ظفر آغا
مسلم تباہی اور سیاسی زوال کا ایک لامتناہی سلسلہ ہے جس کا ذکر راقم الحروف پچھلے کالموں میں کرتا رہا ہے۔ اس زوال کے تاریخی اسباب پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ کس طرح یوروپ سائینسی علوم سے مالا مال ہوکر ایک جدید صنعتی تہذیب کو گلے لگاکر مسلمانوں سے آگے نکل گیا اور مسلمان ہاتھ ملتے رہ گئے۔ جس کے نتیجہ میں کبھی نواب سراج الدولہ تو کبھی نواب واجد علی شاہ تو کبھی ٹیپو سلطان تو کبھی بہادر شاہ ظفر اپنے تخت و تاج سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
پھر موجودہ دور میں ہندوستانی مسلمانوں کو کبھی شہادت بابری مسجد اور کبھی گجرات جیسے تاریخی المیہ سے دوچار ہونا پڑا۔ اب یہ حال ہے کہ ہندوستان میں چہارسو ہندوتوا کا ڈنکا بج رہا ہے جس نے مسلمانوں کے اوسان خطا کردیئے ہیں لیکن کیا 1759 میں لارڈ کلائیو کے ہاتھوں اپنی پہلی شکست سے لیکر حالیہ اتر پردیش کی شکست تک کبھی ہندوستانی مسلمانوں نے اپنے اسباب زوال پر روشنی نہیں ڈالی، مسلمانوں نے کبھی کیا یہ سوچا کہ آخر اس تباہی و بربادی کی کیا وجوہات ہیں اور اس پریشانی سے باہر نکلنے کا کیا راستہ ہوسکتا ہے۔
سنہ1857 میں مغلوں کے زوال سے لیکر برصغیر ہند کے بٹوارے تک یعنی 1947 تک مسلمانوں میں چار اہم تحریکیں شروع ہوئیں اور چند اہم افراد گذرے ہیں جن کا مقصد مسلمانوں کی تباہی کے اسباب اور پھر مسلم ترقی کیلئے نئی راہیں تلاش کرنا تھا۔ دو انتہائی اہم تحریکیں1857 کی شکست کے بعد یعنی 1860 کی دہائی میں شروع ہوئیں جن کے اثرات ہندوستانی مسلمانوں پر اب تک برقرار ہیں۔
ایک تحریک تھی دیوبند تحریک جس کا لب لباب وہی تھا جو اسوقت زیادہ تر مسلم ممالک میں سر اٹھارہی تھیں۔ اس تحریک کے دو بنیادی پہلو تھے اولاً مسلمان اصل اسلام یا بنیادی اسلام سے پھر گیا ہے اور دوم یہ کہ بنیادی اسلام کی طرف جانے میں ہی اس کی نجات ہے۔ اگر بقاء چاہتے ہو تو واپس مدرسوں میں چلو اور بنیادی اسلام کی روح سے خود کو روح پرور کرلو اور صلیبی یوروپ کو شکست دو۔
چونکہ مسلمانوں کی شکست یوروپ کے ہاتھوں ہوئی تھی جس کو وہ پہلے سے ہی ایسا تاریخی صلیبی جنگوں والا حریف مانتا تھا اس لئے اس نے اپنے دشمن کی ہر شئے کو رد کردیا۔ ظاہر ہے کہ اسی سبب 18ویں صدی کے اواخر اور پھر انیسویں و بیسویں صدی تک اکثر مدارس سے سائینسی ترقی اور انگریزی تعلیم، نئی ایجادات اور ان کے ساتھ ساتھ جمہوری سیاست اور صنعتی معیشت کے خلاف آئے دن نت نئے فتوے جاری ہوتے رہے۔ یعنی صلیبی یوروپ ہمارا دشمن چنانچہ اس کی ہر شئے ہماری دشمن۔
اس لئے وہاں سے اٹھنے والی ہر شئے حرام خواہ وہ ان کی صنعتی تہذیب ہو یا پھر اس کے جدید علوم ۔ یہ فکر گھر کرگئی۔ یہ تو تھا ایک فکری پہلو اس تحریک کا دوسرا اثر یہ ہوا کہ مسلم دور عروج کی خاصی حد تک سیکولر سیاست پر آہستہ آہستہ علماء کرام اور مدارس کا دبدبہ ہوتا چلا گیا جو ہندوستان جیسے ملک میں آج بھی موجود ہے۔
یہ تو تھی دیوبند تحریک جو بنیادی اسلام میں مسلمانوں کی فلاح تلاش کررہی تھی جس کے گہرے اثرات پورے برصغیر ہند پر آج بھی موجود ہیں۔
اس کے بالکل برعکس اس دور میں یعنی 1860 کی دہائی میں سرسید احمد خان کی تحریک بھی جنم لے رہی تھی۔ فکری اعتبار سے سرسید تحریک دیوبند تحریک سے قطعاً متضاد تھی۔ سرسید ہندوستانی مسلمانوں میں وہ پہلی شخصیت تھے جنہوں نے یوروپ کی سائنسی اور تہذیبی ترقی کو بھانپ لیا تھا اور وہ یہ بھی سمجھ گئے تھے کہ اگر مسلمان نئی صنعتی تہذیب کو سمجھیں گے نہیں اور اپنائیں گے نہیں تو وہ آئے دن نہ جانے کتنے1857 جیسے مسائل کا سامنا کرتے رہیں گے۔
تب ہی تو سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے قبل ایک سائنس سوسائٹی قائم کی جہاں سے باقاعدہ اردو زبان میں سرسید احمد خاں ایک جنرل نکالتے رہے جس کا مقصد مسلمانوں میں سائینسی شعور اور سائنس کی قبولیت پیدا کرنا تھا۔ لیکن ان کو جلد ہی سمجھ میں آگیا کہ انگریزوں کی ترقی کا راز ان کے علوم ہیں جو انگریزی زبان میں ہی حاصل ہوسکتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے انگریزی تعلیم پر مبنی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسا ادارہ قائم کیا جس نے پہلی بار مسلمانوں میں جدید علوم کا رواج پیدا کیا۔
سرسید تحریک ایک جامع فکری نظریہ تھا جس میں مسلمانوں میں سائنسی شعور بیدار کرنا اور مسلمانوں میں جدید علوم و فنون کے ساتھ ساتھ انہیں صنعتی تہذیب سے پیدا شدہ حالات کو سمجھنے کے لائق بنانا تھا اور مسلمانوں میں رائج زمیندارانہ قدروں کے منفی اثرات کو ختم کرنا تھا۔ مسلمانوں پر بیسویں صدی کے دو تین دہائی تک سرسید تحریک کے گہرے اثرات رہے، لیکن آہستہ آہستہ مسلمانوں نے اس کو محض حصول تعلیم تصور کرکے مسلم معاشرہ میں کسی قسم کی تہذیبی تبدیلی کو رد کردیا ۔
چنانچہ مسلمانوں کا ایک گروہ پڑھ تو گیا مگر اس نے اپنے صلیبی دشمن یوروپ کی صنعتی تہذیبی قدروں کو رد کردیا۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ زیادہ تر مسلمان آج بھی جمہوریت کے فائدے حاصل کرنے سے محروم ہے اور اس کے یہاں جدید بینک جیسے اداروں کے خلاف آج بھی فتوے جاری ہیں۔ خواہ ہر مدرسہ کا ایک بینک اکاؤنٹ موجود ہو،اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج بھی مسلمان کبھی اوسامہ بن لادن اور کبھی ابوبکر البغدادی کی شکل میں اپنے صلیبی دشمن یوروپ کے خلاف ایک تہذیبی جنگ کا شکار تو ہوتا ہے۔ اس کا نتیجہ وہی ہوتا ہے جو 1856 و 1857 یا پھر حالیہ دور میں ہوتا رہا ہے۔
دیوبند اور سرسید تحریک کے علاوہ جنگ آزادی کے عروج پر دواہم شخصیات یعنی محمد علی جناح اور مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی اپنی تحریکوں کے ذریعہ مسلمانوں پر گہرے اثرات ڈالے۔ جناح کی سیاست مسلم حقوق کے لئے ہندو۔ مسلم بٹوارے پر مبنی تھی جس کا نتیجہ برصغیر ہند کا بٹوارہ اور پاکستان کا قیام تھا۔
اس کے نتائج جیسا کہ میں عرض کرچکاہوں، پاکستان میں امریکی غلامی اور ہندوستان میں اکثریت کی غلامی کی شکل میں سامنے موجود ہے۔ مولانا آزاد نے اس سیاست کے خلاف آواز اٹھائی اور مسلمانوں کو ہندو مسلم اتحادکا راستہ بتایا اور اس کے ساتھ ساتھ مولانا نے جمہوری نظام میں مسلم حقوق کے تحفظ کیلئے سایمن کمیشن سے مسلمانوں کے لئے خاص مراعات حاصل کرنے پر زور دیا، لیکن جناح اور مسلمان دونوں نے مولانا آزاد کی آواز پر کان نہیں دھرا۔
اس کا نتیجہ یہ ہے کہ بٹوارے کی سیاست کی صلیب اٹھائے ہندوستانی مسلمان اپنے ملک میں اب دیہات دیہات میں ہندوؤں کا دشمن بنتا جارہا ہے اور ہندوتوا سیاست اپنی بخوبی مارکٹنگ کررہی ہے۔ ان حالات میں اب کیا ہوسکتا ہے ،بہت کم راستے بچے ہیں لیکن سرسید تحریک اور مولانا آزاد کے نظریات کی روشنی میں ایک نئی تحریک درکار ہے جو مسلمانوں کو صنعتی تہذیب اور اس کی قدروں سے ہم آہنگ کرواسکے۔
♦