آصف جیلانی
بلا شبہ ، داعش اس وقت عراق میں چومکھی حملہ سے دوچار ہے۔ عراق میں داعش کا گڑھ ، موصل پچھلے کئی مہینوں سے عراقی فوج، شیعہ ملیشیا اور کرد پیش مرگہ کے مشترکہ حملہ کاسامنا کر رہا ہے ۔ موصل میں دریائے دجلہ کے مشرقی کنارے کے علاقہ پر عراقی فوج نے امریکی فضایہ کی مدد سے قبضہ کر لیا ہے اور داعش کی سپاہ کو پسپا کر دیا ہے۔ دجلہ کے مغربی کنارے پر موصل کے ہوائی اڈہ پر بھی عراقی فوج نے قبضہ کر لیا ہے اور ادھر شام میں بھی ایک سمت سے عراقی فوج اور دوسری جانب سے ترکی کی فوج نے امریکی فوجی کمک کی مدد سے داعش کے گڑھ ، رقعہ پر قبضہ کرنے کے لئے کاروائی شروع کر دی ہے۔
شام میں داعش کے اہم گڑھ ، الباب پر امریکا کی مدد سے ترکی کی فوج اورآزاد شام کی فوج نے قبضہ کر لیا ہے۔ اکتوبر سے اب تک عراق میں داعش کے ہاتھ سے ، ۵۰ فی صد علاقہ نکل چکا ہے اور شام میں ۳۰ فی صد علاقہ سے داعش محروم ہو گئی ہے۔ موصل اور رقعہ میں تیل کی بیشتر تنصیبات ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے داعش کو سنگین مالی بحران کا بھی سامنا ہے، جس کے نتیجہ میں ، داعش کی سپاہ کی تنخواہ میں ۵۰ فی صد تخفیف کرنی پڑی ہے۔ اس دوران داعش کے نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی پر اسرار طور پر غائب ہو گئے ہیں۔ اب تک وہ موصل میں اپنے مرکز سے داعش کی سپاہ کی قیادت کررہے تھے ، لیکن اب ان کا نہ تو موصل میں اور نہ شام میں رقعہ میں کوئی پتہ ہے۔ یہ افواہ تیزی سے گردش کر رہی ہے کہ البغدادی اسرائیل کے مقبوضہ جولان کے پہاڑی علاقہ میں چھپے ہوئے ہیں۔
عراق اور شام سے داعش کی پسپائی کے بعد اب اس کی دہشت گردی کی آگ تیزی سے افغانستان اور پاکستان کی جانب لپک رہی ہے۔ دو سال قبل داعش نے افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں قدم جما لئے تھے اور کابل میں بھی اپنے حملوں کا سلسلہ جاری رکھا تھا۔ فوجی ماہرین کا کہنا ہے کہ گذشتہ سال اپریل سے ننگر ہار پر امریکی فضایہ کے تابڑ توڑ حملوں سے داعش کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔ ان حملوں میں افغانستان میں داعش کارہنما ، حافظ سعید خان بھی ہلاک ہو گیا ہے ، لیکن افغانستان میں داعش کے ایک اہم کمانڈر ، ابو عمر خوراسانی کا دعوی ہے کہ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے بر سر اقتدار آنے کے بعد داعش کو اپنی سرگرمیوں میں کافی مدد ملی ہے، خاص طور پر ٹرمپ کی مسلم دشمن اقدامات کی بناء پر۔خراسانی کا کہنا ہے کہ جب سے پاکستان سے افغانوں کو نکالے جانے کا سلسلہ شروع ہوا ہے، ان افغانوں کی داعش کی سپاہ میں بھرتی کا عمل تیز تر ہوگیا ہے ۔ داعش کی سپاہ میں بھرتی ہونے والے نوجوانوں کو اب 322 پونڈ ماہانہ کے حساب سے تنخواہ دی جارہی ہے۔
فوجی مبصرین کی رائے ہے کہ افغانستان میں ننگر ہار اور داعش کے دوسرے علاقوں میں امریکی فضائی حملوں اور پاکستان سے نکالے گئے افغانوں کی داعش کی سپاہ میں بھرتی میں اضافہ کی وجہ سے اب داعش کی آگ کا رخ پاکستان کی جانب ہے۔ پچھلے کئی مہینوں سے پشاور، کراچی اور فاٹا میں دیواروں پر داعش کی حمایت میں نعرے نظر آنے شروع ہوئے تھے اور داعش نے دعوی کیا تھا کہ ہنگو سے لے کر کرم ایجنسی تک اس نے بارہ ہزار حامیوں کو منظم کیا ہے، لیکن حکومت پاکستان نے نہ جانے کیوں اس نئے خطرہ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔اس وقت بھی حکومت نہیں جاگی جب شکار پور میں ایک شیعہ مسجد پر حملہ ہوا جس میں ۶۰ نمازی شہید ہوئے ۔ حملہ کا دعوی جند اللہ نے کیا تھا جس کا داعش سے گہرا تعلق ہے۔ جند اللہ کے ترجمان فہد مروت یہ اعلان کر چکے ہیں کہ جند اللہ نے خلیفہ ابو بکر بغدادی سے وفاداری کا پیمان کیا ہے۔
شکار پور کے حملہ کے دور روز بعدوزیر داخلہ چوہدری نثار کا اصرار تھا کہ داعش کا پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ انہیں اس بات کا علم نہیںیا وہ عمدا اس بات کا اعتراف نہیں کرنا چاہتے کہ داعش نے پاکستان میں2004سے اپنا مرکز، ولایت خوراسان کے نام سے قائم کیا ہے اور ان تنظیموں نے جو2001 سے ، القاعدہ اور طلبان کے زیر سایہ سرگرم رہی ہیں ، داعش کے نام نہاد خلیفہ ابو بکر البغدادی سے بیعت کی ہے ،ان میں حرکت جہاد اسلامی، حرکت المجاہدین، لشکر جھنگوی، جیش محمد، اور لشکر طیبہ شامل ہیں۔ گوانتامو بے کے عقوبت خانہ کے سابق قیدی ، عبد الرحیم مسلم دوست کو پاکستان، افغانستان اور وسط ایشیا ء کی خوراسان ولایت کا امیر مقرر کیا گیا تھا، جس کی جگہ، ننگر ہار کے حافظ سعید خان اورک زئی کو امیر مقرر کیا گیا تھا، جوجولائی 2106میں امریکی فضائی حملہ میں ماراگیا تھا ، ابھی تک حافظ سعید کا جانشین مقرر نہیں کیا گیا ہے۔
۱۵ جون ۲۰۱۴ کو قبائیلی علاقوں میں دھشت گردوں کو قلع قمع کرنے اور ان کی کمین گاہوں کو تباہ کرنے کے لئے فوج نے ضرب عضب کا ہمہ گیر آپریشن شروع کیا تھا جو بڑی حد تک کامیاب رہا۔ اس آپریشن کے دوران3400 دہشت گرد ہلاک کیے گئے اور دہشت گردوں کی837کمین گاہیں تباہ کی گئیں ۔ لیکن ضرب عضب کے ساتھ ساتھ دشت گرد حملوں کا سلسلہ جاری رہا۔ جن میں سب سے بڑا ہولناک حملہ16 دسمبر2014 کو پشاور میں آرمی پبلک اسکول میں ہوا، جس میں132طلباء سمیت 145افراد شہید ہوئے تھے ۔
بہت سے لوگوں نے اس حملہ کے سلسلہ میں مطالبہ کیا کہ اس بارے میں عدالتی کمیشن مقرر کیا جائے کہ چھاؤنی میں اس اسکول کے صحیح معنوں میں حفاظتی اقدامات کیوں نہیں کئے گئے جب کہ قبائلی علاقوں میں ضرب عضب کی کاروائیاں جاری تھیں اوردہشت گردوں کی طرف سے جوابی کاروائی کا شدید خطرہ تھا۔ لیکن اس مطالبہ کی ان سنی کردی گئی ۔ غالباً فوج عدالتی تحقیقات کے حق میں نہیں تھی۔
بہرحال۲۴ دسمبر کو تمام سیاسی جماعتوں کے اجلاس میں دہشت گردی پر قابو پانے کے لئے ۲۰ نکاتی ، نیشنل ایکشن پلان منظور ہوا تھا ۔ یہ ایک ہمہ گیر پلان تو تھا ، لیکن اس پلان پر اس جذبہ کے ساتھ عمل نہیں کیا گیا جس کے تحت یہ تیار کیا گیا تھا۔ نتیجہ یہ کہ اس پلان کی منظور ی کے بعد 2015میں 17حملے ہوئے ، جن میں297 افراد شہید ہوئے۔ 2016میں 20 حملے ہوئے جن میں شہید ہونے والوں کی تعداد 336،تھی اور اس سال گو3 بڑے حملے ہوئے لیکن شہیدوں کی تعداد147تک جاپہنچی۔
ضرب عضب اور نیشنل ایکشن پلان کے نتیجے میں امید تھی کہ ملک کو دہشت گردی کے عذاب سے چھٹکارہ مل جائے گا لیکن پاکستان پر داعش کے سائے گہرے ہونے کی وجہ سے یہ امید بر نہیں آئی بلکہ دہشت گردی کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔
♠
One Comment