ملک فیصل اسلم
اویس اقبال سے میرا تعلق کئی سالوں سے ہے۔ ہمارا کافی وقت اکٹھے گزرا ہے۔ بالخصوص دبئی میں مجھے اویس کو قریب سے جاننے کا موقع ملا۔ اب تک میرے ساتھ اس کا رابطہ مسلسل ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ ایک بے حد ذہین لڑکا ہے۔ بی فارمیسی سے لے کر صحافت کے اس مقام تک پہنچنے کی “ہسٹری آف سویلائزیشن” میں اس کے روحانی استاد ول ڈیورانٹ تنہا کار فرما نہیں بلکہ اس کی ایک خاص ذہانت اور مستقل انانیت زیادہ اہم کٹالیسٹس ہیں۔
حال ہی میں اویس نے جاوید احمد غامدی کے بارے میں جو خوبصورت کالم تحریر کیا ہے۔ اس میں سے کچھ باتیں آج سے کئی سال قبل اویس نے میرے ساتھ کی تھیں۔ کچھ باتیں نئی تخلیق کی ہیں اور باقی کی کچھ باتیں حسن تحریر کی ضرورت کے تحت لکھنی پڑی ہوں گی۔ میں نے اس کے پاس سوالات کے وہ سب نوٹس دیکھے ہیں۔ جو وہ ریکارڈنگ کے لئے اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا اور اس میں سے ایک ایک سوال پر ہم نے گھنٹوں بات چیت کی ہے۔ میں ایک بات اپنے علم کی حد تک یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو سوالات اس کالم میں اویس نے اس انداز سے اٹھاے ہیں کہ جیسے وہ ان کے جوابات سے مطمئن نہیں۔ایسا ہر گز نہیں۔ ان میں سے ایک ایک بات کا وہ جواب بھی جانتا ہے۔ کیسی دلچسپ بات ہے نا؟
دبئی میں میرے ایک قریبی دوست ڈاکٹر وسیم صاحب جو ایک یونیورسٹی میں پروفیسر ہیں۔ انہوں نے دین سے متعلق کچھ سوالات تحریر کر رکھے ہیں اور وہ ان سوالات کو بار بار دوہراتے رہتے ہیں۔ اپنے طلباء کو سوالات پڑھ کر سناتے ہیں۔ یہ سوالات سینکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ کچھ تو بہت سادہ سوالات ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے۔ کہ وہ ان سوالات کے جوابات جاننا نہیں چاہتے۔ میں نے ایک دفعہ ان کی ملاقات جاوید احمد غامدی صاحب سے بھی کروائی۔ وہ اس شخص کو ناپسند کرتے ہیں جو ان کے سوالات کے جواب دینا چاہے۔ وہ ان کو سوالات ہی رہنے دینا چاہتے ہیں۔ اسی میں وہ ایک خاص طرح کی لذّت محسوس کرتے ہیں۔ ان سوالات کو بار بار پڑھتے ہیں۔ اور اس پر داد تحسین حاصل کرنا پسند کرتے ہیں۔ اگر کسی سوال پر کبھی کوئی داد نہ دے پاتا تو اسے مخاطب کر کے اپنا سوال دوہراتے اور داد حاصل کر چکنے کے بعد ہی آگے بڑھتے۔ میں اگر کوئی ماہر نفسیات ہوتا تو ڈاکٹر صاحب اور اویس اقبال صاحب کے اس نفسیاتی مسئلے کی جانب ضرور نشان دہی کرتا جاتا۔
مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے کہ اویس نے جب جب بھی وہ سوالات جو اس نے ریکارڈنگ کے دوران غامدی صاحب سے کئے تھے مجھے پڑھ کر سنائے ہر ہر سوال کے آخر میں ضرور ایک بات کہی۔ وہ یہ “کہ پھر غامدی صاحب بزت (بے عزت) ہو گئے“۔ مثال کے طور پر وہ بتاتا کہ میں نے فلاں فلاں سوال کیا تو غامدی صاحب نے اس کا یہ جواب دیا میں نے آگے سے فورا یہ سوال کر دیا تو پھر غامدی صاحب بہت ‘بزت‘ ہو گئے۔
در حقیقت ‘بزت‘ کرنا ہی اویس کا نفسیاتی ہدف تھا۔ نہ کہ کسی سوال کا جواب حاصل کرنا۔اور یہ بات میں اسے بارہا باور کروا چکا ہوں۔ اس کے حالیہ کالم میں یہ جملہ اس کے اسی نفسیاتی کمتری کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ “چونکہ یہ پروگرام ریکارڈڈ ہوتا تھا لہذا اسے ایڈٹ ایسے کیا جاتاتھا کہ غامدی صاحب فاتح نظر آتے تھے مگر اسکے باوجود پوری دنیا سے مجھے ہیٹ میلز آتی تھی“۔
اویس بھائی کا مسئلہ نہ تو یوتھ کے سوالات تھے نہ اس پروگرام کے ناظرین تک کسی علم کی رہنمائی۔ ان کا مسئلہ صرف فاتح نظر آنا تھا۔ ٹی وی چینل کی اس غلط پالیسی (کہ پروگرام کے مہمان جو کہ دین کا ایک عالم بھی ہو اس کو فاتح دکھانا ہے) کے ہاتھوں مجبور محض ہو کر ہی یہ تلخ کالم لکھ ڈالا۔ ورنہ تو وہ خود فرماتے ہیں کہ غامدی صاحب بہت زیادہ ریشنل ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر میں خداناخواستہ مسلمان ہوتا تو شاید انھی کے کیمپ میں ہوتا۔
میں نے فیس بک پر دیکھا ہمارے ایک سادہ لوح بھائی ان کے اس جملے میں لفظ ‘خداناخواستہ‘ کو ان کے سارکسٹک ہونے پر محمول کر رہے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ ایسا ہر گز نہیں ہے۔
میرا جاوید احمد غامدی صاحب سے بھی کئی برسوں سے تعلق ہے۔ میں ان کا شاگرد بھی ہوں جس طرح ہزاروں اور لوگ بھی ان کے شاگرد ہیں۔ لیکن جو سوالات اویس اقبال نے اپنی ایک خاص نفسیاتی تسکین کے لئے اٹھائے ہیں میں ان کا جواب غامدی صاحب کی طرف سے نہیں دینا چاہتا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ غامدی صاحب کا کیا نقطۂ نظر ہے یہ ان کے شاگردوں میں سے جو دین کے عالم ہیں وہ ان سوالات کے جواب اگر چاہیں گے تو دے دیں گے۔
میں تو صرف یہ بتانا چاہتا ہوں کہ حضرت مولانا اویس اقبال کو حقیقتاً ان سوالات کے جواب جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں آپ سے سچ عرض کرتا ہوں اور میں اس بات کا گواہ ہوں کہ اویس اقبال اچھی طرح سے ان سب سوالات کے جواب جانتا ہے۔لیکن اس نے دانستہ یا غیر دانستہ غامدی صاحب کی بہت ساری باتوں کو ادھر ادھر کر کے بات کو منفی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس نے ایسا کیوں کیا میں نہیں جانتا مگر ممکن ہے فاتح نظر آنے کی ایک آخری کوشش کے طور پر کیا ہو۔ابھی کچھ ہی عرصہ قبل اویس نے مجھے یہ بھی بتایا تھا کہ وہ جاب حاصل کرنے کے لئے غامدی صاحب کے بیٹے معاذ کے پاس گیا تھا لیکن اس نے کوئی خاص مدد نہیں کی۔ ممکن ہے اس بات پر اویس بھائی برا مان گئے ہوں۔
اگر ریس کورس پارک لاہور میں ایک جوان لڑکی کا ریپ ہو جاتا ہے تو معاشرہ ریپسٹ کو زیادہ سے زیادہ سزاے موت دے سکتا ہے۔ خدا چاہے تو اس ریپسٹ کو اپنے حتمی وعدے کے بر خلاف ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دوزخ کا ایندھن بنا سکتا ہے مگر اگر خدا خود بھی چاہے تو کیا اس لڑکی کی عزت واپس لا سکتا ہے؟
واہ جی واہ کیا زبردست سوال ہے۔ غامدی صاحب ‘بزت‘ ہو گئے۔
بس یہی وہ حتمی جواب ہے جو اس سوال کا خالق سننا چاہتا ہے۔
اس سوال میں جس عزت کی واپسی خود خدا کے لئے نا ممکن قرار دی گئی ہے۔ وہ اردو کا لفظ عزت یعنی آنر نہیں بلکہ انڈین فلم انڈسٹری سے مستعار لیا ہوا لفظ عزت ہے جو ایک عمل کے نتیجے میں لٹ جاتی ہے۔ بھائی ! عمل تو یہ ہو یا کوئی اور جب وہ ہو گیا تو پھر اس کا لوٹنا کیا ؟ اور عزت یا مقام کا لوٹایا جانا اس معاشرے کی تربیت پر منحصر ہے جس میں اس خاتون کے ساتھ کوئی بھی زیادتی ہوئی ہو۔
اویس اقبال اس بات سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہے بلکہ اس نے اس علمی بددیانتی کا مظاہرہ کیا ہے کہ غامدی صاحب کے جوابات ادھر ادھر کر کے پیش کئے ہیں۔ مثلا یہ تاثر دینا کہ غامدی صاحب نے اس سوال کے جواب میں یہ کہا کہ ہاں خدا بھی وہ عزت تو نہیں لوٹا سکتا ہاں لیکن وہ اس ریپ کے بدلے میں جنّت دے دے گا۔ اور پھر گورنمنٹ کالج کی طالبہ کا سوال پیش کر کے غامدی کو ‘بزت‘ کر دیا۔ واہ سبحان الله۔
غامدی صاحب کسی سوال پر غصے میں آ کر مائک پھینک کر سٹوڈیو سے باہرچلے جائیں۔ لاکھ روکنے پر بھی نہ رکیں۔ یہ بات غامدی صاحب کے بدترین دشمن بھی نہیں مان سکتے۔ انہوں نے سخت سے سخت سوال سننے کی اور اس کا انتہائی تحمل اور شائستگی سے جواب دینے کی جو مثال پیدا کی ہے وہ ہمارے دینی حلقے میں صدیوں سے ناپید ہو چکی تھی۔ غامدی صاحب کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اب انفارمیشن ٹیکنالوجی نے ہماری انگلیوں کی پوروں پر رکھ دیا ہے۔ کون ہے جو ان کے اخلاق،ان کے رویے، ان کے کسی رد عمل یہاں تک کہ چہرے کے تاثرات تک سے واقف نہیں۔ کیا اب بھی کسی نفسیاتی مریض کا دروغ پنپ سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
دوسرے یہ کہ اویس صاحب نے لکھا کہ غامدی صاحب بلٹ پروف گاڑی میں بیٹھ کر ایلیٹ فورس کی دو گاڑیوں کی حفاظت میں ڈیفنس میں اپنے پر شکوہ بنگلے کی طرف روانہ ہو گئے۔ بات یہ ہے کہ اس میں وہ کیا حرام چیز ہے اور کس جذبے کی تسکین کے لئے اس بات کو زینت تحریر فرمایا گیا۔
نجم سیٹھی اور غامدی صاحب کو ایک ہی فیکس میسج میں تحریک طالبان کی طرف سے جان کی دھمکی ملی۔ اویس اقبال نے نجم صاحب کو ملحد قرار دے کر جس جرم کا ارتکاب کیا ہے اس پر تو ان کو معافی مانگنی چاہیے البتہ سوال یہ اٹھایا ہے کہ غامدی صاحب الله کو حفیظ اور غفور و رحیم ماننے کے باوجود جان بچانے کے لئے ملایشیا چلے گئے۔ میں آپ کو عرض کروں کہ اویس اقبال صاحب یہ بھی جانتے ہیں غامدی صاحب اس فیکس کے نتیجے میں ملایشیا نہیں گئے۔ اور یہ بھی جانتے ہیں جس وجہ سے گئے ہیں وہ صرف الله کو حفیظ اور غفور و رحیم مان کر ہی جایا جا سکتا ہے۔اور اس کا اظہار بے شمار دفعہ وہ کر چکے ہیں۔ ان کے رسپانس یو ٹیوب پر موجود ہیں۔
اویس اقبال صاحب جیسا ذہین آدمی کیا یہ نہیں جانتا ہو گا کہ کسی حدیث کو ضعیف قرار دینا یا صحت کے معیارات پر پورا قرار دینا محدثین کرام کا کام ہے۔ اور یہ کہ صحت کے معیار پر پورا نہ اترنے کی وجہ صرف راوی نہیں ہوا کرتے۔ کون کہتا ہے کہ یہ بات اویس کو نہیں پتا؟
ایک اور بات عرض کرنا چاہتا ہوں۔ محترم اویس صاحب کے لئے علمی بددیانتی سے آگے کا کوئی لفظ ذہن میں نہیں آ رہا۔ یعنی وہ بات جس پر ہم غامدی صاحب کو سراہتے ہیں۔ کہ ہمارے علماء میں ان بہت کم لوگوں میں ان کا شمار ہوتا ہے۔ جو نہ صرف ہمیشہ تحقیق مسلسل میں مگن رہتے ہیں بلکہ خود اپنی ہی کسی غلطی کا اعتراف کر کے اس کے وجوہ اور نئے نتائج تحقیق سے ہم ایسے طالب علموں کو آگاہ کر کے ہم پر احسان کرتے ہیں۔ اسی کو اویس صاحب نے منفی انداز میں نقد کر کے پیش کیا۔ اور فرمایا کہ یہ غامدی صاحب کی ترکش کا ایک اور تیر ہے۔ اور فرماتے ہیں کہ نکتہ صرف یہ ہے کہ حتمی الہامی دانش بھی علمائے دین کی راۓ کو مستقل نہیں رکھ پاتی۔
حالانکہ یقین کیجئے گا، اویس صاحب اس بات سے بطریق احسن واقف ہیں کہ مستقل صرف ‘حتمی الہامی دانش‘ ہی ہوتی ہے۔ کسی کی آرا مستقل نہیں ہوتیں۔
اویس صاحب جبر و قدر کے مسلے پر نہ صرف مجھ سے زیادہ جانتے ہیں بلکہ غامدی صاحب کے اس پروگرام ‘نظریۂ تقدیر‘ جو یو ٹیوب پر موجود ہے کے بعد ان کےذہن میں کئی عقدے واشگاف ہوئے تھے ۔ لیکن اس پر پھر دو پیراگراف اپنے اس آرٹیکل کی زینت بناۓ۔ کیوں؟ اس لئے کہ خاص طور پر یہ سوال ملحدوں کے لئے وہ لذت بہم پہنچتا ہے جو خشک گوبر کی تھاپی جنوں کے لئے۔
اویس صاحب کے علم میں ہے کہ خدا کا علم کیا ہے؟ وہ کتنا جانتا ہے؟ اس کے علم کے کوئی حدود ہیں یا نہیں؟ یہ بھی ان کے علم میں ھے کہ ان سب سوالوں کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ اس دنیا میں ہمیں کس حد تک اختیار حاصل ہے اور کہاں ہم بے اختیار ہیں۔ مثلا یہ کہ ہم کہاں پیدا ہوں گے۔ ہمارے ماں باپ کون ہوں گے۔ ہماری شکل صورت کیا ہو گی۔ اس سب پر ہمارا اختیار نہیں، لیکن ہمیں نیک اور بد میں سے کونسا عمل اختیار کرنا ہے اس کے چناؤ کا ہی وہ اصل امتحان ہے جس کے لئے اس دنیا میں ہمیں بھیجا گیا ہے۔ اب اس سے آگے بڑھ کر اگر ہم یہ بحث کریں کہ لوح محفوظ میں اللہ نے کیا لکھ رکھا ہے اور کیا نہیں لکھ رکھا ہے۔ تو یہ بھی حدود سے متصوفانہ تجاوز ہے۔
لکھتے ہیں کہ غامدی صاحب کی کتاب میزان کے دیباچے میں درج ہے کہ وہ شیخ افضال کے ممنون ہیں جنہوں نے اس علمی کام کے دوران انہیں فکر معاش سے بے نیاز رکھا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میرے پاس بھی میزان کا نسخہ موجود ہے۔ ابھی میں نے احتیاطاًدوبارہ دیکھا ہے۔ مجھے تو دیباچے میں ایسی کوئی بات نہیں ملی۔ دوسری بات پھر وہی سوال ہے کہ اس میں وہ کیا بات ہیں جو نا جائز ہے اور جس کے ذریعے سے ان کو متعون کیا جاۓ۔ یعنی علمی کام میں خدمت بھی ایک قابل تحسین عمل ہے اور اس پر کسی کا ممنوں ہونا بھی وضعداری کا نمونہ ہے۔ اچھا پھر یہ کہ میر ابراہیم شکیل نے غامدی صاحب کے صاحبزادے کو ڈائریکٹر پروگرامنگ تعینات کر رکھا ہے۔ تو پھر ؟ یعنی پھر کیا؟ یہ تو ایسے ہی ہے کہ اگر غامدی صاحب کا بیٹا بنک میں ملازم ہوتا تو میں اس بات کو اعتراض بنا کر پیش کروں کہ دیکھو مسلم کمرشل بنک والوں نے غامدی صاحب کے بیٹے کو مینیجر تعینات کر رکھا ہے۔ انسان بعض اوقات حد کر دیتا ہے۔
آگے اویس صاحب لکھتے ہیں کہ غامدی صاحب نے ایک پروگرام میں سور کے حرام ہونے کی وجہ یہ بتائی کہ وہ اپنی محرمات سے اختلاط کرتا ہے۔
اویس صاحب اس بات سے ایسے ہی واقف ہیں جیسے اپنے وجود کے بارے میں، کہ غامدی صاحب کی کتب، ان کی ویب سائٹس، ان کے ریکارڈنگ کلپس، میں ایک دو نہیں بلکہ بیسیوں جگہ موجود ہے کہ سور بھیڑ بکری کے بہا ئم میں سے وہ واحد جانور ہے جو درندوں کی طرح گوشت بھی کھاتا ہے۔ اصل میں درندگی وجہ حرمت ہے۔
ایک اور پروگرام میں غامدی صاحب سے پوچھ بیٹھا کہ جناب حضرت آدم زبان کون سی بولتے تھے ۔ذہین آدمی ہیں۔ایک دم چونک گئے ۔مصنوعی بے اعتنائی سے کہنےلگے کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔میں نے کہا جناب فرق یہ پڑتا ہے کہ جب کوئی کہانی بنائی جاتی ہے تو اس میں بہت سے لوپ ہولز رہ جاتے ہیں اور زبان آدم کا علم نہ ہونا بھی آپ کی کہانی کے لوپ ہول کی جانب اشارہ کرتا ہے۔آپ کو یہ علم ہے کہ آدم کی پسلی سے حوا پیدا ہوئیں۔شجر ممنوعہ کھانے جیسے مضحکہ خیز جرم پہ دونوں جنت سے نکالے گئے۔ان کے دو بیٹے تھے۔ایک کا نام ہابیل اور دوسرے کا نام قابیل تھا۔آپ کو یہ بھی علم ہے کہ قابیل نے ہابیل کو قتل کیا۔آپ کو یہ بھی علم ہے کہ قابیل کو ایک کوے نے تدفین کی راہ سجھائی۔مگر آپ کو یہ علم نہیں ہے کہ حضرت آدم زبان کون سی بولتے تھے ۔
بات یہ ہے کہ اویس اقبال صاحب جانتے ہیں کہ آدم علیہ سلام کی داستان ہو یا کسی اور پیغمبر کی قرآن مجید میں صرف ضمنا اس کا ذکر آتا ہے۔ قرآن کوئی داستانوں کی کتاب نہیں۔ وہ اپنا ایک پیغام رکھتا ہے اور پہلے آنے والوں کا ضمنا ذکر کرتاہے۔ غامدی صاحب نے تو آدم کی کہانی نہیں بنائی جس میں لوپ ہول اویس صاحب تلاش فرما رہے ہیں۔ اگر قرآن میں آدم کی زبان کا ذکر ہوتا بھی اور غامدی صاحب بتا بھی دیتے تو بھائیو یہ مت سمجھنا کہ اویس صاحب یہ آرٹیکل نہ تحریر فرماتے۔ کیوں نہیں؟ ان کے پاس یہ سوال بھی ہیں کہ پھر اس زبان میں فعل حال مطلق کے کیا قواعد تھے۔ اور اس زبان کی پہلی لغت ہابیل نے لکھی تھی یا اس کوے نے؟
اقتصادی نظام پہ پروگرام کا اوپننگ سوال اویس صاحب نے یہ فرمایا تھا کہ اگر زکوة قیامت تک مسلمانوں پر فرض ہے تو اس فرض کی ادائیگی کے لئے اسلام کو غریبوں کی ایک کثیر تعداد درکار ہے۔ یعنی اسلام غربت کو ختم نہ کر سکنے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کرتا ہے۔ ہمارے ہاں پنجابی میں ایک کہاوت ہے کہ “تینوں چڈدے مجی تھلے آں توں وڑدا کٹے تھلے ایں“۔ جن حضرات کو پنجابی نہیں آتی ان کے لئے بہتر ہے کہ اس کہاوت کا مطلب نہ ہی سمجھیں اور اسکو نظر انداز کر دیں۔ بات یہ ہے کہ زکوة فرض ہے، پھر ادا کرنی ہے، ادا کرنے کے لئے بندے ڈھونڈو، بلکہ پیدا کرو، بندے غریب ہونے چاہییں اگر غریب نہیں تو ان کو غریب کرو، پھر ان کی کثیر تعداد چاہئے۔ سب کچھ ہو گیا؟ پس ثابت ہوا اسلام نے اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے۔
آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اویس صاحب کو یہ باتیں نہیں پتا کہ زکوة فرض تو ضرور ہے۔ مگر ایک تو یہ کہ اس کے مصارف صرف غریب لوگ نہیں، یہ حکومت کا ٹیکس ہے جو اس نے تمام باشندوں پر خرچ کرنی ہے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی جگہ غریب نہیں تو اس کو پیدا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
غامدی صاحب کو ان سوالوں کے جواب نہیں آتے تھے پھر بھی چینل والوں نے ان کو فاتح اور میرے پیارے اویس بھائی کو غیر فاتح قرار دیا۔ اب آٹھ سال کے بعد میرے بھائی کو اس آرٹیکل کا سہارا لینا پڑا۔ اور آخر غامدی صاحب کو بزت (بے عزت) ہونا ہی پڑا۔ میرا اویس بھی جیت گیا۔
بات یہ ہے۔ غامدی صاحب الله لوک بندے ہیں۔ میں ان کو کئی سالوں سے قریب سے جانتا ہوں۔ میں سچ عرض کرتا ہوں ان کو ہر گز ان باتوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔ وہ تو اپنے کام میں مگن ہیں۔ ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوا کرتے ہیں۔
ان کی شخصیت مجسم عجز ہے۔ انتہائی خوش اخلاق، بے حد شفیق، انتہائی ناگواری کے عالم میں بھی کسی پر عیاں نہ ہونے دینے والے۔ ایسے متنوع علم کے حامل کہ خدا کی آیت، اتنا بھرپور خطاب کہ سماعتوں کی لذت، بولیں تو دل کرے خاموش نہ ہوں۔ خلوت و جلوت میں خدا خوفی کی مثال۔
اور ایسا دردمند دل کہ اگر ان کو شک بھی ہو جاتا کوئی صرف فاتح نظر آنا چاہتا ہے تو خدا کی قسم اپنی خاموشی اس کے قدموں میں ڈال دیتے۔
طرہٴ دردِ دلِ جامی بہ دریا اُوفتد
سینہ سوزاں، دل کتاں، ماہی ز آب آید بروں
(اگر جامی کے درد دل کا ایک قطرہ بھی دریا میں گر جائے
تو مچھلی بھی اپنے پارہ پارہ دل اور جلتے ھوئے سینے کے ساتھ پانی سے باہر آ نکلے۔)
♦
3 Comments