ارشد نذیر بھٹہ
اگرامن پسندی اور اسلام کے معاشی نظام کی بالادستی ثابت کرنے کی سیاست کرنی ہو، تو دریائے فرات کے کنارے کتا کی مثال دے کر سب کو چپ کرا دیا جاتا ہے۔
اگراسلام کے نام پر سیاست کرنی ہو، تو آئینِ پاکستان کی اسلامی شقوں پر ایسے ججز بھی جو خوشامدیں کرکے اور سفارشی طورپر بھرتی ہوئے ہوں، قاضی کے منصب کے تقاضوں اور حضورصلم کے “قریش خاندان کے ایک صاحبِ حیثیت شخص کی چوری کے واقعہ پر دیئے گئے فیصلے” کی مثالیں دینا شروع کردیں گے۔
سیدھی سی بات ہے یہ اسلام کی خدمت ہے نہ ہی عوام کی۔ یہ منفی سیاست ہے۔ یہ استحصال ہے۔ مفلسوں اور غریبوں کے ساتھ بیہودہ مذاق ہے۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ایسی سیاست کرنے میں عدلیہ اور ریاست دونوں ہی ایک پیج پر ہیں۔ لیکن ہمارے سماج میں لوگوں کو یہ پوچھنے کی آزادی حاصل نہیں ہے کہ اس ملک میں ایک لاکھ سے زیادہ معصوم لوگوں کو دہشت گرد مذہبی تنظیموں نے شہید کیا ہے۔ ایسی وارداتوں میں انہوں نے “ذمہ داری” بھی قبول کی، لیکن عدالت کو یہ پوچھنے کی جرات تک نہیں ہوتی کہ ایسی کالعدم تنظیمیں آخر ملک میں کس طرح سے اور کس کی اجازت سے کام کررہی ہیں۔
آخر “ایک انسان کا خون پوری انسانیت کے خون” کے مترادف ہے اور روزِ قیامت ان سے بطور قاضی یہ سوال ہوگا۔ یہاں تو کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا۔ یہاں ریاست اور عدلیہ دونوں کے منہ میں گھونگھنیاں آ جاتی ہیں۔ عدالتوں کو یہ بھی نظر نہیں آتا کہ جب وہ کنٹریکٹ ملازمین جن کا کنٹریٹ کا عرصہ ہی دوسال، تین سال یا پانچ سال ہو، ملازمت میں ہونے والی بدعنوانی پر انصاف کے لئے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں، تو انہیں دھکے اور تذلیل کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ بلکہ مقررہ عرصہ تک ان کے کیسزکی سماعت ہی نہیں ہوسکتی۔
بعد میں عدالت میں خود پہنچنے سے پہلے اپنی عینکیں پہنچانے والے یہ مغرور ججز صاحبان ان فنکشس جیسی ٹیکنیکل اصطلاحات استعمال کرکے ان کے کیسزکو اُڑا کے رکھ دیتے ہیں، دادے نے کیس دائرکیا ہوتا ہے، پوتا اس کی پیروی کررہا ہوتا ہے۔ ملزم اپنے جرم کے فیصلے سے قبل جیل میں مر جاتا ہے، عدالتِ عظمیٰ اُس کے کیس کا فیصلہ سنا رہی ہوتی ہے۔ جرم میں مقرر کی گئی سزا سے زیادہ سزا جیل میں کاٹ لیتا ہے، عدالتیں اُس کو “باعزت بریت کا فیصلہ” دے رہی ہوتی ہے۔یہ توہین عدالت ہے یا توہین انسانیت؟؟ اس کا فیصلہ فاضل جج صاحبان خود فرمائیں۔
اگر کوئی اس پر سوال اٹھانا شروع کرے تو فوراً ہی انہیں “حضرت عمر کے کرتے کے کپڑے پر اُٹھائے گئے سوال” بھول جاتے ہیں اور انگریز کابنایا ہوا قانون “توہینِ عدالت” یاد آجاتا ہے۔ انہیں ملاوٹ، رشوت، بدعنوانی، ناانصافی اور اقربا پروری جیسے سماج جرائم بھی نظر نہیں آتے، ہماری عدالتوں کو اگر کچھ نظر آرہا ہے تو وہ فیس بک پر ہونے والی “گستاخیاں” نظر آ رہی ہیں۔
ہماری عدالتوں کو مسلک کی بنیاد پر سرکاری اداروں میں دی جانے والی ایڈوٹائزمنٹ کے پیچھے موجود مائنڈ سیٹ بھی نظرنہیں آرہا۔ہماری عدالتوں کو شیعوں، ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں، احمدیوں اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم بھی نظر نہیں آرہے، انہیں بلوچوں کے سماجی، سیاسی اور ثقافتی حقوق کی پامالی اور ان پر اُٹھائے جانے والے ظلم بھی نظر نہیں آتے، انہیں گم شدہ افراد بھی نظر نہیں آتے۔
انہیں حکومت کی 60٪ سے زیادہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی فراہم نہ کرسکنے کی نااہلی بھی نظر نہیں آتی۔ان کی نظر تعلیم، صحت اور صفائی جیسے بنیادی سماجی حقوق پر بھی نہیں پڑتی۔ انہیں اگر کچھ نظرآرہا ہے تو وہ فیس بک پر ہونے والی گنتی کے چند لوگوں کی گستاخیاں نظر آرہی ہیں۔
آخر وہ کون سے معیارات ہیں جن کی بنیاد پر اداروں کی اہلیت اور احساسِ ذمہ داری کا اندازہ لگایا جا سکتے اور ان سے باز پرس بھی کی جا سکے یہاں ریاستی مشینری کے اہل کاروں خواہ عدالتی مشینری اور ججز ہوں، سب ہی اپنی اپنی اقلیم میں “پدرم سلطان بود” سے کم نہیں ہیں۔
کسی بھی ادارے کی اہلیت اور احساسِ ذمہ داری کا اندازہ “حقیقی ایشوز” اور “نان ایشوز” کے درمیان تفریق قائم کرنے سے لگایا جاتا ہے۔ یہ سوال عدالت کے اپنے ضمیر کا ہوتا ہے۔ عدالتیں عوامی اور جذباتی ردِعمل کی پرواہ کرتی ہیں اور نہ ہی ان کی جذباتیت پر فیصلے دیا کرتی ہیں۔
آخر ہماری عدالتوں کو یہ کیوں بھول جاتا ہے کہ اس ملک میں بیسیوں “توہینِ رسالت” کے کیسز بھی زیرِ سماعت پڑے ہیں جن کو عوامی جذباتیت کی وجہ سے منصفانہ سماعت تک کا موقع فراہم نہیں کیا جارہا۔
کیا عدالت کا ضمیر سوگیا ہے یا پھرایسے کیسز میں عدالتیں بھی کسی حکمتِ عملی کا شکار ہیں، کیا ایسے لمحے انہیں یاد نہیں آتا کہ انہیں ایک دن خدا کے حضور جوابدہ ہونا ہے؟؟
ایمانداری سے جائزہ لینے کے بعد عدالت کو جواب دینا ہوگا کہ آیا عدالتیں اور ریاست عوامی جذباتیت کی آڑ میں عوام کے حقیقی مسائل کا مذاق کیوں ا ڑا ر ہی ہیں؟ انہیں اس سوال کا کہ کیا واقعی حقیقی طور پر وہ ایک پرامن اور ترقی یافتہ معاشرہ قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں یا نہیں، جواب دینا ہوگا۔ اس سوال کا صرف عدالتوں اور ریاستی مشینری پر نہیں ہوتا بلکہ پورے سماج پر ہوتا ہے اور سب ہی اس کے برابر کے جوابدہ ہیں۔
مذہب کے ٹھیکیداروں کو بھی یہ جواب دینا ہوگا کہ اپنے سے مختلف مسلک رکھنے والوں پر روزانہ اپنے فیس بک پیجیز پر لعن طعن کرنا، ان کافر ثابت کرنا، ان کے موبا ئل فون پر ان کی اجازت کے بغیر میسیجز بھیجنا اوراس طرح کی تمام ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے نفرت پھیلانا “گستاخی” کے زمرے میں نہیں آتا۔
انہیں یہ احساس کرنا ہوگا۔بصورت دیگر “گستاخی” کی تعریف میں موصوف جسٹس منیر کے کمیشن میں “مسلمان” کی تعریف کی طرح مبہم اور غیر واضح رہے گی۔خدارا بیہودہ سیاست چھوڑیئے۔ لوگوں کے حقیقی مسائل کی طرف سنجیدہ توجہ کیجیئے۔ تمام ریاستی اداروں اور سب سے بڑھ کر عدالتوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان معاملات کا منطقی اور غیر جذباتی جائزہ لیں نہ کہ خود جذباتیت پھیلانے کا آلہِ کار بن جائیں۔
One Comment