تحریر وتحقیق : پائند خان خروٹی
یہ افسوس ناک حقیقت ہے کہ ہمارے معاشرے میں ناخواندہ اور اعلیٰ ڈگری یا فتہ افراد دونوں عملی زندگی کے اعتبار سے ناکام اور نامراد رہے ہیں ۔ایک طرف اگر ناخواندہ اکثریت جدید علوم ، سائنسی ایجادات اور ترقی یافتہ انسانی شعور سے استفادہ کرنے کی شعور نہیں رکھتی تود وسری جانب ہمارے پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل دانشور اور اہل علم وسیاست بھی مجرد علم وآگئی رکھنے کے باوجود آفاقی قوانین اور اصولوں کے معاشرے میں تخلیقی اطلاق کے ہنر سے ناواقف ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دوسروں کے افکارمستعار لے کر خود علم ومعلومات کے گودام تو بن گئے مگر اسی علم وتحقیق کو اپنے ہی معروض اور معروضی حالات کا ادراک نہ رکھنے اور تخلیقی اطلاق کے اصولوں کے ناواقفیت کی وجہ سے نہ صرف تخلیقی عمل سے الگ تھلگ رہ جاتے ہیں بلکہ لمحہ بہ لمحہ نئی تاریخ رقم ہونے کا حصہ بننے سے بھی قاصر رہ جاتے ہیں۔ اس طرح وہ عملی طور پر بانجھ وبنجر رہ جاتے ہیں جبکہ ارتقاء اور ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے شعوری جدجہد اور عملیت پسند بنیاد شرط ہے۔
کائنا ت ،رموز کائنات ، فطرت اور انسانی سماج کو دیکھنے اور سمجھنے کیلئے شروعات سے دو مختلف مکتبہ فکر موجو د رہے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہے ۔ایک کو مادیت پسندی جبکہ دوسرے کو مابعد الطبیعیات کے نام سے موسوم کیا جاتاہے ۔مادیت پسندی کے نقطہ نظر سے کائنات کی کلیدی اور آولین حقیقت مادہ ہے اور باقی تمام چیزیں مادہ کی پیداوار ہے جس کو ہندی فلاسفی میں ’’سب مایا ہے‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ مادہ ایک معروضی حقیقت ہے اور یہ نہ صرف انسانی ذہین سے پہلے وجود رکھتا تھا بلکہ یہ ایک لافانی خزانہ بھی ہے ۔ شاداب مرتضیٰ نے انسانی سوچ اور شعور کو مادہ کی ایک خصوصیت قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’’میٹریلزم ایسا فلسفیانہ رجحان ہے جس کے مطابق تمام اشیا ء کا اخذ مادہ ہے ۔تمام اشیا ء مادی وجو د رکھتی ہے یا اپنے وجود کیلئے کسی نہ کسی مادی شیے پر انحصار کرتی ہیں مثلا سوچ یا شعور کے وجو د کا انحصار دماغ پر ہے اور دماغ ایک مادی وجو د ہے ۔‘‘ (1)۔
اس طرح مابعد الطبیعیاتی نقطہ نظر سے کائنات کو دیکھنے والوں کا خیا ل ہے کہ اصل حقیقت ما ورا مادہ ہے یعنی غیر مرئی قوت کو حتمی سچائی تسلیم کیا جاتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں حقیقی مادی دنیا ثانوی حیثیت اختیار کر جاتی ہے ۔ وجو د اور عدم وجو د کی یہ بحث یونان سے شروع ہو کر آج تک جاری ہے تاہم سائنسی ترقی اور خاص طور سے سائنسی ایجادات کی وجہ سے مادیت پسندی کا رجحان روز بروز مستحکم ہوتا جارہا ہے ۔واضح رہے کہ لفظ میٹر یلزم کا ترجمہ اکثر اوقات مادیت پرستی کیا جاتا ہے جو گمراہ کن ہے کیونکہ پرستش کی اصلاح رجعت پرستوں کی سوچ کے مطابق تودرست ہوسکتی ہے لیکن مادہ کو زندگی کا ماخذ جاننے والے مادیت پسند “پرستش “کے تصور کو تو سرے سے تسلیم نہیں کرتے یہی وجہ ہے کہ رجعت کے ساتھ “پرست“کا لاحقہ استعمال ہوتاہے جبکہ ترقی کے ساتھ یہ لاحقہ “پسند “میں تبدیل ہوجاتاہے ۔ مابعد الطبیعیات پر یقین رکھنے والوں کیلئے مادی دنیا (دنیاوی زندگی )چونکہ ثانوی حیثیت رکھتی ہے اسی لیے وہ اسی دنیا کی تعمیر وتزئین میں کوئی خاص دلچسپی نہیں رکھتے ۔ان کے مقابلے میں مادیت پسند افراد اسی دنیا کو ظلم ،جبر، استحصال اور معاشی غلامی سے پاک کرکے جنت بنانے کی فکروجدوجہد میں سرگرم عمل رہتے ہیں ۔
مادیت پسند افراد کاموقف ہے کہ مادہ کا مستقبل جو ہر حرکت ہے ۔ ہرشے حرکت میں رہتی ہے ،اس لئے زندگی میں جمود اور ٹھہر اؤ کا کوئی تصور نہیں ہے۔ یہاں دائمی سچ کے وجود پر ایک سوال پیدا ہوجاتا ہے۔ یونانی فلاسفر ہیرا کلائٹیس نے تو بہت ہی پہلے کہا ہے کہ
there is nothing permanent except change
مادیت پسند دانشوروں اور فلسفیوں کے مطابق اشیاء میں حرکت تجریدی نہیں بلکہ ایک تخلیقی حقیقت ہے جو مخلوص قانون کے تحت جاری وساری رہتی ہے جسے تضاد کا قانون کہتے ہیں لہٰذا ہر وجود اپنے اندرونی تضادات کے ٹکراؤ یا کشکش کے ساتھ ہی برقرار رہتا ہے اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں جب وجود ختم ہوجاتا ہے تو نیا وجود جنم لیتاہے اور اپنے نئے تضادات کے ساتھ وجود میں آتاہے ۔ ’’جدلیاتی فکر کا بنیادی نقطہ یہ نہیں ہے کہ یہ تبدیلی اور حرکت کے تصور کی بنیاد پر قائم ہے بلکہ اس کا نقطہ نظریہ ہے کہ حرکت اور تبدیلی کی بنیا د تضاد اور کش مکش پر ہے ۔ روایتی رسمی منطق تضاد کو ختم کرنا چاہتی ہے جبکہ جدلیات اسے قبول کرتی ہے۔ تضاد تمام موجودات کی ۔لازمی خصوصیت ہے ۔یہ بذات خود مادے میں موجود ہے یہ تمام حرکت ،تبدیلی ،ترقی اور زندگی کا سر چشمہ ہے ‘‘۔ (2)۔
جدلیات کے عمل میں تین مختلف اصطلاحات استعما ل کی جاتی ہیں۔ تھیسس، اینٹی تھیسس اور سنتھیسس۔ کسی بھی شے یا نظام کے بار ے میں موجود خیا ل کو تھیسس(دعویٰ) اور اس کے ضدمیں پیداہونے والی سوچ کو اینٹی تھیسس (جوابِ دعویٰ) اور دونوں کے ٹکراؤ سے ظہور پذیر ہونے والی سچائی کو سنتھیسس (حاصل شدہ نتیجہ )کہا جاتاہے ۔واضح رہے کہ علم وتحقیق کے سفر میں کوئی بھی حاصل شدہ نتیجہ حتمی نہیں ہوتا اور نیا وجود یا حاصل شدہ نتیجہ سنتھیسس خود ایک تھیسس کی جگہ اختیا ر کرلیتا ہے جس میں تضادات کی موجودگی کے باعث حرکت کاعمل جاری رہتاہے اور بالآخر ایک نیا وجود ظہور پذیر ہوتاہے۔نفی کی نفی کایہ عمل بدستور جاری رہتا ہے ۔
جدلیات کے فلسفے میں یونانی فلا سفر ہیر ا کلائٹیس کے بعد دوسرا معتبر نام جرمن فلاسفر ہیگل کا ہے جس نے جدلیات کے قوانین تفصیل کے ساتھ واضح کئے جس میں:
۔۱۔ کمیت سے کفیت میں تبدیلی کا اور اس کے برعکس قانون ۔
۔۲۔ اضداد کے اجماع اور جدوجہد کا قانون
۔۳۔ نفی کی نفی کا قانون
جدلیات کو خیال پرستی سے جھٹکنے کے بعد اشتر ا کی مفکرا اعظیم کارل مارکس نے پہلی بار اس بات کی نشاندہی کی کہ جدلیات کا درست اور حقیقی ہونے کے باوجود خیا ل پرستی کا شکار ہے ۔چونکہ ہیگل کے ہا ں جدلیات کے واضح تصور کے باوجود مادہ کی اولین حیثیت واضح نہیں تھی اور ہیگل کی جدلیات سر کے بل کھڑی تھیں جبکہ کارل مارکس نے جدلیات کے ساتھ مادہ کی اولین اہمیت وحیثیت کو جڑ کر جدلیات کو سید ھا کر کے سر کی بجائے پاؤں پرکھڑا کر دیا ہے۔ ’’جدلیات، فطرت ،انسانی ،معاشرے اور فکر کی حرکت اور ترقی کر عمومی اصولوں کی سائنس ہے‘‘۔(3)۔
کارل مارکس کے دوست فریڈ رک اینگلز نے جدلیات کو مزید وسعت دیکر فطرت کے معاملات پر اس کا اطلاق کیا اینگلز نے دن رات اور مختلف موسموں کی مثالیں دیکر واضح کیا کہ فطرت میں تغیر وتبدل کا عمل بھی جدلیات کے قوانین کے مطابق ہے ۔“یہاں ہمارا مقصد جدلیات پر کتاب تحریر کرنا نہیں ہے بلکہ صر ف یہ بتانا ہے کہ جدلیاتی قوانین فطرت کے ارتقاء کے حقیقی قوانین ہیں لہٰذا نظریاتی فطری سائنس کیلئے بھی درست ہیں ۔” (4)۔
مارکسز م دنیا کا غالبا ٰ واحد مکتبہ فکر ہے جس میں علم اور عمل کو علیحدہ علیحدہ نہیں بلکہ ایک دوسر ے کے ساتھ مکمل جڑا ہوا دیکھا یا ہے ۔ اشتراکی نظریہ کے مطابق علم اور عمل ایک دوسرے کیلئے لازم وملزوم ہے ۔ پشتوزبان کا مشہور مقولہ ہے کہ آج کا عمل کل کی تاریخ ہے ۔اس کا مطلب یہ ہے کہ عمل پہلے آتا ہے اور بعد میں وہی عمل علم کی شکل اختیار کر جاتا ہے ۔ عمل سے علم اور علم سے عمل بننے کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔“مارکس اور اینگلز کی جدلی مادیت اشتمالیت کا سنگ بنیا دہے مارکس نے فوئر باخ کی مادیت پر قناعت نہیں کی بلکہ ہیگل کی جدلیات کو مادیت میں منتقل کر کے جدلی مادیت کی تاسیس کی ۔مارکس نے سب سے پہلے نظریے اور عمل کی تفریق کو ختم کیا اور کہا کہ نظریہ اور عمل میں کامل اتحاد ہے کیونکہ جدلی مادیت بہ یک وقت ایک نظریہ بھی ہے اور عمل بھی ہے ۔“(5)۔
مارکسی فلسفہ دراصل جدلیاتی مادیت ہی ہے ۔ جدلیاتی مادیت کے نقطہ نظر سے انسانی تاریخ کے مطالعے کے نظام کو تاریخی مادیت کہتے ہے ۔جس میں سماجی ارتقاء ذرائع پیداوار سے مشروط ہے ۔ جدلیاتی مادیت پر یقین کرنے والے مارکسی دانشوروں نے جدلی قوانین کا نفاذ کرتے ہوئے یہ بتا یا کہ تاریخ شخصیات ،خاندانوں اور حکمرانوں کے حوالے سے دیکھنا درست نہیں ہے تاریخ بادشاہوں کی خواہشات پر نہیں بلکہ جدلی قوانین کے مطابق حرکت کرتی ہے ۔
مارکسی تعلیمات کے مطابق ملکیت داری نظام کے آغازکے بعد سے مختلف پیداواری نظاموں مثلا قبائلیت ،جاگیر داری اور سرمایہ داری وغیرہ کے پیدا کردہ سماجی اور طبقاتی تضادات نے انسان کو فطرت کے مقابل اپنی بقا ء کی جنگ لڑنے سے ایک حد تک روک دیا ہے لیکن سماجی و طبقاتی تضادات کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایک نئے غیر طبقاتی ، غیر ریاستی اور غیر ملکیتی ہموار انسا نی سماج وجود میں آجائیگا ۔تاہم نفی کی نفی کے قانون کے مطابق تضاد جب بھی باقی رہیگا اور انسان اپنے منصب کے مطابق اپنی انسانی بقاء کی جنگ اور فطرت پر حکمرانی اور بالادستی قائم کرنے کی جدوجہدمیں زیاد ہ شعور اور توانائی کے ساتھ مصروف ہوجائیگا ۔آفاقی سچائی تک پہنچنے کا یہی سائنسی طریقہ ہے ۔اس طرح جدلیاتی مادیت پسندوں کا موجو دہ دنیا کو جنت بنانے کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوجائیگا ۔
انسانی زندگی ایک زندہ ڈِسپلن کا نام ہے۔ یہاں تمام چیزیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں جس کا ادراک ہم حسیات کے ذریعے کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ایک بھر پور زند گی گزارنے کیلئے ہم پل پل بدلتی دنیا کے ساتھ ہم آہنگ رہیں ۔ماضی سے چمٹے رہنے کی بجائے حال بہتر بنانے کی عملی جدوجہد کرنے کا وقت آپہنچاہے۔ دوسروں کے تجربوں اور مشاہدوں سے استفادہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے معروض کی تبدیلی اور تغیر کے جاری عمل کا متحرک حصہ بننا پڑے گا اور ایک زندہ انسان کی حیثیت سے تاریخ کی تخلیق میں اپنا کردار ادا کر نا ہو گا ۔
حوالہ جات :۔
۔1۔ شاداب مرتضیٰ ،تحقیقی مقالہ ،جدلیاتی مادیت ،تصور اور حقیقت ،ستمبر 2016ء
۔2۔ ایلن وڈز ،ٹیڈ گرانٹ ،مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس ،طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز لاہور ،2012ء،ص 73
۔3۔ ایلن وڈز ،ٹیڈ گرانٹ ،مارکسی فلسفہ اور جدید سائنس ،طبقاتی جدوجہد پبلیکیشنز لاہور ،2012ء،ص 73
۔4۔ جلالپوری ،علی عباس ،روایات فلسفہ ،تخلیقات لاہور ،2013 ء ،ص140
۔5۔ مارکس /اینگلز /لینن ،جدلیاتی مادیت ،ناشر بک ٹائم کراچی ،2014ء،ص 84-85
2 Comments