ڈاکٹر پرویز پروازی
جناب احمد ندیم قاسمی نے ایک بار بڑے درد سے فرمایا تھا کہ ہمارے ہاں اردو کی خود نوشت سوانح عمریوں کے موضوع پر کام نہیں ہؤا اور یہ بڑی تشویش کی بات ہے ۔ جب اس موضوع پر میری کتاب ’’ پس نوشت‘‘ لاہور سے ۲۰۰۳ میں شائع ہوئی تو مجھے یہ لکھتے ہوئے خوشی ہوتی ہے کہ پہلا خط جناب احمد ندیم قاسمی کا تھا جس میں انہوں نے اس موضوع پر کام کرنے کی محنت کو سراہا تھا ۔
اب کی ان کی خود نوشت تو نہیں ‘ خود نوشت کی پیشرو کتاب ’’ میرے ہمسفر‘‘ اساطیر کی جانب سے چھپی ہے اور میں ان کے خاکوں کا جائزہ لینے بیٹھا ہوں۔ ان خاکوں کے لکھے جانے کی وجہ تسمیہ خود قاسمی صاحب کے لفظوں میں یہ ہے کہ ’’ بہت مدت تک مجھے اس محبت بھرے مطالبہ کا سامنا رہا کہ میں اپنے سوانح لکھوں ۔ در اصل میرے طبقہ کے دیگرا فراد کی طرح میری زندگی بھی نشیب و فراز سے اٹی ہوئی ہے۔
ظاہر ہے کہ ان کا مفصل بیان نہ صرف دلچسپ ہوتا بلکہ تحریکِ خلافت‘ تحریکِ آزادی ‘ تحریکِ پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد بیشتر سیاست دانوں کی سیاست بازیوں اور پھر ہماری افواج کے بعض سربراہوں کی یلغاروں کی تاریخ بھی مرتبہ ہو جاتی۔۔۔‘‘ مگر قاسمی صاحب کے ’’ معمولاتِ حیات میں سے اس کام کے لئے وقت ہی نہ نکل سکا‘‘ ۔ اس کی ایک وجہ آپ نے یہ بیان کی ہے ’’کہ مجھے انفرادی اور اجتماعی سطح پر سچ بولنا بھی آتا ہے ‘‘ ۔ ان کے اس بیان سے قاری کے ذہن میں یہ شبہ پیدا ہو سکتا ہے کہ قبلہ قاسمی صاحب کو سچ بولنا آتا تو ہے مگر وہ بولنا نہیں چاہتے اوراسے کسی اور وقت پر اٹھا رکھنا چاہتے ہیں ؟ یا یہ کہ ان میں وہ جرات نہیں ہے جو سچ بولنے کے لئے درکار ہوتی ہے ؟ ۔
قاسمی صاحب کو منصورہ احمد کا یہ مشورہ بڑا خوش آیا کہ ’’ آپ نے اپنی طویل زندگی میں علم و ادب اور شعر و فن کی اہم شخصیات کے ساتھ خاصا طویل وقت گذارا ہے جب آپ ان شخصیات کے متعلق اپنی یادوں کو سمیٹیں گے تو بالواسطہ طور پر خود اپنے سوانح کے بعض حصوں کا بھی ذکر کرتے چلے جائیں گے اور یوں عصرِ حاضر کے ادب کو دوگونہ فوائد حاصل ہوں گے‘‘ ۔ یہ خاکے در اصل قاسمی صاحب کی خود نوشت سوانح عمری کا حصہ ہیں وہ سوانح عمری جس کے لکھنے کا انہیں وقت نہیں مل سکااور منصورہ احمد کے لفظوں میں ’’ تقریباً تین چوتھائی صدی پر پھیلا ہؤا یادوں کا تسلسل ہمیشہ ملاقاتیوں کے ہجوم ، فلیپ، دیباچوں اور صدارتوں کے دباؤ سے شکست کھا جاتا ‘‘ رہا ۔
فیض صاحب کے بارہ میں ان کے لکھے ہوئے خاکہ پر بہت لے دے ہوئی ۔ یار لوگ سیاق و سباق سے علیحدہ کر کے بعض باتوں کو لے اڑے اور قاسمی صاحب کے لئے اچھی خاصی آزمائش کھڑی کر دی ۔میں اس بارہ میں کچھ کہنے سے اس لئے گریز کر رہا ہوں کہ یہ ’’ ایک بڑے آدمی کی دوسرے بڑے آدمی کے بارہ میں رائے ہے ‘‘ ۔ اس لئے چھوٹے لوگوں کو اس میں دخل نہیں دینا چاہئے ۔ اگر فیض صاحب نے قاسمی صاحب کا تعارف ایک صحافی کی حیثیت ہی سے کروایا ہے تو فیض صاحب انہیں محض صحافی ہی سمجھتے ہوں گے اس میں ہمیں آپ کو دخل دینے کا کیا حق ہے ؟ قاسمی صاحب کو بھی فراخ حوصلگی کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا کیونکہ شعر و ادب میں ان کی بزرگی اور بڑائی کسی کے کہے سنے سے متاثر نہیں ہوسکتی نہ ہی ایسی بیساکھیوں کی محتاج ہے ۔ قاسمی صاحب فیض صاحب کی بات مان لیتے تو کیا حرج تھا کہ ’’ شعر و ادب کی بڑی شخصیتوں کی مثبت کارکردگی کے اعتراف کے بعد ان کی منفی سرگرمیوں کو نظر انداز کردینا ہی مناسب ہوتا ہے ‘‘ ( صفحہ۱۰۹)۔
قاسمی صاحب اس سخن گسترانہ موقع پر بھی ’’ تخلیق کے دودھ میں موضوع کو کھانڈ کی طرح گھول دیتے ‘‘ ( صفحہ۱۷)تو کیا اچھا ہوتا ۔اس معاملہ میں’’ترقی پسندوں‘‘ نے جو غیر ترقی پسندانہ رویہ اختیار کیا وہ بھی قابل افسوس ہے۔ اوپر میں نے قاسمی صاحب کے ایک خط کا ذکر کیا ہے اس خط میں قاسمی صاحب نے مجھ سے سوال کیا تھا کہ ’’ جاوید شاہین کہاں کے ترقی پسند ہیں ؟‘‘ مجھے اس سوال کے پس منظر کا علم نہیں تھا اب یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ قاسمی صاحب کی سالگرہ کی دعوت کے حوالہ سے جس شخص نے اپنی خود نوشت’’ میرے ماہ و سال ‘‘ میں قاسمی صاحب کو موردِ طعن بنایا تھا وہ جاوید شاہین صاحب تھے ۔ گویا جو شخص کسی کو موردِ طعن بنائے وہ ترقی پسندی کے رتبہ بلند سے گر جاتا ہے ؟اور دوسروں کو موردِ طعن و تشنیع بنانا تو ترقی پسندوں کا دل پسند مشغلہ رہا ہے ۔ مولوی لوگ تو ’’آگ تکفیر کی سینوں میں دبی رکھتے ہیں ‘‘ اور ترقی پسند؟ وہ تو اپنی ترقی پسندی کی ترنگ میں ہر شخص کو رجعت پسند کہنے پر ادھار کھائے بیٹھے تھے اور حال یہ تھا کہ ہر شخص جو ’’حرفے چند‘‘ لکھ لیتا تھاوہ ترقی پسند کہلانے لگتا تھا اور پطرس کے قول کے مطابق ’’ پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند!‘‘( اخلاق احمد دہلوی ۔ ’’ پھر وہی بیاں اپنا‘‘ صفحہ۱۴۷) بن جاتا تھا۔
سکہ بند ترقی پسند وامق جونپوری کی خود نوشت ’’گفتنی ناگفتنی ‘‘ ترقی پسندوں کی انہی ناگفتنیوں کے ’’ نشیب و فراز سے اٹی پڑی ہے ‘‘ ۔ قاسمی صاحب نے کئی ادیبوں کو اپنی ترقی پسندی کے زمانہ میں بائیکاٹ کا نشانہ بنایا تھا اور اس کی گواہی انتظار حسین کی خود نوشت’’چراغوں کا دھؤاں ‘‘میں بہت ملتی ہے ۔ کیا وہ سب لوگ رجعت پسند تھے ؟ وقت نے اس سوال کا کافی و شافی جواب دے دیا ہے اس لئے اس موضوع پر لے دے کرنا محض گڑے مردے اکھاڑنے کے مترادف ہوگا ۔آں قدح بشکست و آں ساقی نماند۔
سالک صاحب والے خاکہ میں واقعی عقیدت اور احترام ہی غالب عنصر ہے مگر اس کے ساتھ ہی قاسمی صاحب نے سالک صاحب کے ساتھ اپنے نظریاتی بعد کا ذکر بھی کر دیا ہے ۔ اس نظریاتی بعد کے باوجود سالک صاحب نے قاسمی صاحب کو اپنی بزرگانہ شفقت سے محروم نہیں رکھا۔ خورد نوازی سالک صاحب کی شخصیت کا ایسا پہلو ہے جس کے دوست دشمن سب معترف ہیں سوائے احمد بشیر کے جنہوں نے اپنے سوانحی ناول میں سالک صاحب کو ’سازشی‘ اور ’حکومت کا ایجنٹ ‘ ( دل بھٹکے گا ۔صفحہ ۴۵۰) کہہ کر خدا جانے سالک صاحب کی کس نیکی کا بدلہ دیا ہے ۔ان کے مرشد چراغ حسن حسرت تو سالک صاحب کو اپنا مرشد مانتے تھے ۔ سالک صاحب کی امروز کے ساتھ کوئی نظریاتی دشمنی نہیں تھی کیونکہ وہ ایسی چیزوں کے قائل ہی نہیں تھے ۔ قاسمی صاحب کی گواہی احمدبشیر کے مفروضہ کو جھٹلانے کو کافی ہونی چاہئے کیونکہ انہوں نے سالک صاحب کو برتا ہے ۔ احمد بشیر صاحب تو انہیں دور سے دیکھنے کے گنہگار ہوئے ہیں ۔تس پر وہ بزرگوں پر زبان درازی پر دلیری دکھاتے ہیں ۔ اے کاش انہیں اس باغ و بہار اور علم مجلسی میں رچے بسے شخص کے ساتھ چندے رہنے اور اسے دیکھنے سمجھنے کا موقع ملا ہوتا ’’ جس کی شخصیت میں مشرق مجسم ہو گیا تھا‘‘ ۔ ( صفحہ۱۷)۔
صاحب محض فکاہیہ لکھتے ہی نہیں تھے بولتے بھی تھے اور ایسا کرنااسی شخص کو سزا وار ہے جس کو زبان و بیان پر مہارتِ تامہ حاصل ہو ۔ جو شخص سالک صاحب کے مزاح پر یہ کہہ کر انگلی رکھتا ہے کہ ’’اگر آدمی عام گفتگو میں مزاحیہ انداز رکھتا ہے تو اس کے لئے بہت سے بند دروازے اپنے آپ کھل جاتے ہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ اس کا مزاح اعلیٰ درجے کا ہو ‘‘ ( دل بھٹکے گا صفحہ۴۵۰) تو اس کے بارہ میں یا اس کی حسِ مزاح کے بارہ میں اس کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے ؟ کہ ’’ اس کے منہ کا ذائقہ خراب ہے ‘‘ ( صفحہ ۲۹)۔ اس قبیل کی ایک مثال سالک صاحب ہی کے حوالہ سے قاسمی صاحب نے حکیم دینا ناتھ کوہلی کی بیان کی ہے جنہیں ہری چنداختر والی پھبتی کی سمجھ نہیں آئی تھی اور وہ دانت نکوس کر رہ گئے تھے ۔ یہ دل بھٹکے گا والے بھی اسی پائے کے حکیم ’’دانت نکوس ‘‘لگتے ہیں ۔
منٹو والا خاکہ بڑا جاندار خاکہ ہے اور اس کتاب کے تمام خاکوں سے فنی لحاظ سے بہت بہتر خاکہ ہے اس میں منٹو کی شخصیت سانس لیتی ہوئی محسوس ہوتی ہے ۔ بے لوث نڈر بے باک اورضدی ۔ یہ بات منٹو ہی کہہ سکتا تھا کہ’’ احمد ندیم قاسمی میں نے تمہیں دوست بنایا ہے اپنے ضمیر کی مسجد کا امام مقرر نہیں کیا ‘‘۔ اس خاکہ میں قاسمی صاحب نے دہلی کے ایک مشاعرہ کی روداد بیان کی ہے جس کے بعد منٹو جہاں بیٹھتے تھے یہی کہتے تھے ’’ ندیم کی نظم سب سے بہتر تھی ‘‘ ( صفحہ۵۶)۔
حالانکہ وہ نظم ان کی ابتدائی نظم تھی ’’ نیا ساز نئی تان ‘‘ اور اس مشاعرہ میں اپنے وقت کے بڑے بڑے شاعر موجود تھے ۔ فیض‘ راشد ‘ میرا جی ‘ تاثیر‘ حفیظ‘ تصدق حسین خالد ‘ اسرار الحق مجاز ‘ روش صدیقی‘‘ ۔منٹو کی زبان سے اس قسم کی توصیف انہونی بات نہیں کہ وہ دوستوں کا دوست تھا مگر اس بات کے بیان کرنے کا یہاں کیامحل تھا ؟ اوپر فیض صاحب والے خاکہ میں قاسمی صاحب نے ان سے شکوہ کیا ہے کہ وہ ان کی شاعرانہ حیثیت کو کمتر کر کے دیکھتے تھے اب منٹو کے منہ میں اپنی توصیف کا فقرہ انہوں نے ڈال دیا ہے؟ یہ سب کیاہے اور کیوں ہے ؟ خدا نہ کردہ ‘کہیں اس کی تہ میں کوئی احساسِ محرومی تو نہیں ؟در اصل خاکوں کی اس کتاب میں یہ دو باتیں تھوڑے سے تفاوت سے دو جگہ بیان ہو ئی ہیں اس لئے پڑھنے والے پر یہ اثر مرتب ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب کو اپنی توصیف خوش آتی ہے اور عدم توصیف پر وہ پہلو بدلنے لگتے ہیں ۔
سوانحی ادب میں خاکوں کا اپنا مرتبہ ہے مگر خود نوشت کے نعم البدل کے طور پر جو خاکے لکھے جائیں ان کا تعلق براہ راست لکھنے والے کی ذات سے ہونا چاہئے ۔ مجھے ہےکہ قاسمی صاحب خاکوں کے دوسرے حصہ میں ایسے خاکوں کا انتخاب شامل کریں گے جن کا تعلق براہ راست قاسمی صاحب کی شخصیت سے ہوگا ۔
♦
2 Comments