صوبہ پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادرى کى پہلى برسى کے موقع پر احتجاجى مظاہروں اور عوامى اجتماعات پر پابندى کا حکومتى فیصلہ وقت کى ضرورت اور ملکى حالات سے سمجھوتے کے سوا کچھ بھی نہىں۔
اسلام آباد حکومت کبھى کبھار ایسے فیصلے کر ہی لیتی ہے، جن سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ملک میں پائی جانے والی صورتحال کے پیش نظر مزید تباہی و بربادی اور خطرات کی روک تھام کے لیے پیشگی اقدامات کرنا چاہتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت ایسے ٹھوس اقدامات اسی وقت کرتی ہے جب پانی سر سے اونچا ہو چکا ہو۔
ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے ایک سال بعد یعنی ان کی برسی کے موقع پر بڑے اجتماعات اور احتجاجی مظاہروں کی تیاریاں ایک عرصے سے ہو رہی تھیں اور یہ کوئی ایک یا دو روز کی بات نہیں۔
برسی سے ایک روز قبل تمام تر مظاہروں اور اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کے پیچھے بہت سے عوامل کارفرما ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں ایک بار پھر دہشت گردانہ حملوں اور انتہا پسندوں کی طرف سے خونریز کارروائیوں کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آئی، جس میں 100 سے زائد بے گناہ شہری لقمہ اجل بن گئے۔ ان میں اچھی خاصی تعداد خواتین اور بچوں کی تھی۔
اس صورتحال کے ساتھ ساتھ دوسری جانب حکومت کے سر پر پاناما لیکس سے متعلق مقدمے کی تلوار بھی لٹک رہی ہے جبکہ اندرون اور بیرون ملک یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر حکومت اور ملک کا سب سے طاقتور ادارہ یعنی پاکستانی فوج انتہاپسند عناصر کی رسی کیوں ڈھیلی چھوڑے ہوئے ہیں؟ ایسے میں ’آپریشن رد الفساد‘ اور جلسے جلوس پر پابندی جیسے اقدامات کا سہارا لینا ضروری تھا۔
اہم بات یہ ہے کہ 2011 ء میں جب اس وقت کے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر توہین رسالت اور توہین مذہب کے قوانین پر نظر ثانی کے مطالبے کے سبب خود اپنے ہی محافظ ممتاز قادری کے ہاتھوں اسلام آباد میں دن دیہاڑے قتل ہوئے تھے، تبھی سے حکومت، فوج اور عوام ہر کسی کو یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ ملک میں مذہبی انتہائی پسندی کا درجہ حرارت کس سطح پر پہنچا ہوا ہے۔
سلمان تاثیر کے قاتل کو پھانسی دینے کے فیصلے پر عمل درآمد طویل پس و پیش کے بعد 2016 ء میں کیا گیا اور قاتل موت کے گھاٹ اترتے ہی ہیرو بن گیا۔ یہاں تک کہ وفاقی دارالحکومت میں ممتاز قادری کی تدفین کی جگہ پر مقبرے کی تعمیر بھی شروع ہوگئی۔ سبز گنبد والے اس مقبرے کی تعمیر اس وقت اپنے تکمیلی مراحل میں ہے۔
حکومت یہ سب کچھ نہ صرف خاموش تماشائی بنی دیکھ رہی ہے بلکہ پاکستانی وزیر اعظم کے داماد کیپٹن ریٹائرڈ محمد صفدر، جو پاکستان مسلم لیگ نوازکے یوتھ ونگ کے چیئرمین اور اس وقت رکن پارلیمان بھی ہیں، ممتاز قادری کو شہید قرار دے چکے ہیں۔
پاکستان کے متعدد مسلم انتہا پسند گروپوں کی متحدہ تحريک ’لبيک يا رسول اللہ‘یکم مارچ کو ممتاز قادری کی برسی کے موقع پر احتجاجی ریلیاں نکالنے کی تمام تر منصوبہ بندی کر چکی تھی۔ کیا یہ اسی پیغمبر اسلام کے نام لیوا ہیں، جن کا کہنا تھا: ’’جس نے ایک انسان کی جان لی، اس نے پوری انسانیت کو ہلاک کیا‘‘۔
توہین مذہب اور توہین رسالت کے نام پر دوسرے انسانوں کے ساتھ ظلم و جبر کرنے اور انہیں واجب القتل قرار دینے والوں سے کوئی یہ پوچھے کہ آیا وہ اسی پیغمبر اسلام کے پیروکار ہیں، جنہوں نے انسانیت کو عفو و درگزر کا سبق دیا؟ توہین مذہب اور توہین رسالت کے نام پر جہالت، ناانصافی اور انتہا پسندی کا بازار گرم کرنے والوں سے کوئی یہ بھی پوچھے کہ کیا ان کی مقدس کتاب یہ نہیں کہتی کہ کسی کے جھوٹے خدا کو بھی برا مت کہو؟
مگر یہ کون پوچھے؟ اس لیے کہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے ججوں تک کے قلم اس وقت کانپ جانتے ہیں، جب آسیہ بی بی کیس کی سماعت کا کوئی فیصلہ کن لمحہ آتا ہے۔ تو پھر کس سے منصفی چاہیں؟
DW