دہشت گردی،آپریشن گردی اور پنجاب گردی کے متاثرین۔۔۔

عبدا لحئی ارین

مطالعہ پاکستان کے متاثرین کو روز اول سے یہی پڑھایا جارہا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا “ لا الہ اللہ“ مگر ملک میں پشتونوں کے خلاف آپریشن دہشت گردی،ضرب عضب ہو یا پھر حالیہ پولیس کی جانب سےآپریشن کے نام عام سوشل میڈیا پر پنجاب پولیس کی ان پُرتشدُد اور متعصبانہ کاروائیوں کے خلاف عوامی حلقوں کی جانب سے بھر پور ریکشن سامنے آرہا ہے۔  کچھ نے اسے پشتون دشمنی قرار دیا ہے  تو کچھ نے اسے ریاست کی پالیسی جبکہ کچھ بلاگر ز  نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا  د پنجاب لشتہ زما ملا۔ یعنی پاکستان کا مطلب کیا۔۔۔ میری کمر اور پنجاب کا ڈنڈا“ قرار دے دیا ہے۔

زیر نظر سطور میں سوشل میڈیا پر فاٹا، بلوچستان، خیبر پشتونخوا، پارلیمنٹئیرین، سیاسی رہنماؤں اور دیگر ممالک میں رہائش پذیر  پشتون جوانوں کے  ریمارکس دئے جارہے ہیں۔پشتون جرنلسٹ عبدالمالک اچکزئی کہتے ہیں کہ پرانی شراب نئی بوتل کون نہیں جانتا کہ آج بھی بے گناہ اور نہتے پشتونوں کو پاکستان کے جیل خانوں میں سٹاک کیا جائیگا۔  کیونکہ ان کا قصور یہ ہے کہ انہوں نے ریاست کے مہمانان خاص کی وجہ سے اپنے گھر بار اور وطن چھوڑ کر پنجاب اور سندھ میں کاروبار، روزگار، محنت مزدوری، تعلیم اور علاج کےلئے نکلے ہیں۔

ان نام نہاد آپریشنوں کا سلسلہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی بہترین چالاکی اور اربوں ڈالرز کی امداد وصول کرنے کے سائیکل کے سوا اور کچھ نہیں۔ ریاست نہ اپنی پالیسی بدل رہی ہے، نہ ہی پاکستان کو جمہوری فیڈریشن بنانے، آزاد خارجہ و داخلہ پالیسی اپنانے اور ہمسایہ ممالک خصوصاً افغانستان کے ساتھ اچہے تعلقات رکھنے، انتہا پسندی اور دہشت گردی کی ناسور کو واقعی میں ناسور سمجھ کر ان کی پرورش چھوڑنے کو تیار نہیں۔

ہاں پشتونوں پر زندگی کا دائرہ تنگ کرنے کے تو بس حد ہوگئی ہے۔معصوم اور محنت مزدوری کرنے والے پشتونوں کے خلاف پُر تُشدد آپریشن و  پکڑ دھکڑ کا اظہار کیا ہے “پنجاب اور سندھ کے شہری علاقوں میں مزدور اور محنت کش غریب پٹھانوں کو اسی طرح گرفتار کرکے گھسیٹ کر گاڑیوں میں ڈالا جا ر ہا ہے جیسے پنجابی ٹیلی ویژن پر کسی زمانے میں ہندوستانی کشمیر کے لوگوں کو گرفتار کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے۔ پنجاب کا میڈیا اب کھل کر لکھ رہا ہے کہ منڈی بہاوالدین سے پندرہ مشتبہ پٹھان گرفتار۔

پنجاب پولیس نے باقاعدہ فرمان جاری کیا ہے کہ کوئی مشتبہ شخص یا پٹھان نظر آئے تو پولیس کو مطلع کرلیں۔“ سوشل میڈیا ایکٹیووسٹ یاسر کاکڑ صاحب پنجاب حکومت اور پولیس کی اس رویے پر کچھ اس طرح رقم طراز ہے “ نفرتیں کون پھیلا رہا ہے۔ وفاق کو کون کمزور کر رہا ہے۔اور لسانی بنیادوں پر تعصب کا کون شکار ہے۔ سب کو اب بات سمجھنی چاہیے۔ جب بھی حکومت امن و امان قائم رکھنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔تو ملبہ جنگ زدہ افغانستان یا پھر پاکستان میں رہنے والے پشتونوں پر ڈالتی ہے۔ایک تو افغانستان کو جس نے جنگ کی آگ میں دکھیلا سب اچھی طرح جانتے ہیں۔۔۔ تو ہر عمل کا رد عمل تو ہوتا ہے۔اور پھر اول تو پشتون افغان دہشت گردی کے مرتکب نہیں ہوسکتے۔ کیوں کہ ان کے نیچر میں ہی دہشت گردی نہیں۔پھر بھی اگر کوئی پشتون کسی بھی دہشت گردی میں ملوث ہو۔ تو وہ ان کا ہی پالا ہوا نوکر ہوسکتا ہے۔ پشتون افغان نہیں“۔ 

پنجاب ہی میں پولیس کی جانب سے ایک محنت کش پشتون کے گھر کے اندر صندوق کی تلاشی والی سوشل میڈیا کے اس تصویر پر خاصہ دلچسپ اور سیاسی پیغام سے لبریز تبصرہ کیا ہے  اور لکھا ہے کہ پنجابی پولیس پٹھان کے گھریلو صندوق میں اسامہ، ملا عمر اور حفیظ سید ڈھونڈ رہی ہے۔ جبکہ احمد جان مہمند صاحب ان واقعات کے حوالے سے لکھتا ہے کہ ١٩٧١میں بنگالیوں کے خلاف جس طرز پر آپریشن کیا گیا جبکہ آج 2017میں اُسی طرز کے آپریشن پشتونوں کے خلاف باقی پاکستان میں جاری ہیں، ریاست نے کبھی بھی تبدیل ہونا نہیں ہے“ ۔

محمد ایاز نے ان واقعات پر طنز کرتے ہوئے اپنے فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے کہ اب تو سب کو سمجھ آگیا ہوگا کہ یہ نہ تیرا پاکستان ہے نا میرا پاکستان ہے بلکہ یہ باتیں صرف گانوں کی حد تک ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اس ملک میں پشتونوں کا کردار مالک کی نہیں بلکہ صرف ایک چوکیدار کی ہے“۔

ہاشم خان مندوخیل جوکہ سوشل میڈیا کے ایک اچھے ناقد کے طور پر شمار ہوتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ پنجابی اسٹیبشلمنٹ کی ایماء پر ملک بھر میں محب وطن پر امن پشتونوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیاگیاہے۔ اور یہ دوست عباس جان اپریدی نے اس حد تک لکھا ہے کہ کبھی وزیرستان، کبھی افغانستان پر مردانگی دکھاتے ہو۔ غریب پشتونوں یا افغانستان پر آنکھیں نکالنا مردانگی نہیں ہے، اگر واقعی دھماکے را کر رہا ہے تو زرا مرد کی طرح ہمسائے ہندوستان سے لڑ کے تو دکھاؤ، چھٹی کا دود ھ یاد آجائے گا۔ 

پشتون صحافی ثنا اعجاز نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ماضی میں پنجاب کے اسٹیج شوز میں پشتونوں کی کردار کشی کی جاتی تھی جبکہ اب یہ کام آئی ایس پی آر کی بنائی گئی فلموں میں بھی بڑی بے شرمی سے کیا جارہا ہے۔

 پاکستان میں دہشت گردی ہو یا آپریشنز، ان سب سے فاٹا، پشتونخوا اور بلوچستان کے پشتون ہی سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ لاکھوں پشتوں اپنا گھر بار چھوڑ کر پنجاب اور سندھ میں نان شبینہ کمانے کی غرض سے مقیم ہیں، لیکن وہاں بھی غیر پاکستانی اور نسلی تعصب کے شکار بنائے جارہے ہیں۔

پنجاب میں پشتون جوانوں، عورتوں اور بچوں کیساتھ ہونے والے ریاستی مظالم کے جواب میں سوشل میڈیا پر پشتونوں کے غم و غصہ والے جذبات کا اظہار اپنی جگہ، لیکن دیکھا جائے تو سندھ ہو، بلوچستان یا فاٹا و خیبر پشتونخوا، ہر جگہ سے پنجاب مخالف سوچ ابھر رہی ہے۔ جس کا نشانہ ایک عام پنجابی بن رہا ہے۔ نفرتیں ناانصافیوں سے جنم لیتی ہیں، اور آج وہی پاکستان میں ہورہا ہے۔

یعنی سول اور فوجی اسٹیبلشمنٹ بشمول وفاق کے غلط پالیسیوں اور نا انصافیوں کی وجہ سے ملک کے دیگر صوبوں کے لوگوں میں جو نفرتیں جنم لے رہی ہیں اُن کی زد میں بد قسمتی سے پنجاب کی عوام آرہی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ بھی ہے کہ پنجاب والوں نے بھی اپنے فوجی اور سول حکمرانوں کا پشتونوں، بلوچوں ، سندھیوں اور ملک کے دیگر لوگوں کیساتھ جاری ناانصافیوں پر کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی ہے بلکہ اُن کی ہاں میں ہاں ملا کر چلے آرہے ہیں۔مرید کے، لشکر جھنگوی، حافظ سعید اور طالبان کی ایجاد کو ملک کی بقا اور نظریہ ضرورت کے تحت پاکستان کی مجبوری سمجھتے ہیں۔

 اس وقت ملک میں سب سے زیادہ شناختی کارڈ پشتونوں ہی کے بلاک کئے گئے ہیں، مجال ہے کہ پشتون قوم پرست پارٹیوں کے علاوہ کوئی مذہبی یا سیاسی جماعت ان بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف لب کُشائی کی توفیق حاصل کرے۔ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کی جانب سے فاٹا سے پنجاب کی جانب ہجرت کرنے والوں پر صوبے میں داخلے پر پابندی پر ہر قسم کے مسلم لیگیوں سمیت پی ٹی آئی نے بھی چپ کا روزہ رکھ لیا تھا۔ اور اسی وزیرا علیٰ کی جانب سے طالبان کو اپنا ہم سوچ اور ایک ہی پالیسی کے ماننے والا بیان پر پنجاب سے کسی نے آواز نہیں اٹھائی۔

دہشت گرد کون ہیں، دہشت گردوں کی پناہ گاہیں کہاں ہیں؟ اور ملک کے اندر کون ان کو ابھی تک سٹریٹجک اثاثوں کے طور پر پال رہے ہیں، لیکن پھر بھی اگر فوج کے سربراہ جنرل مشرف اپنی ہی پیدا کردہ دہشت گردی ، انتہا پسندی اور طالبان کو پشتونوں سے نتھی کرنے کی سازش کرتا ہے تو پنجاب کی سیاسی پارٹیوں، سول سوسائٹی، لبرل اور میڈیا پرسنز سچ لکھنے کے بجائے اسی پروپیگنڈے کو ریاست کی پالیسی سمجھتے ہوئے اس کو فروغ دیتے آرہے ہیں۔ 

 آج جب ایک بار پھر پنجاب میں پشتون نشین علاقوں میں آباد پشتونوں کو ریاست کی پیدا کردہ دہشت گردی کی سزا دی جارہی ہے، اُن کی دکانیں و کاروبار بند کرائے جارہے ہیں، اُن کو پکڑ کر سر عام مارا پیٹا جارہا ہے ، دہشت گردوں کو پکڑنے کی بجائے معصوم اور کاروباری پشتونوں کو تھانوں میں بن کیا جارہا ہے۔ یہاں پر بھی پنجاب کے کسی جج کو سوموٹو نوٹس یاد نہیں آرہا ہے، نا انسانی حقوق کے علمبرداروں کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی نظرآرہی ہے اور نا ہی پنجاب سے تعلق رکھنے والے اپوزیشن جماعت پی ٹی آئی و دیگر سیاسی جماعتوں کو یہ پاکستانی محسوس ہورہے ہیں۔ 

جس دن پنجاب کی عوام اور سیاستدان سچ کا ساتھ دینا شروع کریں گے، دہشت گردوں کو پالنے والوں، اُن کو اپنا اثاثہ کہنے والوں کو گردن سے پکڑیں گے، اُس دن ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، جس دن پنجاب والوں نے جمہوریت کا ساتھ دیا اور بلوچوں، پشتونوں اور سندھیوں کیساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے خلاف آواز اٹھائی، اُس دن سے پاکستان جمہوری ہوسکتا ہے ورنہ مزید بنگلادیش ، پشتونستان ، آزاد بلوچستان اور سندھو دیش بنانے کیلئے کوئی باہر سے آئے یا نا آئے، آپ کے حکمرانوں کی ناانصافیاں ہی کافی ہیں۔ 

اصل سوال یہ ہے کہ پشتونوں کے خلاف اس قسم کے اقدامات سے ریاست امریکہ اور مغربی دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتی ہے؟  کیا پشتونوں کو پاکستان اور افغانستان مین دہشت گردی، آپریشنز اور دیگر ریاستی تعصبات کا نشانہ بنانے کے بعد بھی ریاست پشتونوں کو دنیا میں دہشت گردوں کے طور پر پیش کرنے کی سازشوں میں لگاہوا ہے؟ یا پھر مہذب دنیا نے ریاست پر دہشت گردوں کو پالنے کے جو الزامات لگائے ہیں، وہ پاپ دھونے اور دنیا کیساتھ ایک بار پھر ڈبل گیم کھیلنے کیلئے ریاست ایک نئی مگر مکرہ چال چلنے کی کوشش کر رہی ہے؟ 

2 Comments