست ہوئی تھی جہاں سے انھیں باہر نکال دیا گیا تھا۔ لیکن کچھ ہی دنوں بعد انھوں اتنے بم دھماکے کیے تھے کہ اس میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہوئے۔ اب چونکہ ان کی چھوٹی سی ریاست تقریباً تباہ ہوچکی ہے بہت ممکن ہے کہ وہ ایسے سیلز پیچھے چھوڑ جائیں جو بڑے دھماکے کر سکیں۔

عراق میں بہت سے دیگر ایسے تنازعات بھی ہیں جو سلگتے رہتے ہیں اور اچانک پھٹ پڑتے ہیں۔ داعش کو تباہ کرنے کی خواہش نے مختلف گروہوں کو اپنے اختلافات بھلا کر متحدہ ہونے پر مجبور کیا۔ اس اتحاد میں عراق کے خصوصی فورسز، ایران سے مضبوط تعلق رکھنے والی شیعہ ملیشیا، کرد فورسز اور سنی قبائل شامل ہیں۔

لیکن ایک خطرہ یہ ہے کہ ان گروہوں میں اس قدر شدید اختلافات ہیں کہ آئی ایس کی شکست کے بعد وہ خود آپس میں ایک دوسرے سے بھڑ سکتے ہیں۔ عراقی سیاست میں وائرس کی طرح تشدد پھیل رہا ہے۔

کردوں نے 2014 میں عراقی فوج کے لڑکھڑانے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک بڑے خطے پر قبضہ کر لیا تھا اور اب بہت مشکل ہے کہ اپنی منشا سے وہ اسے واپس کر دیں گے۔

انتقام اور بدلے کی سیاست جیسے بڑے عوامل بھی کارفرما ہیں۔ داعش سے وابستہ جہادیوں نے موصل اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں گذشتہ تین برسوں میں کافی مار کاٹ کی ہے۔ ایسے منظم قتل و غارت گری سے بچ جانے والے لوگ انتقامی جذبے کے تحت کارروائی کر سکتے ہیں۔

موصل سنی اکثریت والا شہر ہے اور بغداد میں شیعہ رہنماؤں کی قیادت میں حکومتیں سنیوں کی نظر انداز کرنے یا دھمکی دینے کی طویل تاریخ رہی ہے۔ یہاں کے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ 2014 میں آئی ایس اور سنی قبائل کے اتحاد نے جب سرکاری فوج کو یہاں سے باہر کیا تو انھیں کافی سکون میسر آیا۔

آئی ایس کے جبر و ظلم سے آزادی کے بعد سنیوں سمیت سبھی مقامی لوگ خوش تو ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں میں مستقبل کے بارے میں بے یقینی اور خوف بھی پایا جاتا ہے۔ ان کو اس بات کی فکر لگی ہے کہ بغداد میں بیٹھے شیعہ لیڈر اپنی فرقہ وارنہ روش سے باز نہیں آئیں گے۔

صدام حسین کے زمانے کے عراقی فوج کے ایک افسر جبّار قصّار محمد کا کہنا ہے کہ سنی گروہوں میں شدید قسم کے اختلافات ہیں اور وہ متحد نہیں ہیں۔ مختلف گروہ ایک دوسرے سے ہی لڑ پڑتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ‘وہ نہ تو متحد ہیں اور نہ ہی ان کا کوئي رہنما ہے۔ وہ مادہ پرست ہیں، صرف اپنے مفاد سے ان کو غرض ہے۔ سنّی ایسے ہی ہیں۔ اپنے مفاد کے لیے وہ دوسرے کو اپنے پیروں سے کچل دیتے ہیں۔ ان میں آپس میں تعاون ہی نہیں ہے۔

اگر موصل میں آپریشن کے بعد سبھی عراقیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہے تو حکومت کو بڑے چیلنجز پر قابو پانا ہوگا۔ حکومت کو یہ دکھانا ہوگا کہ وہ سنیوں کو بھی ان کا حصہ دے سکتی ہیں۔ اگر ایک بہتر عراق کی تعمیر کرنی ہے تو جنگ کے دوران شہریوں کی زندگیوں کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے۔ بچ جانے والے لوگ فاتح محسوس کریں متاثرہ لوگ نہیں۔

صرف داعش کے خلاف ہی نہیں بلکہ برسوں سے جاری جنگ کی وجہ سے بھی عراق تباہ ہو چکا ہے۔ اب حکومت کے پاس ایک نئی شروعات کا موقع ہے۔ لیکن اگر وہ سنیوں کو تحفظ اور سکیورٹی فراہم نا کر سکا تو پھر اس کے پاس کوئي موقع نہیں بچے گا۔

BBC

One Comment