ذوالفقارعلی زلفی
کامریڈ بھگت سنگھ ان چند سیاسی رہنماؤں میں سے ایک ہیں جن کی انقلابی زندگی، نظریات اور شہادت ہندی سینما کی دلچسپی کا مرکز رہے ہیں۔ گوکہ ان کی زندگی پر دیگر زبانوں تامل، ملیالم اور بنگالی وغیرہ میں بھی فلمیں بنائی گئی ہیں مگر چونکہ زیر نظر موضوع کا تعلق مرکزی سینما سے ہے اسی لیے صرف اسی پر ہی بحث کی جائے گی۔
۔1۔ شہید اعظم سردار بھگت سنگھ
کامریڈ بھگت سنگھ کی شہادت کے 23 اور آزادی کے سات سال بعد ان کی زندگی پر پہلی فلم “شہیدِ اعظم بھگت سنگھ” کے نام سے ہدایت کار جگدیش گوتم نے بنائی۔ فلم کے مرکزی کرداروں میں ابید، جیراج اور بسواس نمایاں ہیں۔ اس فلم میں بھگت سنگھ کے نظریات اور ان کی جدوجہد کو گوکہ بلا کم و کاست پیش کیا گیا ہے مگر نہ صرف ہدایت کاری بلکہ اداکاری کے لحاظ سے بھی فلم کافی کم زور ہے۔
ان کمزوریوں کے باوجود فلم نے کافی نام کمایا اور سینما ہالز بھرے رہے۔ اس کی وجہ غالباً پہلی دفعہ بھگت سنگھ کو سینما پر پیش کیا جانا تھا جس کی وجہ سے عوام نے اس کی بھرپور پذیرائی کی۔
۔2۔ شہید بھگت سنگھ
1963 کو ہدایت کار کے۔این بنسل نے “شہید بھگت سنگھ” کے نام سے کامریڈ اور ان کے رفقا کو سینما اسکرین پر پیش کیا۔ اس فلم میں اس دور کے بہترین اداکاروں شمی کپور ، شکیلا اور پریم ناتھ نے اداکاری کے جوہر دکھائے۔ یہ فلم پہلی کی نسبت ہدایت کاری و اداکاری کے شعبے میں بہتر رہی۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس کو بھی ہر سطح پر سراہا گیا، حالان کہ فنی و تکنیکی کمزوریاں اس میں بھی کافی ہیں۔
۔3۔ شہید
کامریڈ بھگت سنگھ کی انقلابی زندگی پر بننے والی فلموں میں 1965 کی “شہید” یوں تو تیسری کاوش ہے لیکن اگر تکنیکی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ وہ پہلی فلم ہے جس میں ہدایت کاری، اداکاری اور موسیقی شاندار ہے۔ منوج کمار نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کے بل پر بھگت سنگھ کی بے مثل اداکاری کی۔ فلم کے ہدایت کار ایس۔رام شرما نے بھی اپنے فن کا زبردست مظاہرہ کیا ہے۔
“شہید” نے جہاں منوج کمار کی فلمی سوچ بدل دی وہاں ان کی اداکاری اور انقلابی نغموں و ترانوں نے اس فلم کو کلاسیک کا درجہ دلادیا۔
فلم کی ہر دل عزیزی کا اندازہ اس امر سے کیا جاسکتا ہے کہ اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم رام بہادر شاستری محض دس منٹ کے لیے سینما تشریف لائے مگر بیٹھنے کے بعد اٹھنا بھول گئے اور اختتام تک عوام کے حقیقی ہیرو کو دیکھتے رہے۔
۔4۔ شہیدِ اعظم
طویل خاموشی کے بعد 2002 کو کامریڈ کی زندگی پر یکے بعد دیگرے تین فلمیں ریلیز کی گئیں جن میں سے دو کو شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا ۔ان دو میں سے ایک ہیں سکمار نائر کی “شہیدِ اعظم“…۔۔اس کے مرکزی کردار دوسرے درجے کے اداکار سونو سود ہیں۔
مذکورہ فلم میں کامریڈ کی زندگی کو موجودہ بھارت کے سرمایہ دارانہ بیانیے کے مماثل دکھا کر ان کی شخصیت اور نظریات کو مسخ کرکے پیش کیا گیا۔ ہندوستان بھر کے دانش وروں اور سیاسی کارکنوں کے شدید اعتراضات کے باعث فلم کی ساکھ کو کافی نقصان پہنچا۔ دوسری جانب اداکار منوج کمار بھی میدان میں آگئے انہوں نے ہر فورم پر جاکر فلم پر تنقید کی اور اسے کامریڈ کی جدوجہد پر حملہ قرار دیا۔
۔5۔تئیس23 مارچ 1931 ، شہید۔
ہدایت کار گڈو دھونا کی فلم “23مارچ 1931 ، شہید” کو بھی اداکار منوج کمار کے غیض و غضب کا نشانہ بننا پڑا۔ فلم کا مرکزی کردار بابی دیول اور چندرشیکھر آزاد کا کردار ان کے بڑے بھائی سنی دیول نے نبھایا جب کہ پروڈیوسر ان کے والد دھرمیندر ہیں۔
اس فلم پر منوج کمار اور ان کے دیرینہ دوست دھرمیندر کے درمیان کافی دلچسپ لفظی جنگ ہوئی۔ منوج کمار نے فلم ٹیم کو کامریڈ کی زندگی کا مطالعہ کرنے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ ہمارے ہیرو کو انٹرٹینمنٹ نہ بنایا جائے جس پر سنی دیول نے کہا کہ منوج کمار ہم پنجابیوں سے زیادہ بھگت سنگھ کو نہیں جانتے۔
آخری فیصلہ فلم بینوں کا رہا جنہوں نے درست طور پر فلم کو یکسر مسترد کردیا۔
۔6۔ دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ
سنہ2002 کی تیسری فلم ہدایت کار راجکمار سنتوشی کی “دی لیجنڈ آف بھگت سنگھ” رہی۔ اس میں ھندی سینما کے سپر اسٹار اجے دیوگن نے بھگت سنگھ بن کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ فلم گوکہ 1965 کی “شہید” کے ہم پلہ نہیں لیکن بہرحال ایک اچھی کوشش کہی جاسکتی ہے۔
اس میں بھی کامریڈ کی زندگی کو ہر ممکن طریقے سے بلا کم و کاست بیان کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی نیز فلم “شہید” کو مدنظر رکھ کر نغموں اور موسیقی پر بھی کافی محنت کی گئی ہے۔
۔7۔ رنگ دے بسنتی
راکیش اوم پرکاش مہرہ کی فلم “رنگ دے بسنتی” براہِ راست کامریڈ بھگت سنگھ کی زندگی پر مبنی نہیں ہے اور یہی چیز اس کو ممتاز بناتی ہے۔
سنہ2006 کی اس فلم میں بھگت سنگھ کی جدوجہد , نظریات اور زندگی کو سامنے رکھ کر موجودہ بھارت کا تجزیہ کرکے یہ نتیجہ نکالا گیا ہے کہ بھارت کے صرف حکمران بدلے ہیں عوام کی زندگی نہیں لہٰذا بھگت سنگھ کی جدوجہد جاری ہے…۔۔اس جدوجہد کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری نئی نسل کے نمائندوں عامر خان، شرمن جوشی، کنال کپور ، سوہا علی خان و دیگر پر عائد ہوتی ہے۔
فلم “شہید” کے بعد یہ وہ دوسری فلم ہے جس نے ہر شعبے میں خود کو منوایا۔ موسیقار اے۔آر رحمن نے تو ایسا لگتا ہے اس فلم میں اپنی تمام تر صلاحیتوں کو یکجا کرکے ان کا مکمل استعمال کیا ہے۔
فلم میں چھپا پیغام نہ صرف بھارت بلکہ دنیا بھر کے محنت کشوں کے دل کی آواز ہے۔ اس فلم نے بھگت سنگھ کو الماریوں اور فریم شدہ تصویروں سے نکال کر ایک بار پھر کھیتوں، کھلیانوں اور فیکٹریوں میں “مرا رنگ دے بسنتی چولا” گاتے دکھایا، اور سپر ہٹ قرار پائی۔
(بشکریہ “حال حوال)