ذوالفقار علی زلفی
دورِ حاضر کے دو صفِ اول کے اداکاروں شاہ رخ خان اور عامر خان کا تقابلی جائزہ لینا، وہ بھی اس صورت میں کہ دونوں کے طرزِ ادا، فکری زاویے اور سماج کے حوالے سے نکتہ نظر مختلف ہوں، کچھ عجیب سے لگتا ہے۔ شاہ رخ خان کی شناخت ایک رومانی اداکار کی ہے جب کہ عامر خان کو ایک ہمہ جہت فن کار مانا جاتا ہے لیکن میرے نزدیک ہمارے عہد کے یہ دو بڑے فن کار سماجی زندگی کے مختلف تصورات و حسیات کی پراثر نمائندگی کرتے آ رہے ہیں اور یہی چیز ان میں مشترک ہے۔
شاہ رخ خان محض ایک رومانی اداکار ہی نہیں ہیں بلکہ ان کی فلمیں مشرقی عشقیہ اقدار کے نئے معانی تلاش کرنے پر اکساتی ہیں۔ مریضانہ جنسی لذت کوشی کی بجائے ان کی فلمیں جمالیاتی احساسات کی نمائندگی کرتی ہیں جو ادبیت کی کوکھ سے کشید کی ہوئی ہیں۔ “دل والے دلہنیا لے جائیں گے” میں بظاہر وہ مغربی اقدار و روایات کے پروردہ نظر آتے ہیں مگر ان کا عشق، اظہار و عمل مکمل طور پر مشرقی اقدار و روایات کے گرد گھومتا ہے۔ عشق کی یہ منطق ناظر کو صرف کتھارسس کے ہی عمل سے نہیں گزارتی بلکہ اسے حوصلہ بھی بخشتی ہے۔
شاہ رخ خان کا عشق نئی سماجی قدروں سے نمو پاتا ہے مگر وہ اپنی تہہ میں اس جمالیاتی قدر کا نمائندہ ہے جس نے سوہنی مہینوال، سسی پنّوں، ہانی شہ مرید اور ہیر رانجھا کو پیدا کیا۔ عشق کا یہی توانا تصور ہمیں “ویر زارا” میں نظر آتا ہے جہاں سرحدیں، ذات پات، مذہب اور اعلیٰ طبقات کی بنائی گئی مصنوعی قدریں عشق کی تپش میں جل کر خاک ہوجاتی ہیں۔ جاوید اختر کے الفاظ جب قیدی نمبر 786 دہراتا ہے تو وہ صرف الفاظ نہیں ہوتے بلکہ خونی سرحدوں کے خلاف عشقیہ احتجاج کا روپ دھار لیتے ہیں۔
میں قیدی نمبر 786 جیل کی سلاخوں سے باہر دیکھتا ہوں
دن، مہینے، سالوں کو یُگ میں بدلتے دیکھتا ہوں
اس مٹی سے میرے باؤجی کے کھیتوں کی خوشبو آتی ہے
یہ بارش میرے ساون کے جھولوں کو سنگ سنگ لاتی ہے
وہ کہتے ہیں یہ تیرا دیش نہیں
پھر کیوں میرے دیش جیسا لگتا ہے
وہ کہتا ہے میں اس جیسا نہیں
پھر کیوں مجھ جیسا وہ لگتا ہے
وہ کہتے ہیں میرا دیش اس کا نہیں
پھر کیوں میرے گھر وہ رہتی ہے
شاہ رخ خان کے عشق کا یہی تصور ہمیں “دیوداس” ، “دل سے” ، “کبھی خوشی کبھی غم” ، “کچھ کچھ ہوتا ہے” ، “دل تو پاگل ہے” اور “محبتیں” میں نظر آتا ہے۔ یہ فلمیں قلب و نظر کو گرماتی بھی ہیں اور عشق کے ذریعے ارفع انسانی جذبات کو سمجھنے کے دروازے بھی کھولتی ہیں۔
“ڈر” ، “بازیگر” اور “انجام” جیسی فلموں میں ان کا عشق فنا کے عمومی فلسفے کی بجائے احساسِ ملکیت ، انتقام اور جنونیت سے گندھا ہے۔ عشق کا یہ تصور سرمایہ دارانہ سماج کی خباثتوں کا تحفہ ہے جسے شاہ رخ خان نے بڑی فن کاری سے پیش کیا ہے۔
عامر خان کا تصورِ عشق شاہ رخ خان کی نسبت پھیکا ہے۔ ان کے عشق میں وہ توانائی نظر نہیں آتی جو مشرقی اقدار کا جزو لاینفک ہے۔ “قیامت سے قیامت تک” ، “دل” ، “راجہ ہندوستانی” ، “رنگیلا” وغیرہ میں عشق، زندگی سے، جمالیاتی احساسات اور قلبی واردات سے تہی فرار کا راستہ اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
عامر خان کی فلم “فنا” کشمیر کی تحریکِ آزادی کے ایک مجاہد کے عشق کی داستان ہے۔ اس فلم میں تحریک سے وابستگی اور عشقیہ جذبات کو فرد اور اجتماع کے درمیان کشمکش کی تمثیل مانا جاسکتا ہے۔ جہاں مرد کشمیر کی آزادی کو عشق پر ترجیح دیتا ہے اور عورت کے لیے ہندوستان عشق سے برتر ہے۔ دونوں انسانی جذبات اور فرض کے درمیان پس کر رہ جاتے ہیں۔ انسان سے عشق اور کاز سے وابستگی، ایک بے رحم مجاہد جو سینکڑوں افراد کو لقمہِ اجل بنانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتا، ایک بے غرض عاشق جو محبوب کو اس کی آنکھیں لوٹانا چاہتا ہے۔ تقریباً اسی کشمکش کو شاہ رخ خان قبل ازیں “دل سے” کے ذریعے زیادہ بہتر انداز میں پیش کر چکے ہیں۔
عامر خان عشق و محبت کے فسانوں میں کھوجانے سے جہاں گریز کا رویہ اپناتے ہیں، وہاں سماجی زندگی کے دیگر معاملات میں ان کا رویہ ایک مفکر و مصلح جیسا ہے۔ ان کی فلمیں محض تفریح ہی فراہم نہیں کرتیں بلکہ ناظر کو سماجی تضادات کی تہہ تک پہنچے کا درس بھی دیتی ہیں۔ “رنگ دے بسنتی” کے ذریعے انہوں نے تحریک آزادی کے ہیروؤں کی تمثیل کے ذریعے طبقاتی و سرمایہ دارانہ سماج کی غلاظت سے نام نہاد جمہوریت کا پردہ اٹھایا۔ بھگت سنگھ کے خوابوں کے ادھورے پن کا احساس دلا کر انہوں نے انقلاب و آزادی کی جدوجہد کے جاری رہنے کا اعلان کیا۔ تاریخ کے حاشیے سے بے دخل ہونے والے کردار “منگل پانڈے” کو زندہ کرنے اور انہیں ان کے درست مقام پر لانے کی کوشش کی۔ عامر خان کے ہاں سماجی زندگی تضادات کا مجموعہ ہے اور وہ تضادات کے درمیان کشمکش کو اپنی اداکاری کا حصہ بنا کر ایک نئے ہندوستان کی تبلیغ کرتے ہیں۔ “لگان” محض آقا اور غلام کے درمیان جنگ کا تصور پیش نہیں کرتی، یہ صرف کرکٹ میچ نہیں بلکہ چھوت چھات کے خلاف جہدِ مسلسل کی علامت بی۔آر امبیڈکر کی تفہیم بھی ہے۔
“تارے زمین پر” میں انہوں نے معصوم ذہنوں کو حوصلہ دینے کی کوشش کی تو اسی نکتہ نظر کے تحت “تھری ایڈیٹس” میں مزاح کے ذریعے نوجوان ذہنوں پر لگے گہرے گھاؤ دکھائے ہیں۔ “تھری ایڈیٹس” اس لحاظ سے شاہکار ہے کہ اس میں چارلی چیپلن اور راج کپور کے انداز میں مزاح کے ذریعے سنگین نفسیاتی و معاشرتی پیچیدگیوں کی گرہیں کھولی گئی ہیں۔
عامر خان ہمارے عہد کے ان فن کاروں میں سے ہیں جن کے کردار ہمارے ارد گرد رہتے ہیں۔ “تلاش” ، “دنگل” ، “دھوبی گھاٹ” اور “پی کے” میں سماج کی متعدد فرسودہ اقدار کو ایک عام آدمی کی نظر سے دیکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔
شاہ رخ خان سماجی زندگی کی تفہیم میں عامر خان کی نسبت زیادہ سنجیدہ نظر نہیں آتے لیکن اس کے باوجود ان کی بعض فلمیں سنجیدگی کی انتہا کو چھوتی نظر آتی ہیں۔ “مائی نیم از خان” کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہ فلم صرف مسلمانوں کو مطعون کرنے کے خلاف احتجاج نہیں کرتی، یہ ہر قسم کے گروہی تعصب کے خلاف استعارہ ہے۔ کیا اسے آج پنجاب میں جاری پشتون پروفائلنگ پر منطبق نہیں کیا جاسکتا کہ “مائی نیم از خان اینڈ آئی ایم ناٹ اے ٹیرراسٹ؟”۔
ناسا کا حساس ملازم امریکہ سے ہندوستان آتا ہے تانکہ اپنی کاویری اماں کے دکھ بانٹ سکے۔ کاویری اماں تو پورا ہندوستان ہے۔ گاؤں پہنچ کر جب اس تلخ حقیقت سے پالا پڑتا ہے تو نوجوان کی قلبِ ماہیت ہوجاتی ہے اور وہ کاویری اماں کی مشکلات کا حل تلاش کرنے رک جاتا ہے، “سوا دیس”۔
سرمایہ دارانہ سماج میں ہر انسان آگے بڑھنے کی کوشش میں خود کو اور رشتوں کو کچلتا جا رہا ہے , تنہائی اور بیگانگی کے احساس نے “ترقی یافتہ” انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیا ہے، “ڈیئر زندگی”۔
اقلیتی طبقے کو اکثریت کی جانب سے جب غداری کے سرٹیفکٹ ملتے ہیں تو اس پر کیا گزرتی ہے , وہ دکھ اور تکلیف کی کس آگ میں جلتا ہے یہ دکھایا گیا ہے، “چک دے انڈیا” میں۔
عامر خان اور شاہ رخ خان کا فلسفہ زندگی اور تصورِ عشق جدا ہونے کے باوجود وہ اس لحاظ سے مشترک ہیں کہ دونوں فلم انڈسٹری میں ایک مخصوص فکر و نظر کے ترجمان ہیں۔ دونوں فلموں کے ذریعے زندگی اور اس سے منسلک تضادات پر ایک واضح رائے رکھتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ دیگر اداکار مثلاً سلمان خان، عرفان خان، عمران ہاشمی، نانا پاٹیکر، پاریش راول، اکشے کمار وغیرہ زندگی کے حوالے سے کوئی نظریہ نہیں رکھتے۔ مقصد صرف ان دو فن کاروں کے فن کے اس پہلو کو سامنے لانا ہے، ان کو دیگر فن کاروں کے لحاظ سے برتر ثابت کرنا نہیں۔
بشکریہ: حال احوال
One Comment