ماضی میں زرتشتوں کی مقدس سر زمین آذر بائجان میں ایک بار عید الاضحیٰ کا دن گزارنے کا موقع ملا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہاں نہ کوئی بکرا منڈی سجی تھی، نہ گھروں کے صحن سے قربانی کے بکروں کی منمنانے کی آوازیں آرہی تھیں ، نہ قربانی کی کھالوں کے بدلے بعد ازمرگ ثواب کے گونا گوں پیکجز پیش کرنے والوں کے مابین رسہ کشی ، نہ ہی شہر کی سڑکوں پر پھیلی قربانی کے جانورں کی آلائشیں نظر آئیں اور نہ کوئی بدبو ۔
ہمارے ہاں تو قربانی کا نام سنتے ہی یہ سب ہمارے ذہنوں میں آجاتا ہے اس لئے ہم نے اپنے میزبا نوں سے پوچھا کہ یہاں کےلوگ قربانی کیسے کرتے ہیں تو کہا گیا کہ جس کسی کو قربانی کرنا ہوتا ہے وہ اپنے جانور کو مسجد میں لے کر جاتا ہے جہاں ایک مذبح خانہ اس مقصد کے لئے موجود ہے۔ جانور کو ذبح کرنے کے بعد قربانی کرنے والا گوشت کا اپنا حصہ لے کر جاتا ہے ۔باقی ماندہ ضرورتمند غربا ءاور فقرا ء لے جاتے ہیں۔ میں نے تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر پوچھا کہ وہ اجتماعی خوشیاں پھر کب کیسے مناتے ہیں تو جواب ملا کہ وہ صرف عید کی ہی خوشی مناتے ہیں۔ میری حیرت ساتویں آسمان کو چھو رہی تھی کہ عید الاضحیٰ پر تو کسی نے عید کی مبارکباد تک نہیں دی تھی ، نہ کسی نے نئے کپڑے پہنے تھے اور نہ ہی قربانی کی تھی تو کیا عید سے مراد عید الفطر سے ہے؟ جب استفسار کیا تو بتایا کہ وہاں عید صرف ایک ہی ہوتی ہے اور وہ نوروز کی عید ہے۔
آخر میں پتہ یہ چلا کہ عید الاضحیٰ اور عید الفطر تو ان کے نزدیک ایک مذہبی فریضہ جس کے منانے سے ثواب ملتا ہے مگر نوروز ایک جشن ہے جس کو مناکر وہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔
نوروز کا تہواراہل فارس کے شاندار ماضی سے جڑا ہے اس لئے پورے وسطی ایشیا ء کا مشترکہ ورثہ ہے۔ دنیا بھر میں پارسی برادری کے لوگ اس کو نوروز جمشیدکے طور پر مناکر سلطنت فارس کے ماضی کے افسانوی بادشاہ آذر جمشیدسے منسوب کرتے ہیں۔ یہ ایرانیوں کا قومی تہوار بھی ہے ، وسطی ایشیائی ریاستوں کے علاوہ افغانستان میں بھی نوروز کو جشن گل سرخ کے طور پر منا کر بہار کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ ہمارے پشتون بالخصوص وزیرستان کے قبائل دہ گلونہ نندارہ مناکر کاشتکاری کے نئے سال کا آغاز کرتے ہیں۔
مجھے تو حیرت ہوئی جب میں نے سنا کہ شمالی ہندوستان کے ہندو پنڈت بھی نوروز کا جشن” نورش “کے نام پر مناتے ہیں۔ محقق اور وسطی ایشیا ئی تاریخ اور ثقافت کے ماہر سدھارتھ گارو جو خود بھی پنڈت ہیں نورش کو جنوبی ہندوستان کے دیگر ہندو مذہب کے پیروکاروں کا نہیں صرف پنڈتوں تک محدود ایک تہوار قرار دیتے ہیں۔
وسطی ایشیا ء اور ایران میں نوروز کا جشن دو ہفتے تک منایا جاتا ہے۔ نوروز کے دن خاص پکوان پکتے ہیں جس میں سات”ش یا س” سے شروع ہونے والی ایشیا ء لازمی ہوتی ہیں مثلاً شیر(دودھ)، شہد، شیرنی، شراب ، سیب، سرکہ اور سبزہ شامل ہوتے ہیں۔ نوروز کے دن سے شروع ہونے والی تقریبات میں ایک دوسرے کے ہاں آنا جانا اور رشتے داروں خصوصاً اپنی بہنوں اور بیٹیوں سے ملنا اور ان کو تحائف دینا انتہا ئی لازمی ہوتا ہے۔ سات کے عدد کو متبرک سمجھنے والے اہل فارس تیرہ کے عدد کو چونکہ منحوس سمجھتے ہیں اس لئے نوروز کے تیرویں دن گھر میں کوئی نہیں رہتا سب باہر دن گزارتے ہیں اور یوں سات بدی اور سات اچھائی کی طاقتوں پر یقین رکھنے والے دو ہفتوں تک سات قسم کے کھانوں سے لطف اندوز ہوکر پھر سے زندگی کے معمول کے ہل میں پورے سال کے لئے جوت جاتے ہیں۔
پہاڑی علاقوں میں لوگ سردیوں کا پورا موسم اپنے گھروں میں محدود رہ کر بہار کی آمد کا انتظار کرتے ہیں تاکہ وہ باہر نکل کر کھیتی باڑی کرسکیں اور بند گھروں کے اندر سردیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جلائی جانے والی آگ کےدھویں سے ان کی جان چھٹے۔ ان علاقوں میں پائی جانے والی سخت سردی کا خاتمہ اور کھیتی باڑی کے موسم کی آمد لوگوں کے لئے شکر ادا کرنے کا موقع بھی ہوتا ہے جس کو نئے سال کے جشن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو جنوبی اور شمالی ہندوستان کے بھی اپنے ایسے تہوار ہیں جو کاشتکاری کے نئے سال کی آمد پر منائے جاتے ہیں ۔ بسنت اور بیساکھی بھی در حقیقت موسمی تہوار ہیں جو ہمارے ہاں بھی بہار کی آمد اور فصل کی کاشت کے جشن تھے مگر اب وہ تاویلات کی موت مار کر شجر ممنوع قرار دیے جا چکے ہیں۔
پاکستان کے شمال گلگت بلتستان اور چترال میں بھی نوروز کا تہوار بڑذوق و شوق سے منایا جاتا ہے۔ نوروز کو عورتوں کا تہوار بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اس دن پورے گاؤں کی عورتیں ایک مرکزی مقام پر اکھٹی ہو جایا کرتی ہیں۔ اس دن اس سال کے دوران پیدا ہونے والے تمام بچوں کی ڈا ڈا (پچوں کو پیٹ پر اٹھانے ) اور بال کاٹنے کی رسم ادا کی جاتی ہے۔ اس دن عورتیں اپنے خاندان کی دیگر عورتوں اور سہیلیوں کے ساتھ مل کر گاتی اور رقص کرتی ہیں۔ جب چھوٹے تھے تو ہمیں بھی نوروز کی زنانی محفل میں جانے کی اجازت تھی اور جب عمر بڑھ گئی تو ہمیں بھگا دیا جانے لگا ۔
لوگوں نے جشن نوروز کو مذہبی تہوار بناکر خصوصاً شیعوں کے مختلف فرقوں کیساتھ جوڑ کر اس موسمی تہوار کے ساتھ زیادتی کی ہے۔ اس تہوار کا آغاز اسلام سے قبل کا ہے اور جہاں جہاں یہ منایا جاتا ہے وہاں کے سبھی لوگ اہلیان تشیع کے کسی فرقے سے تعلق بھی نہیں رکھتے ہیں۔ ایران میں جب شاہ کے خلاف انقلاب مذہبی قوتوں کے ہاتھ لگ گیا توجشن نوروز پرپابندی لگانے کی بھی کوشش کی گئی مگر لوگوں کی مزاحمت کے سامنے مذہبی ایرانی حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور صدیوں پرانی اس رسم کو جاری رکھنا پڑا۔ اب ایران میں عوامی سطح پر رقص و موسیقی پر پابندی اور کھانے پینےمیں شامل ایشیا ءمیں ایک “ش “کی کمی کیساتھ یہ تہوارجاری و ساری ہے۔
دنیا بھر میں تہوارو ں کا تعلق بود و باش سے ہے نہ کہ مذاہب سے۔ اگر مذاہب نے رسومات اور عبادات کو تہواربنا بھی دیے ہیں تو اس کی وجہ معبد اور پیشواؤں کی آمدنی ہے جو معتقدین کی جیب سے نکلتی ہے ۔ انسانوں نے مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا سامان بھی ان ہی تہواروں میں کیا ہوا ہے۔ آج بھی دنیا میں نئے نئےتہوار وجود میں آرہے ہیں جو آج زرعی کے بجائے صنعتی پیداوار کی خرید و فروخت اور اس میں جدت کو پروان چڑھانے میں معاون ہوتے ہیں۔
یہ جو صنعتی نمائشیں اور تجارتی میلے منعقد کئے جاتے ہیں یہ سب آج کے تہوار ہیں جو کل روایت بن جائیں گے۔ اسی طرح بیساکھی، بسنت اور نوروز بھی منائے جاتے تھےجن کا کسی مذہب یا عقیدے سے نہیں بلکہ انسانی بود و باش اور ذرائع آمدن سے تعلق تھا۔ اگر کسی تہوار کی ابتدا کہیں سے ہوئی ہےجہاں ہمارے عقیدے کے لوگ نہیں تھے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تہوار بھی کافر ہوا یا اس تہوار کے منانے والے کسی اور فرقے یا نسل سے ہوں تو وہ ہمارے لئے شجر ممنوع ہوا۔
چونکہ نوروز کا تہوار بھی زرتشتوں کے ایران سے شروع ہوا اور آج ہمارے ہاں صرف شیعہ اثنا ء عشری ، اسمعٰیلی اور پارسی اس تہوار کومناتے ہیں تواس کو دوسروں کے لئے کفر گردانا گیا ہے جو اس خوبصورت علاقائی اور موسمی تہوار کے ساتھ ناانصافی ہے۔ اگر ہم کل تک گل سرخ مناتے تھے تو آج کیوں نہیں؟ اگر کل تک دہ گلو نندارہ منایا جاتا تھا آج کیا قباحت ہے؟ تہوار وہ واحد ذریعہ ہیں جس سے ہم اپنی انفرادی خوشیوں میں دوسروں کو شریک کرکے اجتماعی خوشیاں بنا لیتے ہیں۔ اگر ہم نے انسانوں کیساتھ تہواروں کو بھی کافر قرار دینا نہ چھوڑا تو ہو سکتا ہے کہ ساری دنیا ہی کافر ہوجائے جس میں ہم سب بھی رہتے ہیں۔
دنیا کی ہر قوم کا کیلنڈر بدلنے اور نئے سال کے آغاز کرنے کے اپنے اپنے انداز اور وقت مقرر ہیں۔ نئے سال کی تقریبات منعقد کی جاتی ہیں اور گزرے سال کے دوران اپنی کارکردگی کا جائزہ لیا جاتا ہے تاکہ غلطیوں کو دہرانے کے بجائے ان سے سیکھا جاسکے۔ ہم یکم جنوری کو نئے سال کی خوشیاں اس لئے نہیں منا پاتے ہیں کہ یہ عیسوی کیلنڈر کا سال ہے جو بطور مسلمان ہم پر حرام ہوجاتا ہے۔ یکم محرم کو اس لئے خوشیاں نہیں منا تے ہیں کہ اس مہینے میں اسلامی تاریخ کا سب سے اندوہناک واقعہ پیش آیا تھا۔ بسنت اور بیساکھی کے ساتھ بھی ہم نے مذہب کو جوڑ کر نہ صرف رد کردیا ہے بلکہ پنجاب میں تو بسنت منانا قابل تعزیر جرم بن چکا ہے۔ اگر کچھ لوگ اپنی ماضی کے ساتھ وابستہ رہ کر نوروز کے تہوار کو منانا چاہتے ہیں تو اس میں کیا قباحت ہے؟ ہم نوروز کو کفر قرار دیکر حرام کیوں قرار دینا چاہتے ہیں ؟
♠
One Comment