خالد تھتھال
ایک اندازے کے مطابق دنیا میں اس وقت مسلمانوں کی آبادی ڈیڑھ ارب ہے، یعنی اس کرہ ارض پر ہر چوتھا انسان مسلمان ہےاوریوں اس وقت اسلام دنیا کو دوسرا بڑا مذہب ہے، اور جس رفتار سے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، وہ دن دور نہیں کہ اسلام اس دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا۔
اسلام کے اس پھیلاؤ سے انفرادی یا اجتماعی طور پر مسلمانوں کی زندگی پر کس قدر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اس کی تفصیل کبھی پتہ نہیں چل سکی لیکن پھر بھی یہ خوش کن دعویٰ ہماری مذہبی نرگسیت کی آبیاری میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے، اور اسی لئے جب ہم اسلام کے پھیلاؤ کے متعلق یہ دعویٰ کرتے ہیں تو اسلام کے ہر اس فرقہ کو بھی اس میں شامل کرلیتے ہیں، جو ریاست یا کسی دوسرے فرقے کے نزدیک کافر ہیں۔
اسلام کے مخالفین اور سابقہ مسلمانوں کے نزدیک اس ”پھیلاؤ“ کا راز مسلمان خواتین کی زرخیزی میں پنہاں ہے۔ ہر مسلمان ملک میں بے ہنگم انداز سے آبادی بڑھ رہی ہے، جس کی بنیاد میں یہ عقیدہ کام کر رہا ہے کہ اللہ رازق ہے جو پتھر میں کیڑے کو بھی رزق عطا کرتا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہرذی روح کے رزق کا وعدہ کیا ہوا ہےوغیرہ۔
مسلمانوں کی بڑھتی آبادی کے دفاع میں اس قسم کے فقرات بھی سننے کو ملتے ہیں۔ اللہ نے ہمیں ایک منہ اور دو ہاتھ دیئے ہیں ۔ اور یوں اسلام ہر مسلمان ملک میں دھڑا دھڑ پھیلتا جا رہا ہے۔ اسلام کے اس بے ہنگم انداز میں پھیلنے کی مثال پاکستان کو ہی لے لیں، 1971 میں موجودہ پاکستان کی آبادی ساڑھے پانچ کروڑ تھی جو اس وقت بیس کروڑ ہو چکی ہے، جس سے مراد یہ ہے کہ پچھلے چوالیس سال میں اسلام پاکستان کے اندر چوگنا پھیل چکا ہے، اور یہی حال دوسرے مسلمان ممالک کا ہے۔
اسلام کے مغربی ممالک میں بھی پھیلنےکے دعوے بھی اکثر سنے جاتے ہیں۔ اکثر اوقات اس موضوع پر بھی کچھ نہ کچھ پڑھنے کو مل جاتا ہے، جن میں کسی غیر مسلمان کے اسلام قبول کرنے کا ذکر ہوتا ہے۔ یہاں بھی ملحدین وہی دلیل استعمال کرتے ہیں کہ ایسا کچھ نہیں ہے، مغرب میں بھی اسلام پھیلنے کی وجہ مسلمان خواتین کا بہت زیادہ بچے جننا ہے۔ کیونکہ مغربی ممالک میں موجود راہنماؤں کے نزدیک عبدالرحمٰن غافقی کی فرانس میں شکست کے بعد یورپ میں اسلام کا پھیلاؤ جو رک گیا تھا، اس کا ازالہ کرنے کا موقع مسلمانوں کو دوبارہ ملا ہے۔ لیکن اس بار جنگ تلوار سے نہیں بلکہ کثرت سے ہو گی۔
اس عظیم مقصدکے حصول کی خاطر مسلمان خواتین مغربی ممالک میں اتنے بچے جنیں کہ مقامی آبادی اقلیت میں تبدیل ہو جائے اور یوں بغیر کسی خون خرابے کے مغربی ممالک مشرف بہ اسلام ہو جائیں۔ معمر قذافی اور اخوان المسلمین اسی قسم کے جذبات کا اظہار کر چکی ہے۔ برسلز میں پچھلے کئی سالوں سے نومولود بچوں کا رکھا جانے والا سب سے مقبول نام محمد ہے، برطانیہ کے کچھ علاقوں سے بھی ایسی ہی خبریں ہیں۔
بلجیئم میں مراکو سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کی اکثریت ہے اور وہاں شریعت برائے بلجیم نامی تنظیم کے بقول یورپ میں شریعت کے تحت آنے والا سب سے پہلا ملک بلجیئم ہو گا۔ اور یہ عظیم مقصد 2040 تک حاصل کر لیا جائے گا اور مقامی باشندے خواہ جتنی بھی کوشش کر لیں وہ اسے ہونی کو روک نہیں سکتے۔
اخوان المسلمین کے نزدیک جمہوریت ایک شیطانی ایجاد ہے اور اسی شیطانی ایجاد سے مغرب میں اسلام کا بول بالا ہو گا۔ مسلمان خواتین کی زرخیزی تو سمجھ آتی ہے لیکن جہاں تک اسلام قبول کرنے والے مغربی باشندوں کا تعلق ہے، ملحدین کے نزدیک ان میں ننانوے فیصد ایسی خواتین ہوتی ہیں جو کسی مسلمان مرد سے شادی کی خاطر اپنا مذہب تبدیل کرتی ہیں۔ اگر کسی من پسند فرد سے شادی میں مذہب کی دیوار حائل ہے تو اسے تو ہٹانا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔
میرے ایک آدھ جاننے والے ایسا کر چکے ہیں، کسی مولوی کے پیچھے ایسے الفاظ دوہرانے جن کا مطلب مغربی باشندوں کو پتہ نہیں ہوتا، اس سے نکاح ہو جاتا ہے اور اسی وقت کوئی ”اسلامی“ نام بھی طے کر دیا جاتا ہے جو صرف گھر کے اندر ہی استعمال ہوتا ہے، سرکاری دفتر میں اس کا اندراج نہیں ہوتا۔ لیکن شوہر انہیں پھر بھی عائشہ و فاطمہ پکارنے میں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے ہمارے ملک کے نامور وکیل اور پیپلز پارٹی کے سیاستدان اعتزاز احسن کی صاحبزادی نے ایک نارویجن مرد کو اسلام قبول کروانے کے بعد اس سے شادی کی۔ لیکن ا سلام کے اس انداز کے پھیلاؤ سے سب سے بڑا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ چونکہ اس کی بنیاد شادی ہوتی ہے لہذا شادی ختم ہونے کے ساتھ ہی اسلام میں ایک رکن کی کمی ہو جاتی ہے۔جمائما خان اس سلسلہ میں نمایاں مثال ہے۔
اسلام کے اس پھیلاؤ سے قطع نظر ایک اور چیز جسے بہت شدت سے نظر انداز کیا جا رہا ہے، وہ فتنہ ارتداد ہے، مسلمان ممالک اور مغربی ممالک میں مسلمان اپنے دین سے راہ فراراختیار کر رہےہیں۔ یوسف القرضاوی نے ایک مصری اخبار کو انٹرویو میں ارتداد کی سزا موت کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا ” اگر ارتداد کی سزا ختم کر دی جاتی تو اسلام کا آج وجود نہ ہوتا بلکہ پیغمبر صلیٰ اللہ وسلم کی وفات کے ساتھ ہی اسلام کا خاتمہ ہو جاتا۔ ارتداد کے روکنے کی وجہ سے ہی آج اسلام موجود ہے“۔
یوسف القرضاوی ایک چیز کا ذکر کرنا بھول گئے ہیں کہ پرانے وقتوں میں جو مذہبی علم صرف مذہبی علما تک ہی محدود تھا آج انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے توسط وہ ہر کس و ناکس کی پہنچ میں آ گیا ہے۔ ایک فقرہ لکھ کر کلک کریں اور آپ کے سامنے اس موضوع پر معلومات کا ایک جہاں کھل جائے گا۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے ہی آج ملحدین دعویٰ کر رہے ہیں کہ اگر اسلام سیکھنا ہے تو ہم سے سیکھو کیونکہ ہم نے قران ترجمےکے ساتھ پڑھا ہے، تفسیر، حدیث اور سیرت کی کتابیں پڑھی ہیں اور اسی وجہ سے ہم نے اسلام کو چھوڑا ہے۔
پاکستان اور دیگر مسلمان ممالک میں تو موت کی سزا اور معاشری مقاطعہ کے ڈر سے ارتداد کی تحریک زیر زمین چل رہی ہے، لیکن مغربی ممالک جہاں خوف کی فضا مقابلتاً کم ہے۔وہاں سابقہ مسلمان سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں، اور یہ صرف آغاز ہے۔ اس سلسلہ میں ناروے کے معتبر ترین اخبار آفتن پوستن میں آج ایک مضمون شائع ہوا ہے۔
انیتا فرزانہ کا تعلق ایران سے ہے، انقلاب ایران کے وقت ان کی عمر سات سال تھی، انہوں نے پرائمری سکول سے عربی سیکھنے کے علاوہ قرآن کی تعلیم شروع کی جو یونیورسٹی تک جاری رہی۔ انیتا کی ایک سہیلی اسلامی ایران کے طے کر لباس نہ پہننے کی وجہ سے زنابالجبر کی شکار ہوئی، حاملہ ہوجانے کی وجہ سے اس نے خود کشی کر لی، انیتا نے اس زیادتی کے خلاف آواز اٹھانے کیلئے اسلام کو ہی ہتھیار بنایا اور مہم شروع کی کہ اسلام جو حقوق خواتین کو دیتا ہے، ایران میں خواتین کو وہ اسلامی حقوق حاصل نہیں۔
اس مہم کے نتیجہ میں انیتا کو گرفتار کر لیا گیا۔ انیتا بیس سال کی عمر میں ایک پناہ گزین کے طور پر ناروے آئیں۔ انیتا کے نزدیک مذہب انسان کا ذاتی معاملہ ہے۔ انیتا ٹرام میں بیٹھی ہوتی ہیں، پیچھے سے ایک باریش صاحب کی اسلام علیکم کی آواز سنائی دیتی ہے۔ انیتا جواب میں ہیلو کہتی ہے، باریش صاحب تھوڑی دیر بعد پوچھتے ہیں ” کیا تم مسلمان نہیں ہو“ جواب نفی میں ملنے کے باوجود موصوف پوچھتے ہیں، ”تم نے اتنا چھوٹا سکرٹ کیوں پہنا ہوا ہے“، جواب میں انیتا کہتی ہے“ میری مرضی“۔ باریش صاحب غصے سے آگ بگولہ کہتے ہیں“ تم ایک کافر اور کنجری ہو، تم اس ملک میں شراب اور فری سیکس کیلئے آئی ہو“۔
جمال کنودسین یوجلیم
جمال اپنے تعلیم کے زمانے میں اسلام پسند تنظیم رفاہ کے رکن تھے، ان کے اسلام چھوڑنے کی سب سے بڑی وجہ ان کی ماں کے حالات زندگی ہیں جس کیلئے جمال غلامی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ جمال کی ماں سکول نہیں جا سکی، اس کی شادی بھی اس کی مرضی سے نہیں ہوئی، اس نےزندگی اپنے گھر کے مرد حضرات کے علاوہ کسی دوسرے مرد سے بات نہیں کی، وہ اپنے اوپر ہونے والی ہر زیادتی کو یہ سمجھ کر برداشت کرتی رہی کہ یہ اللہ کی طرف سے ایک امتحان ہے۔
جمال کی ماں نے کبھی ٹی وی نہیں دیکھا، کیونکہ اسے کم عمری میں امام نے بتایا تھا کہ ٹی وی ایک شیطانی مشین ہے جس سے غیر مردوں کی ننگی تصویر نظر آتی ہیں اور پھر رحمت کے فرشتے ایسے گھر کا رخ نہیں کرتے۔ جمال کے نزدیک خواتین کے استحصال کو روایات اور ثقافت کا نتیجہ قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ استحصال ہر مسلمان ملک میں پایا جاتا ہے۔
جمال کی ماں کی شدید خواہش ہے کہ وہ حج پر پر جائے لیکن جمال باوجود پیسے ہونے کے حج کیلئے ایک پیسہ بھی دینے کو تیار نہیں ہے۔ اس کے بقول اگر اس کی ماں ہوائی یا کسی اور ملک میں سیر سپاٹے کیلئے جانا چاہے تو وہ ضرور اس کے تمام اخراجات دے گا لیکن حج پر پیسے ضائع کرنے کو بالکل تیار نہیں۔ جمال کے بقول اس نے ایک بارامام مسجد سے اسلام میں مردوں اور عورتوں کے متعلق برابری نہ ہونے کا پوچھا تھا لیکن امام صاحب نے اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیا کہ اسے ایسے سوال نہیں پوچھنے چاہیں کیونکہ اس سے کافر ہوجانے کا اندیشہ ہے۔
جمال کو رسول کریم کی حضرت عائشہ سے چھ سال کی عمر میں شادی سے بھی مسئلہ ہے، ان کے نزدیک یہ مسلمانوں کا دوہرا معیار ہے کہ وہ سعودی عرب کے کٹر وہابی اسلام اور داعش کے ظلم و ستم کی تو مذمت کرتے ہیں لیکن اس قتل و غارت کے سوتے جہاں سے پھوٹتے ہیں وہاں وہ خاموش رہتے ہیں۔ جمال کو زیادہ حیرانی مغربی ممالک میں اسلام کی اس شکل سے ہے جو انہوں نے ترکی جیسے اسلامی ملک میں بھی نہیں دیکھی۔ ان کے بقول انہوں نے ناروے آنے سے پہلے کبھی کسی مسلمان کمسن بچی کو حجاب پہنے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔ اور نہ ہی نو دس سالہ بچیوں کی لڑکوں سے کھیلنے کی ممانعت سنی تھی۔
شکیل رحمٰن
شکیل رحمٰن شکیل رحمٰن ایک پاکستانی نژاد نارویجن ہیں۔ ان کا تعلق کراچی سے ہے بچپن میں ناروے آئے اور تمام مسلمانوں کی طرح قرآن کی تعلیم بچپن میں ہی حاصل کی۔ شکیل رحمٰن نے نسل پرستی کے خلاف جدوجہد کے دوران محسوس کیا کہ ہم انسانی برابری اور یکساں حقوق کی جدوجہد کر رہے ہیں، لیکن ہمارے اپنے مذہب میں برابری کا تصور مفقود ہے۔ انہیں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والوں مسلمانوں کے خیالات ، ہم جنس پرستوں اور خواتین کے حقوق کے معاملہ پر اپنے عقیدے کا دفاع بہت مشکل لگا۔
شکیل کو سمجھ نہیں آ سکی کہ شادی سے پہلے دو بالغ انسان اپنی مرضی سے جنسی عمل کیوں نہیں کر سکتے۔ اس کی سزا کوڑے اور سنگساری ہے، جب کہ کسی کی بہن یا بیٹی جو جنگ کے نتیجے میں ہاتھ لگ جائے اس سے مسلمانوں کو زنابالجبر کی بھی اجازت ہے، یہ ایسے سوال تھے جن کے نتیجے میں شکیل اگناسٹک ہو گئے، وہ مذہبی کتابوں میں موجود خدا کو نہیں مانتے اور اس کی بجائے انتظار کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جب سائنس اس مسئلہ پر کوئی فیصلہ صادر کر سکے۔
شکیل کو اپنے خیالات کی وجہ سے قتل کی دھمکی نہیں ملی لیکن وہ کچھ ایسے حضرات کو ضرور جانتے ہیں جو اس نوعیت کی دھمکیوں کا سامنا کر چکے ہیں۔ شکیل کو قتل کی بجائے، غدار، کافر اور ناریل ہونے کا طعنہ مل چکا ہے۔ یورپ میں ناریل سے مراد ایک ایسا آدمی ہوتا جومقامی باشندہ نہ ہونے کے باوجود مقامی باشندوں جیسے خیالات رکھتا ہو، یعنی باہر سے کالا اور اندر سے سفید رنگت کا حامل ہو۔ ہمارے ہاں اس لفظ کا متبادل کالا صاحب ہے۔ اس کے باوجود شکیل پُر امید ہیں کہ اب وقت آن پہنچا ہے کہ اسلامی پس منظر سے تععلق رکھنے والے بھی کھل کر مذہب پر اپنی تنقیدی سوچوں کا اظہار کر سکیں۔
محمد راہ
محمد راہ سولہ سال کی عمر میں اپنے والدین کے ہمراہ ناروے آئے، ان وقتوں میں وہ جہاں تک ممکن ہوا مسجد جاتے تھے۔ انہوں نے اس عمر میں بھی نوٹ کیا کہ مسجد میں جب بھی دوسرے مذاہب پر گفتگو ہوتی، انہیں یہی سننے کو ملتا کہ اسلام کیسے دوسرے مذاہب سے افضل ہے۔ ”تب مجھے مذہب پر سختی سے کاربند نہ ہونے والوں پر ترس آنے کے علاوہ ان سے نفرت بھی ہوتی تھی۔ انہی دنوں میرے سسرالی رشتہ داروں کے ایک کرد فلسفی دوست ہمارے گھر آئے جو مذہبی عالم بھی تھے انہوں نے امام بننے کی تعلیم حاصل کی تھی۔ ان سے ملاقات نے میری زندگی بدل دی۔
وہ بہت لبرل اور مذہب پر تنقیدی سوچوں کے حامل تھے، انہوں نے مجھے دوسروں کی باتوں کو من و عن قبول کرنے کی بجائے خود علم حاصل
کرنے کا مشورہ دیا۔ ان کے گھر میں حدیث کی مثلاً صحیح بخاری و صحیح مسلم مجھے دیکھنے کو ملیں، لیکن الماری میں سب سے اوپر قرآن کی بجائے آفتن پوستن کے ایک صحافی کے رسول اللہ پر لکھی سوانعمری نظر آئی۔ گو وہ کرد فلسفی قران کو عربی، کردی اور ناررویجن زبان میں پڑھ چکے تھے“۔ محمد راہ نے پہلی بار ایک نارویجن سے یہ سنا کہ رسول کریم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے جب شادی کی تھی تو وہ ایک کمسن نامی ایک بچی تھیں، تو ان کے قدموں تلے سے زمین سرک گئی۔
میرے لئے اپنی مثالی شخصیت پر تنقید سننا بہت مشکل تھا۔ میں نے اپنے سُسر سے پوچھا جو مذہبی عالم ہونے کے علاوہ ایک انتہائی باشعور آدمی تھے۔ ان کے بقول عائشہ کی عمر کے متعلق مختلف آرا ہیں، کچھ کے نزدیک شادی کے وقت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چودہ سال تھی، لیکن صحیح بخاری میں عائشہ رضی اللہ عنہ کی شادی کے وقت ان کی عمر 9 سال بتائی جاتی ہے۔ میرے سسر کے بقول اس شادی کا مقصد سیاسی تھا، ابوبکر رضی اللہ عنہ بہت معزز اور بہت بااثر حیثیت کے مالک تھے، رسول اللہ اس شادی سے اپنی پوزیشن مضبوط کرنا چاہتے تھے۔
سُسر کی یہ دلیل مجھے متاثر نہ کر سکی۔ اور میں اس سوچ کو ہضم نہ کر پایا کہ ایک پچاس سالہ آدمی ایک چھوٹی بچی سے شادی کرے۔ مجھے لگا کہ اب تک مجھ سے دھوکا کیا گیا ہے، مجھے پہلے کسی نے اس واقعہ کے متعلق کیوں نہیں بتایا؟۔ راہ نے خدا سے راہنمائی لینے کا سوچا، اس نے اپنی شہادت کی انگلی کھڑی کر کے کہا ، اے خدا مجھے اپنے وجود کا کوئی ثبوت دو، اگر تم موجود ہو تو میری شہادت کی انگلی کو بے جان کر دو۔ راہ نے ایک ہفتہ تک اللہ کی طرف سے کوئی بھی نشانی نہ ملنے کی صورت میں خدا کو خدا حافظ کہہ دیا۔
محمد راہ نے ایک کرد صفحے پر اسلام پر ایک تنقیدی مضمون لکھا جس کے نتیجے میں اسے ای میل کے ذریعے ڈینیل پرل کے کٹے سر کی تصویر ملی جس میں اس خواہش کا اظہار کیا گیا، ”کاش میں تمہارا سر بھی اس طرح دیکھ سکوں۔ اس ای میل کے متعلق جاننے کے بعد میری ماں نے رونا شروع کر دیا اور باپ نے بھی بہت غصے کا اظہار کیا کہ تم نے ایسے حالات کیوں پیدا کئے ہیں۔ لیکن میں اپنی سلامتی بجائے خاندان کیلئے خوفزدہ ہوں کہ وہ میرے خیالات کی وجہ سے کسی نقصان یا خطرے سے دوچار نہ ہوں، میری بیوی بھی اس صورت سے خوش نہیں ہے۔ میں بہت سے ایسے ملحدین کو جانتا ہوں جو اپنے الحاد کا اقرار کرنا تو درکنار بلکہ اسلام کا دفاع کرتے ہیں کہ وہ اپنے سچے خیالات کے اظہار کی وجہ سے کسی مصیبت کا شکار نہ ہو جائیں۔ لیکن میں اپنے انداز سے اپنی زندگی جینا چاہتا ہوں۔ مجھ سے منافقت کی زندگی نہیں جی جاتی۔ میں ناروے جیسے آزاد ملک میں رہتے ہوئے بھی سوچتا ہوں کہ وہ لوگ جو اسلام پر اپنے تنقیدی خیالات کا اظہار کرتے ہیں وہ آگ سے کھیل رہے ہیں۔ مجھے ایک دن مرنا تو ہے لیکن میں جو ہوں اسی کی خاطر مرنا چاہوں گا نہ کہ وہ جو دوسرے لوگ مجھ سے ہونے کی توقع کر رہے ہیں“۔
علی اور احمد
علی اور احمد یہ ایک افغان ہے، ہمیں اسے علی کے فرضی نام سے پکارتے ہیں۔ اس کا ایک ملحد دوست ہے، ہم اسے احمد کہہ سکتے ہیں، دونوں کافی عرصہ سے اسلام سے کنارہ کشی کر چکے ہیں۔ جس کا ان کے خاندان کو کوئی علم نہیں ہے۔ دونوں شادی شدہ ہیں، ان کی بیویاں پکی مسلمان ہیں اور نماز روزے کی ادائیگی کے علاوہ حجاب بھی استعمال کرتی ہیں۔ علی کی بیوی کو پتہ نہیں کہ اس کا شوہر اب مسلمان نہیں رہا۔ ”میری بیوی کو خبر نہیں ہے کہ میں ملحد ہوں۔ اس موضوع پر بیوی سے بات نہ کر پانا مجھے اچھا نہیں لگتا، لیکن میرے بچے جب مذہب اور عقیدے سے متعلق مجھ سے سوال کرتے ہیں تو میں جہاں تک ہو سکے ان سے اپنےخیالات نہیں چھپاتا، لیکن میری کوشش ہوتی ہے کہ اس موضوع پر بات کرتے وقت ایسا توازن قائم کر پاؤں کہ بیوی کے ساتھ تعلقات خراب نہ ہوں۔ احمد کو شک ہے کہ اس کی بیوی اس کی لا مذہبیت سے آگاہ ہے لیکن انہوں نے کبھی اس موضوع پر بات نہیں کی۔ ”انسان آہستہ آہستہ اپنے خیالات چھپانا سیکھ جاتا ہے۔ ہمیں محتاط ہونا چاہیئے، اپنی باتوں کو سنسر کرنا چاہیئے، اگر میں اپنا ملحد ہونا ظاہر کروں تو کچھ بھی ہو سکتا ہے، اسلام میں مرتد کی سزا موت ہے“۔
علی اور احمد افغانستان جیسے مذہبی معاشرے میں پیدا ہوئے۔ پندرہ سولہ سال کی عمر میں ہی ان کے ذہن میں اسلام سے متعلق تنقیدی سوال کھڑے ہونا شروع ہو گئے۔ علی نے افغانستان میں امام مسجد سے پوچھا، ”پیغمبر صلیٰ اللہ وسلم کی اتنی بیویاں کیوں تھیں“؟ امام صاحب نے اسے جھڑکتے ہوئے ایسے سوال پوچھنے سے منع کر دیا۔ امام کی جھڑک نے سوال ختم کرنے کی بجائے مزید مطالعے اور غور و فکر کو راہ سجھائی، سوال بڑھتے گئے اور ان کا بوجھ اٹھانا مشکل ہوتا گیا۔ پیغمبر صلیٰ اللہ وسلم کی موجودگی میں اتنے بے گناہ کیوں قتل ہوئے؟، ان کی اتنی زیادہ بیویاں کیوں تھیں؟، اتنی لونڈیاں کیوں تھیں؟۔ ایک کم سن بچی سے شادی کرنے والا ایک مثالی انسان کیسے ہو سکتا ہے؟۔ علی اور احمد دونوں کا کہنا ہے کہ جو لوگ اسلام کو امن کا مذہب قرار دیتے ہیں، اور اس کیلئے قران کا حوالہ دیتے ہیں تو وہ ان مکّی آیات کا حوالہ دے رہے ہوتے ہیں جب مسلمان کمزور تھے لیکن جونہی مدینہ میں اسلام نے زور پکڑا تو قران کی زبان میں بھی سختی آتی گئی۔ مسلمانوں کا خیال ہے کہ قرآن خدا کے بولے گئے الفاظ ہیں جب کہ سچ یہ ہے کہ یہ انسانوں نے رسول خدا کی وفات کے کئی سال بعد لکھے۔
اسلامی ممالک میں تو اسلام چھوڑنے یا اس کا اظہار کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا ۔ لیکن مغربی ممالک جہاں آزادی اظہار رائے جیسے خوبصورت الفاظ کی بہت زیادہ تکرار سنائی دیتی ہے، وہاں بھی اسلام چھوڑنا آ بیل مجھے مار کے مترادف ہے۔ سابقہ مسلمانوں کو معاشرتی مقاطعہ اور دھمکیوں کا سامنا ہوتا ہے، آپ کے دوست اور رشتہ دار آپ سے منہ پھیر لیتے ہیں، قتل کی دھمکیاں تک بھی ملتی ہیں۔ کیونکہ اسلام کو چھوڑنے سے یہ مراد ہے کہ آپ اسلام کے دشمنوں سے جا کر مل گئے ہیں، آپ ایک غدار ہیں اور غدار کی سزا موت ہے۔ اسلام چھوڑنے کو سماجی خود کشی کہنا زیادہ مناسب ہے۔ یہ اجتماعیت سے غداری ہے، اور یہ اتنا آسان نہیں جیسے کوئی ریاستی چرچ سے اپنی ممبر شپ ختم کر دے یا آپ اپنی گرل فرینڈ سے قطع تعلق کر کے کوئی نیا تعلق استوار کر لیں، یہ جان لیوا جوکھم کا کام ہے اور جو لوگ اپنے خیالات و عقائد کے اظہار کی خاطر اس قدر خطرہ مول لیتے ہیں، ہم ان کے خیالات سے متفق نہ ہونے کے باوجود ان کے اپنی ذات سے خلوص اور دیانت داری کی قدر کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں
مجھے اب ہوش آتا جا رہا ہے،
خدا تیری خدائی جا رہی ہے
– جون ایلیا –
One Comment