ایمل خٹک
وفاقی حکومت کی جانب سے قبائلی علاقوں میں اصلاحات سے نئی سوالات سر اٹھا رہے ہیں اور اس کے فوائد اور نقصانات پر بحث شروع ہے۔ اس قسم کے دور رس سیاسی فیصلوں پر بحث و مباحثہ اور سیاسی حلقوں میں اختلاف نظر ایک قدرتی امر ہے۔ تمام تر کمی بیشی کے ساتھ موجودہ اصلاحات ایک اہم تاریخی پیش رفت ہے اور اصلاحات کے حوالے سے مختلف الخیال سیاسی جماعتوں میں لے دے جاری رہے گی ۔ مختلف جماعتوں کے آپس کے اختلافات اور رقابتیں ایک طرف مگر فاٹا میں اس اصلاحات کے عمل کو کسی فرد یا ریاستی ادارے سے منسوب کرنا یا ان کو کریڈٹ دینا میرے خیال میں انتہائی زیادتی کی بات ہوگی ۔
اصلاحات کو سیاسی ایجنڈے کا اہم نکتہ بنانے میں پشتون قوم پرست اور دیگر جمہوری جماعتوں اور بعض غیر سرکاری اداروں کا بڑا ہاتھ ہے ۔ اصلاحات کا ایشو اٹھانے اور اجاگر کرنے میں ان سیاسی جماعتوں اور اداروں کی برسوں کی محنت اور لگن شامل ہے۔ تاریخ کے کسی خاص مرحلے پر جب کسی سیاسی ایشو کو حل کئے بغیر بات آگے نہیں بڑ ھتی اور حکمرانوں کو اسے نظرانداز کرنا مشکل ہوجاتا ہے تو فیصلہ کرنا پڑتا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اس فیصلے کیلئے میدان یا سازگار حالات راتوں رات بنے بلکہ سیاسی فیصلوں کے پیچھے جدوجہد کی لمبی تاریخ ہوتی ہے ۔ اور اس فیصلے کے پیچھے جدوجہد کی بھی طویل تاریخ ہے ۔
قبائلی علاقو ں میں اصلاحات کا ایشو ایک دیرینہ مطالبہ تھا اور ماضی میں وقتا فوقتا یہ ایشو سر اٹھاتا رہا ہے۔ جب بھی اس ایشو نے سر اٹھایا ہے تو حکومت نے عموماً دو کام کئے ہیں ایک اصلاحاتی کمیشن کا قیام اور دوسرا اکثر حکومت قبائلی عوام کو کچھ نہ کچھ اختیار دینے پر مجبور ہوئی ہے چاہے وہ بےضرر اختیار یا اختیار کے نام پر لولی پاپ کیوں نہ ہو۔ فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے ایک بڑا فیصلہ 1996 میں قبائلی عوام کو میں بالغ رائے دہی کے بنیاد پر انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا فیصلہ تھا۔ جس کے تحت پہلی بار قبائلی عوام بشمول خواتین نے 1997 کے عام انتخابات میں اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔اس طرح ماضی میں فاٹا اصلاحات کے حوالے سے کئی کمیشن یا کمیٹیاں بنی اور رپورٹیں بنائی گئیں۔
صدر پرویز مشرف کے دور میں جب قومی تعمیر نو بیورو تشکیل پایا اور پورے ملک کیلئے اختیارات کی منتقلی کا پروگرام پیش کیا گیا اور 2000۔2001 میں مقامی حکومت کے انتخابات ہوئے تو اس وقت فاٹا میں بھی مقامی حکومت کو متعارف کرانے کیلئے عوامی دباؤ بڑا ۔ اس سلسلے میں ایک مسودہ قانون بھی تیار کیا گیا مگر اسٹبلشمنٹ کے دباؤ کے تحت اس کو پارلیمنٹ میں منظوری کیلئے پیش نہیں کیا گیا۔ مگر مقامی حکومت کے نظام کی بجائے فاٹا میں پولیٹیکل انتظامیہ کے زیر کنٹرول مشاورتی کونسلوں کا نظام متعارف کرایا گیا جس میں انتخابات کی بجائے نامزدگی کی گئی ۔
قبائلی علاقوں میں شورش کی وجہ سے اس ایشو کی اہمیت کافی بڑھی اور فاٹا میں اصلاحات کے حوالے سے اندرونی کے ساتھ ساتھ بیرونی دباؤ بھی بڑھا۔ ابتدا میں ایسٹبلشمنٹ نے اصلاحات کی مزاحمت کی کوشش کی اور روایتی ٹال مٹول سے کام لیا مگر فاٹا میں جاری سوشواکنامک حالات نے اسٹبلشمنٹ کو اصلاحات کے مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کیا۔ اس سلسلے میں قبائلی عوام کے اندر سیاسی بیداری اور اصلاحات کے مطالبے پر پیدا ہونے والی سیاسی اتفاق رائے نے اہم کردار ادا کیا۔ اصلاحات کے فیصلے کی کریڈٹ کسی ادارے یا فرد کو دینا قبائلی عوام کی انتھک جدوجہد اور بڑھتی ہوئی سیاسی بیداری کی توہین ہے ۔
ملک کی دس بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل مشترکہ کمیٹی برائے فاٹا اصلاحات کا 2010 میں قیام ایک بہت بڑی کامیابی تھی۔ اس کمیٹی جس میں پاکستان مسلم لیگ ( نواز) پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، عوامی نیشنل پارٹی ، پاکستان تحریک انصاف ، قومی وطن پارٹی، جمعیت علماء۔اسلام ( ف) ، متحدہ قومی موومنٹ ، مسلم لیگ ( ق) اور نیشنل پارٹی شامل تھی نے اکتوبر 2013 میں گیارہ نکاتی اصلاحات ایجنڈہ پیش کیا۔ اصلاحات کے حوالے سے قومی اتفاق رائے کے سلسلے میں ایک اور بڑی کامیابی دسمبر 2014 میں منظور شدہ بیس نکاتی قومی منصوبہ عمل بھی تھا جس کا بارہواں نکتہ فاٹا میں اصلاحات کے بارے میں تھا۔
اس طرح اس کمیٹی کے بعد قبائلی سیاسی راہنماوں پر مشتمل آل فاٹا پولیٹیکل الائینس بھی بنا۔ فاٹا پولیٹیکل الائنس نے اپنے مطالبات کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کو ہمنوا بنانے کیلئے سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے دورے بھی کئے اور مختلف سیاسی راہنماوں سے رابطے کیے آل فاٹا پولیٹیکل الائنس نے تقریباً تمام قبائلی علاقوں اور بندوبستی علاقوں میں اپنے مطالبات کے حق میں پرامن ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کیا ۔ الائینس نے سولہ نومبر 2015 کو ڈی چوک اسلام آباد میں اپنی طاقت کا بھرپور مظاہرہ کیا ۔
قبائلی علاقوں میں سیاسی بیداری کا نتیجہ تھا کہ پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں پہلی بار فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ نے نو ستمبر 2015 کو فاٹا میں اصلاحات کیلئے بائیسویں آئینی ترمیم پیش کی ۔ اس آئینی ترمیم میں جس کو اکثریتی فاٹا اراکین قومی اسمبلی حمایت حاصل تھی قبائلی علاقوں کی ضم ہونے کی بات کی گئی تھی۔ اندرونی اور بیرونی دباؤ کے پیش نظر وفاقی حکومت نے نومبر 2015 کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز کی سربراہی میں ایک اعلی سطحی فاٹا اصلاحات کمیٹی تشکیل دی اور اس کو اصلاحات تجویز کرنے کی ذمہ داری دی ۔
اس طرح چوبیس اگست 2016 کو فاٹا سے تعلق رکھنے والے اراکین پارلیمنٹ نے حکومت کی مقرر کردہ ریفارمز کمیٹی کے ساتھ میٹنگ کی جس میں کمیٹی نے اراکین پارلیمنٹ کے پانچ نکات کو مان لیا گیا۔ جس میں قبائلی علاقوں کی صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم ہونے کا نکتہ بھی شامل تھا۔
ایک طرف تو اصلاحات کی ضرورت اور اہمیت پر سیاسی اتفاق رائے موجود تھا مگر دوسری طرف فاٹا کی حیثیت کہ اس کو الگ صوبہ بنایا جائے یا اس کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے پر اختلافات موجود تھے ۔ مگر اکثریتی سیاسی جماعتیں اور قبائلی اراکین پارلیمنٹ ضم ہونے کے حق میں تھے۔ کمیٹی کی رپورٹ اور حکومت کی جانب سے رپورٹ کی روشنی میں اصلاحات کرنے کا عندیا سامنے آنے کے بعد فاٹا کی حیثیت کے بارے میں یعنی فاٹا کو الگ صوبہ بنایا جائے یا اس کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا جائے پر اختلافات کھل کر سامنے آگئے ۔
پارلیمانی سیاست پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی تجویز کردہ انتظامی ڈھانچے عمومی ملکی ڈھانچے کے اندر قبائلی علاقوں کی انتظامی حیثیت تبدیل کرنے کی بات کر رہے تھے۔ اختلاف صرف اس بات پر تھا کہ اصلاحات کے نتیجے میں قبائلی علاقوں کی حیثیت ایک الگ صوبے کی ہو یا اس کو پہلے سے موجود صوبے میں ضم کیا جائے ۔ فریقین کے دلائل اور موقف ایک طرف مگر دونوں صورتوں میں قبائلی علاقوں میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح پاکستان کے عمومی قوانین متعارف اور لاگو کرنے اور ریاستی اداروں کی عملداری بڑھنے کا امکان تھا ۔ پاکستان بننے کے بعد اور قبائلی علاقوں کو پاکستان میں شامل کرنے کے وقت قبائل اور حکومت کے درمیان کیا گیا معائدہ کب کا ٹوٹ چکا ہے ۔
اس ایشو کو ایشو بنانے ، اجاگر کرنے اور زندہ رکھنے کے پیچھے لمبی تاریخ ہے ۔ سب سے پہلے فاٹا کی اصلاحات اور حقوق کیلئے آواز اٹھانے والوں میں پشتون قوم پرست جماعتوں کا نام آتا ہے ۔ قوم پرست جماعتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں نے بے شمار پریس کانفرنسوں ، سیمینارز ، جرگوں ، اور ریلیوں کے زریعے اس ایشو کو اٹھایا ہے اور اس کو قومی مباحث اور قومی ایجنڈے پر لانے میں اہم رول رہا ہے۔
اس سلسلے میں قبائلی دانشوروں اور کارکنوں کی مختلف تنظیموں جیسے تحریک اتحاد قبائل ، فاٹا یونین آف جرنلسٹ ، فاٹا لائیرز فورم، امن تحریک ، پختونخوا اولسی تحریک وغیرہ کے علاوہ بعض غیر سرکاری تنظیموں جیسے شہید بھٹو فاونڈیشن ، انسانی حقوق کمیشن آف پاکستان ،ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ پاکستان ، عورت فاونڈیشن، سنگی ڈویلپمنٹ فاونڈیشن ، ادارہ استحکام شرکتی ترقی وغیرہ کا بھی اہم کردار رہا ہے ۔
اگر شہید بھٹو فاونڈیشن نے اصلاحات کے مسئلے پر مشترکہ ایجنڈا بنانے اور اس پر اتفاق رائے پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تو دیگر ملکی غیر سرکاری تنظیموں نے قبائلی کارکنوں کو اپنےمسائل کی نشاندہی ، اسے اجاگر کرنے اور عوام کو متحرک کرنے کیلئے ضروری استعداد کاری اور تربیت فراہم کی اور قبائلی کارکنوں کی حقوق کے بارے میں بالعموم اور اصلاحات کے حوالے سے بالخصوص آگاہی اور بیداری پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
یہ الگ سوال ہے کہ یہ اصلاحات سیاسی جماعتوں کی توقعات اور مطالبات کے عین مطابق ہے یا نہیں اور مجوزہ اصلاحات ان جماعتوں کی نظریاتی اور سیاسی فریم ورک کیساتھ کس حد تک مطابقت رکھتی ہے اور کس حد تک نہیں ۔ وہ یہ سیاسی جماعتیں جانے اور ان کے کارکن ویسے بھی سیاست میں ایک قدم آگے جانے کیلئے دو قدم پیچھے ہٹنا پڑتا ہے۔ مگر بحیثیت مجموعی اصلاحات سے قبائلی عوام کی زندگی نسبتا آسان ہوجائیگی اور اب ان کو بھی ملک کے دیگر شہریوں کے مساوی حقوق حاصل ہونگے۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ زیادتی اور بے انصافی کی صورت میں ان کو قانونی داد رسی کے بیشمار ذرائع اور اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے کے کئی فورم اور مواقع میسر آئینگے ۔
چونکہ اصلاحات کیلئے درکار انتظامی ڈھانچہ اور نئے انتظام کے تحت اختیارات کی منتقلی پیچیدہ اور وقت طلب کام ہے اس لئے پانچ سال کا عرصہ مقرر کیا گیا ہے۔ حقوق کی جنگ اصلاحات پر ختم نہیں ہوجاتی بلکہ یہ جنگ جاری رہے گی جب تک عوام مکمل با اختیار نہیں ہوجاتے۔ اب قبائلی عوام کے پاس اپنے حق کیلئے آواز اٹھانے اور لڑنے کیلئے نئے سیاسی پلیٹ فارم اور مواقع آگئے ہیں اور وہ حقوق کی جنگ کی نئی شروعات کر رہے ہیں ۔ یہ جنگ اس وقت تک چلتی رہے گی جب تک کہ عوام کو اپنی مرضی اور منشا کے مطابق اختیار اور اپنے وسائل پر کنٹرول حاصل نہیں ہوجاتا ۔
♥
One Comment