فرحت قاضی
آپ نے یہ لطیفہ سنا ہوگا
دو بندے ایک سٹاپ پر کھڑے بس کا انتظا ر کر رہے تھے گاڑی آگئی تو ایک نے ذرا پیچھے ہٹ کردوسرے کے لئے راہ بناتے ہوئے کہا:’’آپ تشریف لے جاہیے‘‘
دوسرا بھی سرتاپا آداب تھا۔ اس نے کہا:’’جی پہلے آپ‘‘پہلابولا:’’پہلے آپ جناب‘‘
اس ’’پہلے آپ پہلے آپ‘‘ میں گاڑی روانہ ہوگئی اگر دوسری بس آنے پر بھی یہی سلسلہ چلتا تو وہ اپنے گھروں کو کب پہنچتے؟
یہ اس زمانے کا قصہ ہے جب آبادی کم اور زندگی سست رفتار تھی۔ سفر کے لئے گدھا، گھوڑا ، اونٹ اور بیل گاڑی ہوا کرتے تھے۔ ایک تانگہ مسافروں کے لئے اس وقت تک کھڑا رہتا تھا جب تک کہ سواریوں سے بھر نہیں جاتا تھا اگرلوگ ادب و آداب کے انتہائی پابند تھے تو یہ اس زمانے اور حالات کی مناسبت سے درست بھی تھا۔
اب لوگ یہ قدریں چھوڑ اور بھول چکے ہیں۔ ان کے پاس پہلے آپ پہلے آپ کے لئے وقت نہیں بچا ہے ۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ ایسا کرنے کی صورت میں گاڑی چھوٹ بھی سکتی ہے اور پھر انتظار کرنا پڑے گا۔اس لئے جوں ہی گاڑی آتی ہے ہر ایک اس میں گھسنے کی سعی کرتا ہے اور آداب و اخلاق کا پاس تو ایک طرف وہ جلدی چڑھنے اور پہنچنے کی خاطر لوگوں میں سے اپنے لئے راستہ بناتا ہے اور اس جدوجہد میں اسے یہ بھی خیال نہیں رہتا کہ گاڑی کے انتظار کرنے والوں میں بچے، خواتین اور بوڑھوں کے علاوہ معذور بھی ہوسکتے ہیں۔ اسے تو بس یہ جلدی ہوتی ہے کہ جلد بیٹھ کر فوراً پہنچ جائے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تاخیر کی صورت میں اسے مالک یا افسر کی ڈانٹ ڈپٹ اور طنز کے ساتھ ساتھ ملازمت سے برخاست کرنے کی دھمکی مل سکتی ہے بلکہ نکالا بھی جاسکتا ہے۔
اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اگر لوگوں کے اخلاقی رویے اور سماجی قدروں میں تبدیلی آتی ہے تو اس کا سبب یہ نہیں ہوتا ہے کہ وہ برے ہوجاتے ہیں انہوں نے اخلاق سے منہ موڑ لیا ہے او ر وہ اخلاقی طور پر اتنے گرگئے کہ گھر میں اپنے بوڑھے والدین کووقت نہیں دیتے اور گاڑی میں چڑھتے ہوئے دوسروں کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔
بلاشبہ یہ نہیں ہونا چاہئے کوئی بھی شخص اسے اچھی نگاہوں سے نہیں دیکھتا لیکن یہ فکر عموماً زندگی کے اس دور یا حصہ میں پیدا ہوتی ہے جب ہمارا جسم نحیف، بینائی کم اور ہاتھ پاؤں میں دم نہیں رہتا اور دھکم پیل میں ہم سے جوان اور طاقت ور آگے نکل کر سیٹ پر بیٹھ جاتے ہیں ہما رے صوبے میں ابھی صورت حال اس مقام تک نہیں پہنچی ہے چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ جب خاتون، بوڑھا یا کمزور بس میں چڑھنا چاہتا ہے تو لوگ راستہ دے دیتے ہیں اپنی سیٹ اس کے لئے چھوڑ کر خود کھڑے ہوکر سفر کرتے ہیں اسی طرح گھر اور حجرے میں بھی اپنے بزرگوں کا احترام کرتے ہیں البتہ کراچی، لاہور اور پنڈی کے بڑے شہروں میں جہاں زندگی کی رفتار نہایت تیز ہے اور ہر ایک کو وقت پر کام پر پہنچنا ہوتا ہے وہاں یہ سب کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔
اس مرتبہ میرے ہمراہ اہلیہ بھی تھی اور اسلام آباد کے پشاور موڑ پر سوزوکی کی راہ دیکھ رہے تھے ایک سوزوکی آئی تو ہمارے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی دو لڑکے بیٹھ گئے اگلی گاڑی آنے پربھی یہی ہوا تو تیسری گاڑی کے آتے ہی ایک اور شخص نے ہاتھ بڑھایا تومیں نے روک لیا دروازہ کھولا خود بیٹھا اور بیوی کو بٹھایاسنا ہے کہ بیرون ممالک میں ایسا نہیں ہوتاہے۔
آداب برے نہیں ہوتے ہیں مختلف زمانوں میں مختلف آداب اور اقدار پید ااور تبدیل ہوتے رہے کچھ تو بالا دست طبقات اپنے مفادات کے تحت پیدا کرتے رہے اور کچھ نے اجتماعی ضروریات کی کوکھ سے جنم لیا تھا ان سے جہاں معاشرے کو فائدہ ہوتا تھا وہاں ان کے نقصانات بھی تھے کیونکہ یہ سماج کو جوں کا توں رکھتے تھے اس کی ترقی میں رکاؤٹ ثابت ہوتے تھے لوگ ان سے دل لگائے رکھتے تھے جبکہ حالات کا تقاضہ کچھ اور ہوتا تھا اس کے علاوہ ان سے عام شہری کو مالی طور پر بھی نقصان پہنچتا رہتا تھا آج ہمارے سماج میں کئی آداب اور رسومات ہیں جو اس کی ترقی میں رخنہ بنے ہوئے ہیں لیکن لوگوں نے ان کو محض اس لئے قائم رکھا اور ان کو پورا کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان کی ادائیگی نہ کرنے پھر انہیں معاشرے اور خاندان میں ناک کے کٹ جانے کا خدشہ رہتا ہے۔
یہ آداب و اخلاقی قدریں نہ صرف عوام کے لئے باعث اذیت اور ان کی معاشی ترقی میں سد راہ ہیں بلکہ سماج کی آزادانہ ترقی میں بھی سنگ گراں ہوتے ہیں یہ عوام کے وقت اور پیسے کا بھی ضیاع ہیں یہ محنت کشوں میں تضادات اور جھگڑ ے پیدا کرتے ہیں اس لئے وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ عام شہری مشکل سے اپنے آپ میں تبدیلی لاتا ہے جبکہ بالادست طبقات اپنی ضروریات کو دیکھ کر اس کے ساتھ بدل جاتے ہیں دیہات میں امیر لوگ اپنے بچوں اور بچیوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرتے رہے مگر غریب اسے اپنی بے غیرتی سمجھتے رہے اسی طرح دولت مند خاندان کے افراد مختلف مواقع پر ملتے بلکہ ملنے کے مواقع پید ا کرنے کے لئے کبھی ٹی پارٹی تو کبھی کسی اور تقریب کا اہتمام کرتے ہیں ان میں لڑکیاں نوجوانوں اور نوجوان دوشیزاؤں سے میل ملاپ بڑھاتے ہیں مگر عام شہری کے نزدیک یہ تصور کرنا بھی معیوب ہے۔
ہمارے قبائلی علاقوں میں آج بھی پرانی اخلاقی قدریں اپنی پوری آب و تاب سے موجود ہیں البتہ جو لوگ کاروبار، ملازمت یا کسی اور وجہ سے بڑے شہروں کو منتقل ہوچکے ہیں وہ شہروں میں بھانت بھانت کے لوگوں کے درمیان رہ کر بدل رہے ہیں ان کا کاروبار اور ملازمت بھی ان کو پرانے آداب بدلنے کرنے پر مجبور کرتے ہیں اگر وہ پرانے آداب و اخلاق کو بدستور جاری رکھے ہوئے ہوں مگر ا ن کے شہروں میں پیدا ہونے والے بچے اپنے والدین کے نقش قدم پر نہیں چلتے ہیں وہ مختلف النوع سماجی و معاشی پس منظر رکھنے والے افراد کے درمیان رہنے کی وجہ سے اپنے آباو اجداد کے روایات، رواجات، رسوم اور اخلاقی اقدار پر عمل درآمد کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اخلاق و آداب کا تعلق معاشرے کے معاشی، سیاسی، جغرافیائی اور سماجی حالات سے بھی ہوتا ہے کسی علاقے کی اخلاقی قدروں کو طبقاتی مفادات سے الگ تھلگ کر کے دیکھنا صحیح نہیں ہوگا اس کے علاوہ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس کنبے یا سماج میں جتنے زیادہ آداب، رسومات اور رواجات ہوتے ہیں اس کی ترقی کے امکانات بھی اسی قدر کم ہوتے ہیں یہ قدریں جہاں انفرادی طور پر ایک خاندان کو بڑھنے نہیں دیتی ہیں تو وہاں اجتماعی لحاظ سے بھی علاقہ کی پسماندگی کا سبب بنی رہتی ہیں ۔
ہمیں ایسی قدروں کو ضرور جاری رکھنا چاہئے جن سے معاشرے اور عام شہری کو فائدہ پہنچتا ہو البتہ ان قدروں کو خیرباد کہنے میں کوئی قباعت نہیں جو عوام اور ملک کی ترقی میں رکاؤٹ بنتے ہوں۔
♠