ایمل خٹک
پاک افغان کشیدگی کے خاتمے اور افغان امن مذاکرات کی بحالی کیلئے سفارتی کوششیں تیز ہوگئی ہیں اور اس سلسلے میں بعض علاقائی قوتوں اور مشترکہ دوست ممالک کی کھلے عام اور درپردہ سفارتکاری بڑھ گئی ہے ۔ لندن میں برطانیہ کی کوششوں سے پاک افغان مذاکرات کا انعقاد ہوا ہے اور چین نے طالبان اور افغان حکومت سے امن مذاکرات کی بحالی کیلئے رابطے کئے ہیں ۔ امریکہ بھی طالبان کی بڑھتی ہوئی کاروائیوں کے پیش نظر فوجیوں کی تعداد بڑھانے اور ڈرون حملے تیز کرنے کے اشارے دے رہا ہے جس کا مقصد طالبان پر مذاکرات کے لیے دباؤ بڑھانے کے ساتھ ساتھ اس کی فوجی پیش قدمی کو روکنا ہے ۔
برطانیہ کی ثالثی اور سہولت کاری سے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری کشیدگی کے خاتمے کے لیے دونوں ممالک کے اعلیٰ حکام کے درمیان بدھ کو لندن میں اہم مذاکرات ہوئے ۔ ان مذاکرات میں پاکستان کی جانب سے وزیر اعظم کے مشیر براے خارجہ امور سرتاج عزیز اور افغانستان سے افغان قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر، پاکستان میں افغان سفیر ڈاکٹر عمر زخیلوال نے شرکت کی جبکہ برطانیہ کی قومی سلامتی کے مشیر مارک لائل گرانٹ نے میزبان ملک کی نمائندگی کی۔ مذاکرات میں اور باتوں کے علاوہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے تعاون کے طریقہ کار اور دونوں ممالک کے درمیان جاری حالیہ تناؤ اور کشیدگی میں کمی اور سرحد کی بندش پر بات چیت ہو ئی۔
پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کی سطع اور بڑھتی ہوئی غلط فہمیوں اور بدگمانیوں کو دیکھ کر ملاقات سے زیادہ توقعات وابستہ نہیں کی جاسکتی ۔ مگر برطانیہ کی ثالثی سے اعلی سطحی رابطے بحال ہونے میں مدد ملی ہے۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں کشیدگی کے خاتمے اور مرحلہ وار اعتماد سازی کیلئے ایک میکنزم اور مستقبل میں رابطوں کے جاری رہنے پر اتفاق ہوا ہے ۔ ملاقات کی تفصیلات ابھی تک دستیاب نہیں۔ پاک افغان سرحد کا کھولنا مذاکرات میں پیش رفت اور کامیابی کا ایک اہم پیمانہ ہوگا ۔
اگرچہ لندن میں اعلی حکام کی ملاقات کے بعد پاک افغان سرحد کےجلد کھلنے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں مگر سرحد کی تقریباً ایک ماہ کی بندش کی وجہ سے افغان ٹریڈ سے وابستہ کراچی سے لیکر سرحد تک لاکھوں افراد کا کاروبار اور روزگار ٹھپ پڑا ہے ۔ قومی معیشت کو بھی تین ملین ڈالر روزانہ کا نقصان پہنچ رہا ہے جبکہ نجی ٹرانسپورٹروں اور تجارت پیشہ افراد کا نقصان الگ سے۔ دونوں طرف کے تاجر اور دیگر متاثرہ طبقے ہڑتال اور احتجاج کرتے کرتے تھک گئے۔ حکومت نے عوامی دباؤ پر سرحد کو دو دن کیلئے عارضی طور پر کھولا تھا تاکہ دونوں طرف سینکڑوں پھنسے مسافروں کو آنے اور جانے کا موقع مل سکے ۔
دوسری طرف سرحد کی بندش کی وجہ سے افغان مارکیٹ پر توقعات کے برعکس اتنے گہرے مضر اور منفی اثرات نہیں پڑے جتنا پاکستانی پالیسی ساز اندازہ لگا رہے تھے۔ جلال آباد اور قندھار کی مارکیٹ میں چینی اور کچھ سبزیوں کی قیمتوں میں معمول اضافہ دیکھا گیا ہے بصورت مجموعی قیمتوں پر کوئی نمایاں فرق نہیں پڑا ہے۔ مارکیٹ سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری رہی کوئی بڑا بحران دیکھنے میں نہیں آیا۔ البتہ عوام کی آمد و رفت پر اثر پڑا ہے۔ اگر سال 2013/14 میں پشاور کی افغان قونصلیٹ نے روزانہ کے حساب سے 400 ویزے جاری کئے تو 2016 میں یہ تعداد 100 تک پہنچ گئی تھی جبکہ اب روزانہ دس بارہ ویزوں کا اجراریکارڈ سطع تک کمی ہے۔
سرحد کی بندش سے قومی مفاد کو کتنا فائدہ پہنچا یہ تو پالیسی ساز جانیں مگر پاک افغان تعلقات میں کشیدگی اور سرحد کی بندش کے مضر اثرات اب اگلی نسلیں بھگتیں گی ۔ سرحد کی بندش کی وجہ سے دونوں ممالک میں عوامی سطع پر گزشتہ تین چار سالوں میں پیداشدہ بدگمانیاں ، شکوک وشبھات اور دوریاں مزید بڑھی ہیں۔ افغانوں میں پاکستان کیلئے دوستی اور خیر سگالی کے جذبات میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور بہت سی وجوھات کی بناء پر جس میں اسلام آباد یا پنڈی کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا رول زیادہ ہے افغانستان میں پاکستان مخالف مظاھروں کی تعداد بڑی ہے ۔
پاکستانی پالیسی سازوں کی غلط پالیسیوں نے انڈیا کو افغانستان کے گدلے پانی میں مچھلیاں پکڑنے کے عمل کو آسان بنا دیا ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ ہم اپنی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پیداشدہ ناخوشگوار صورتحال کی ذمہ داری قبول کرنے کی بجائے اس سے پہلو تہی یا خود کو بری الذمہ قرار دینے کیلئے انڈیا اور افغانوں کو احسان فراموش قرار دیکر ان پر ڈالتے ہیں۔ ان غلط پالیسیوں کے اثرات اتنے واضح ، نمایاں اور مضر ہو رہے ہیں کہ اب بہت سے ملکی تجزیہ نگار بھی تنقید کرنے سے نہیں چوکتے۔
افغانستان میں تجارت کیلئے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے روایتی راستوں یعنی پاکستان کی بجائے دیگر متبادل راستے تلاش کرنے اور بروئے کار لانے کا عمل تیز ہوگیا اور بہت جلد پاکستان کا سرحد کی بندش کے بارگنینگ یعنی سوداکاری کارڈ بھی غیر موثر ہوجائیگا ۔ سٹرٹیجک ڈیپتھ کے سحر میں اندھے پالیسی سازوں کیلئے شاید یہ معمولی بات ہو اور ان کو تنگ نظر سیاسی یا نظریاتی مفادات زیادہ ا ہم ہوں مگر سخت عالمی معاشی مقابلہ بازی کی فضا میں اور دنیا میں جہاں سفارتکاری میں معاشی مفادات کو ترجیع دی جاتی ہے پاکستان جیسے ملک کیلئے تین بلین ڈالر کی مارکیٹ کھونا ایک انتہائی نقصاندہ اور قومی مفاد کیلئے ایک ضرر رساں اور ناقابل تلافی نقصان ہوگا۔
ایک اندازے کے مطابق پاک افغان تجارت میں 40 فیصدی تک کمی ہوئی ہے اور افغانستان نے پینتیس فیصدی درآمدات ایران کے راستے شروع کردی ہے۔ اب پاکستانی مصنوعات کی جگہ ایرانی، انڈین اور دیگر ممالک کی لے رہی ہے ۔ مثال کے طور پر افغانستان سیمنٹ کی برآمد سے دو سال قبل پاکستان سالانہ ڈیڑھ ارب ڈالر کماتا تھا اب سیمنٹ ایران سے آرہا ہے ۔ پاکستان کی ناعاقبت اندیش پالیسیوں کا قومی صنعت جیسے سیمنٹ ، شوگرز ، پولٹری وغیرہ پر زیادہ منفی اثر پڑنے کا امکان ہے۔
جہاں ایک طرف امر یکی پالیسی ساز اداروں میں پاکستان کے بارے میں پالیسی پر نظرثانی کی باتیں ہو رہی ہے تو دوسری طرف انسداد دھشت گردی کے حوالے سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان جاری تعاون کی افادیت پر سوال اٹھائے جا ر ہے ہیں ۔ اعلی امریکی حکام افغانستان میں فوجی سٹیل میٹ یعنی فوجی قوت میں توازن کی باتیں کر رہے ہیں ۔ اور اس توازن کو توڑنے کیلئے فوجیوں کی تعداد میں اضافے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بعض ماہرین کے مطابق انسداد دھشت گردی کے حوالے سے امریکہ کا پاکستان کو گزشتہ پندرہ سال میں بھرپور تعاون اور امداد کے باوجود افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے ٹھکانے بدستور پاکستان میں موجود ہے۔ اور علاقے خصوصاًافغانستان میں تشدد کے رحجان میں کوئی نمایاں تبدیلی نہیں آئی۔
جنوبی ایشیا اور خصوصاًپاکستان اور افغانستان کے حوالے سے ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی ابھی تک بننے کے مرحلے میں ہے۔ نئی امریکی انتظامیہ ایسے اشارے دے رہی جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ٹرمپ کی پالیسی بارک اوبامہ سے مختلف ہوگی ۔ امریکہ میں افغان سفیر حمداللہ محب نے حال ہی میں کہا ہے کہ ٹرمپ اور اوبامہ کی پالیسی میں بنیادی فرق ہے کہ اوبامہ شکست کو ٹالنے اور ٹرمپ جنگ جیتنے کی چکر میں ہے ۔ افغان سفیر کے مطابق سابق انتظامیہ افغانستان کے حوالے سے شکوک وشبہات کا شکار تھی جبکہ موجودہ انتظامیہ ان سے مختلف ہے۔
ادھر امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی یعنی سی آئی اے کو مشتبہ عسکریت پسندوں کے خلاف ڈرون حملے کرنے کے نئے اختیارات دے دیے ہیں۔ مغربی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ اقدام سابق صدر براک اوباما کی انتظامیہ کی جانب سے سی آئی اے کے نیم فوجی کردار کو محدود کرنے کی پالیسی میں تبدیلی کی غمازی کرتی ہے۔ امریکہ نے بیرون ملک مشتبہ اہداف کے خلاف ڈرون طیاروں کا استعمال گیارہ ستمبر کے دہشت گرد کاروائی کے بعد سابق صدر جارج بش نے شروع کیا تھا ۔ سابق امریکی صدر اوباما جنہوں نے شروع میں اس کا دائرہ وسیع کر دیا تھا مگر دوسری مدت حکومت کے دوران اس کو محدود کیا تھا ۔
فروری کے آخر میں کندوز میں ڈرون حملے کے بعد اور حملوں کے نئے اختیارات ملنے کے بعد سی آئی اے کی جانب سے طالبان راہنماوں پر حملے بڑھ سکتے ہیں۔ اس ڈرون حملے میں سینئر کمانڈر ملا عبدالسلام کی ہلاکت سابق طالبان سربراہ ملا اختر منصور کے بعد طالبان کیلئے ایک بڑا دھچکا تھا۔ طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں اور امن مذاکرات سے انکار کے پیش نظر نئی امریکی انتظامیہ افغانستان میں اپنی فوجی موجودگی اور سرگرمیوں میں اضافہ کرسکتی ہے ۔
♦