تجزیہ کاروں کے مطابق کیا پاکستان کی عدالت ممبئی حملوں کے الزام میں گرفتار لشکر طیبہ کے ارکان کی سماعت کرنے میں نہ صرف ناکام ہو چکی ہے بلکہ ملزمان کو ضمانت پر رہائی دی جاچکی ہے جبکہ ایک بھارتی عدالت نے ایک بم دھماکے سے متعلق فیصلہ سناتے ہوئے تین ہندو انتہاپسندوں کو مجرم قرار دے دیا ہے۔ اس فیصلے کو ایک جرات مندانہ فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں اس دھماکے کا الزام پاکستان پر عائد کیا گیا تھا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق کیا پاکستانی عدالتیں بھی اتنی بااختیار ہیں کہ وہ ریاست کے سٹرٹیجک اثاثوں کے خلاف کوئی پیش رفت کرسکیں گی کہ نہیں؟
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایسا کم ہی ہوا ہے کہ بھارت میں طاقتور سمجھے جانے والے دائیں بازو کے ہندو انتہاپسندوں کے خلاف کوئی فیصلہ سنایا گیا ہو۔ دیویندر گپتا اور بھاویش پاٹیل نامی دو ہندو انتہاپسندوں کو راجھستان کی ایک ایک خصوصی عدالت کی طرف سے مجرم قرار دیا گیا ہے۔
عدالت کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق یہ دونوں مجرمان سن 2007ء میں رمضان کے دوران اجمیر درگاہ پر ہونے والے بم حملے میں ملوث تھے۔ اجمیر کی درگاہ کو نہ صرف بھارت بلکہ پاکستان میں بھی عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس صوفی مزار پر نہ صرف مسلمان بلکہ ہندو بھی حاضری دیتے ہیں۔
جس تیسرے شخص کو مجرم قرار دیا گیا ہے، اسے اس حملے کے چند ماہ بعد ہی گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا لیکن اسے بعداز مرگ مجرم قرار دیا گیا ہے۔ اجمیر کی درگاہ کے اندر ہونے والے بم حملے میں تین افراد ہلاک جبکہ پندرہ زخمی ہو گئے تھے۔
وکیل دفاع جگدیش رانا کا جے پور عدالت کے باہر نامہ نگاروں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ مجرمان کو سزائیں سولہ مارچ کے روز سنائی جائیں گی۔
بتایا گیا ہے کہ یہ دہشت گردانہ حملہ کرنے والوں کے اس گروپ کا مبینہ سربراہ نبا کمار سرکار نامی ایک ہندو تھا لیکن اسے اور اس کے سات دیگر ساتھیوں کو ثبوتوں کی عدم موجودگی کی وجہ سے اس مقدمے میں بری کر دیا گیا ہے۔ سرکار ، جسے عرف عام میں سوامی اسیمانند کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے، ابھی جیل میں ہی رہے گا کیوں کہ وہ دو دیگر حملوں کے زیر التوا مقدموں میں بھی نامزد ہے۔
سوامی اسیمانند تفتیش کاروں کو ایک ایسا اعترافی بیان بھی دے چکا ہے، جس کے مطابق اس کا گروپ مسلمانوں کے خلاف متعدد حملے کر چکا ہے۔ بعد ازاں سوامی اسیمانند اپنے اعترافی بیان سے مکر گیا تھا لیکن اس کے باوجود پولیس اس گروپ کے دیگر افراد تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔ اس گروپ میں ایک حاضر سروس بھارتی فوج کا افسر اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سابق ارکان شامل تھے۔
بھارت میں دائیں بازو کے انتہا پسند اس گروہ کا اثرو رسوخ بہت زیادہ ہے اور اسے وزیر اعظم نریندر مودی کی حکمران قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا نظریاتی سرچشمہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔
اس عدالتی فیصلے کو ایک تاریخی فیصلہ قرار دیا جا رہا ہے کیوں کہ ایسے کسی بھی کیس میں پہلی مرتبہ ہندو عسکریت پسندوں کا مقدمہ کامیاب طریقے سے اپنے اختتام کو پہنچا ہے۔
DW
One Comment