یوسف صدیقی
رجعت پسند ملاؤں کے دباؤمیں آکر ریاستی اداروں کی طرف سے عوام کے ذہنوں میں جبراََ مذہب کا تصور راسخ کر نے کے مضر اثرات نے ملک و قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔مذہب کی آڑ لے کر ذاتی مفادات کے لیے پہلے قیام پاکستان کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے اَب اِسی ملک کے اداروں کے ساتھ راہ رسم بڑھانے میں مگن ہیں۔سیکولر اور روشن خیال مملکت کے سفر کو روکنے کے لیے خود کو پریشر گروپ کے طور پر استعمال کر نے لیکر خودکش حملوں تک بنیاد پرستی ہر حالت میں ہمارے ملک کے لیے سمِ قاتل ثابت ہو رہی ہے ۔
قائد اعظم محمد علی جناح کے پاکستان میں بُنیاد پرست ملاؤں کا کردار ہمیشہ ’’سوالیہ نشان‘‘ رہا ہے ۔اِقلیتوں کے حوالے سے تقریر کر تے ہوئے قائد اعظم نے کہا تھا کہ’’ہند کی (تاریخی)تقسیم کے بعد ایک مملکت یا دوسری مملکت میں اِقلیتوں کا وجود ناگزیر ہے۔آپ میں سے ہر شخص خواہ وہ اِس ملک(پاکستان) کا پہلا شہری ہے یادُوسرایا( پھر) آخری سب کے حقوق و مراعات اُور فرائض یکساں ہیں۔ قطع نظر اِس سے کہ کس کاکس فرقہ تعلق ہے۔اُور ماضی میں اِس کے آپ کے ساتھ کس قسم کے تعلقات تھے ۔اُوراِس کا رنگ و نسل یا عقیدہ کیا ہے۔تو آپ اس قدر ترقی کر یں گئے ،جس کی کوئی انتہا نہ ہو گی ،اِس مملکتِ پاکستان میں آپ آزاد ہیں۔اپنے مندروں میں جائیں اپنی مسجدوں میں جائیں یاکسی اُور عبادت گا میں!!!۔ آپ کا کسی مذہب ،ذات پات یاعقیدے سے تعلق ہو’’کاروبارِمملکت ‘‘سے اُسے کوئی واسطہ نہیں‘‘۔
محمد علی جناح نے مملکتِ پاکستان کو سیکولر اور روشن خیال ملک کے طور قائم کیا تھا۔ مندرجہ بالا تقریر کے نکات بہت ہی مدلل طریقے سے اس دعوے کی دِلالت کر تے ہیں۔لیکن بعض ’’ناگزیر‘‘وجوہات کی بِناپر جناح کے پاکستان میں ریاستی سطح پر ’’تھیاکریسی‘‘کو تسلیم کیا جاتا ہے ۔ عوم کے معاشی ،سیاسی اور ثقافتی حقوق کے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی ریاست ’’پاکستان ‘‘ میں ہمیشہ سے ہی ’بنیادپرستی‘کسی نہ کسی شکل میں نتھی رہی ہے۔فلاحی کاموں،عسکریات کی تجارت،مذہب کی تشریح و توضیح پرقبضہ،پراکسی وار میں گروپ بندی کے مضبوط پس منظر نے بنیاد پرستوں کے ’’شخصی جاہ جمال ‘‘کی قدر و قیمت کو عوامی اُور حکومتی اَذھان و قلوب میں پختہ تر کر دیا ۔
لیکن عوامی سطح پر اِن بنیاد پرستوں کی جڑیں بہت گہری ہیں۔یہی وجہ ہے کہ 95%مسلمانوں کے ملک پاکستان میں گزشتہ ساٹھ سال میں میدان انتخاب میں ’’اہلٍ دستار و جبہ ‘‘ کوانتہائی حقارت سے مسترد کر دِیا گیا ۔لیکن پھر بھی یہ طبقہ ریاستی و حکومتی حکام سے اپنا حصہ وصول کر رہا ہے۔باعثِ حیرت بات یہ ہے کہ مسلسل عوامی سطح پر دُھتکارے جانے کی کڑوی حقیقت کو تسلیم کر نے کے بجائے یہ ’ مُلاں‘دوبارہ قسمت آزمائی کے لیے میدانِ انتخاب کی زینت بنتے ہیں۔آ ج کل حکومتی صفوں میں اِن رجعتی ملاؤں کے’’ وارے نیارے ‘‘ہیں۔وزیراعظم میاں نوازشریف کے بنیاد پرست ملاؤں سے تعلقات ان کی سیاسی زندگی کے آغاز سے ہی زیرِ بحث رہے ہیں۔
جنرل ضیا الحق کی شوریٰ کی ممبر شپ ،افغان جہاد کی پالیسی کی تشکیل میں خفیہ مگر کلیدی کردار،اِسلامی جمہوری اِتحاد کی تشکیل و ترتیب میں خدمات،اے پی ڈی ایم جیسے اِتحاد میں رجعتی جماعتوں کی شامل کر نا وغیرہ اِن کے تاریخی اِقدامات ہیں۔نوازشریف اَب اِن موضوعات پر بات کر نا ’پسند‘نہیں کر تے۔لیکن آج کل میاں نواز شریف کے انتہائی رجعتی ملاں فضل الرحمن کے ساتھ رُوحانی،سیاسی اوراِخلاقی تعلقات کا چرچا ہر سیاسی محفل میں سُننے کو ملتا ہے۔مولوی فضل الرحمن ایک ’گھاک‘قسم کا سیاستدان بھی ہے،جو فوجی و غیر فوجی حکومتوں سے اپنا حصہ’’ دَستی‘‘ وصول کرنے کے ہوالے سے کا فی شہرت رکھتا ہے۔
اس طرح کے تجربے کرنے کے بعد اَب اِکیسویں صدی کے دوسرے عشرے میں وہ ہمہ قسم کی’’ ہستی‘‘ بناہوا ہے ۔ہر اہم مسئلے میں اِن کی رائے کہ اہمیت دینا ، ’’قومی سلامتی‘‘ کے لیے کیے گئے ہر اہم اِقدام میں اِن کے ’رجعتی مفادات ‘کو اہمیت دِینا ،اِقتدار میں ان کو ’کرسی‘ سے نوازنا اور بوقتِ ضرور ت حکومتی غلط کاریوں(جابرانہ معاشی پالیسوں)کو کارِ خیر میں تبدیل کر نے لیے اُن سے ’’فتوے‘‘حاصل کرنا ہماری سرکارکی ناگزیر مجبوری بن چکی ہے ۔موجودہ وقت کے دھارے میں اگرپاکستان میں بنیاد پرست ملاؤں کی اقتدار میں شراکت داری کو پرکھا جائے تو بہت ہی حیران کن حقائق سے آگاہی ملتی ہے ۔
اِس سلسلے میں مولوی فضل الرحمن کے نواز حکومت میں سیاسی کردار جائزہ لینا بہت ضروری ہے۔مولوی فضل الرحمن آج کل قومی اسمبلی میں کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ایک وفاقی وزیر کا ’حفاظتی حصار‘اور مراعات لینے کے ساتھ ساتھ اِن کا ایک قریبی رشتے دار اکرم خان دُرانی ہا ؤسنگ(بلدیات)کا وفاقی وزیر ہے۔اِسی طرح اُن کا ایک جماعتی ساتھی محمد خان شیرانی اِسلامی نظریاتی کونسل کا ’سالار‘بن کر نواز حکومت کو ’’نیک مشورے‘‘دَے رہا ہے۔
یہ تو تصویر کا ایک رخ ہے ،اگر ہم اُن پر حکومتی نواشات کا مکمل جائزہ لیں تو کئی صفحات درکار ہوں گئے۔نواز حکومت کے اِن رجعتی اقدمات کو دیکھتے ہو ئے حزبِ اختلاف کی اہم جماعت تحریک انصاف بھی ملاؤں کے ساتھ دوستی و تعلق داری کی پینگیں بڑھانے کی دوڑمیں شامل ہو گئی ۔عمران خان جن پر یا رلوگ ’’طالبان خان‘‘کا الزام بھی لگاتے ہیں۔جی ہاں یہی عمران خان آج کل رجعت پسندوں پر مہربان ہیں۔خیبر پختون خواہ میں بچوں کے اسکولوں کے نصاب میں جماعت اسلامی کی ایماء پر تیمور ‘سلطان ٹیپو اور سلطان صلاح الدین ایوبی جیسے ’’کرشماتی کرداروں‘‘ کی کہانیاں شامل کرنے بعد اپنی ’اسلامی پسندی اورُ حب الوطنی ‘ کو مزید پختہ تر کر نے کے لیے نظریاتی بنیاد پرستوں کے مقدس رہنما مولوی سمیع الحق کی خدمت میں 30کروڑ پاکستانی روپیہ کی خطیر رقم پیش کی۔
عوامی محصول (ٹیکس)کی رقم سے جدیدیت کو قدامت میں بدلنے کے دعویداروں کے مدرسے کو دِی جانے والی یہ تیس کروڑکی امداد کس کام آئے گی؟۔تاریخ کا پہیہ اُلٹا گھمانے کے لیے ہر دور میں بنیاد پرست ملاؤں نے جہاں فسادی شعلے بکھیرے وہا ں مالی فوائد حاصل کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہیں جانے دیا یہ خواہ پوست کی کاشت کا پیسہ ہو یا امریکی ڈالر یا پھر نیٹو کنٹینر لُوٹنے کا سلسلہ ہو۔پاکستان کے لبرل حلقے یہ محسوس کر رہے ہیں کہ مولوی سمیع الحق کو دِی جانے والی یہ رقم افغانستان کے پہاڑوں میں قائم جلال الدین کی عسکری یونی ورسٹیوں تک پہنچائی جائے گی ،تاکہ وہ دُنیا کو جدیدیت اور ترقی پسندی کی ’ ہواؤں‘ سے بچایا جاسکے۔
پاکستانی رِیاست اور اہلِ سیاست کی طرف سے بنیاد پرست ملاؤں کے ساتھ تعلقات کی گرم جوشی اپنی جگہ پر بجا ۔اور یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر بجا کہ قراردادِ مقاصد سے لیکر افغان جہاد میں ڈالروں کی وصولی تک اور اِسی طرح آئی جے آئی کی تشکیل سے لیکر ایم ایم کے قیام تک رِیاستی اور حکومتی صفوں میں موجود بنیاد پرستوں کے حامیوں نے نہایت ہی دیانت داری سے اِن ملاؤں کی خدمت کی ہے۔ اور کررہے ہیں۔ حکومتی تعاون سے بنیادپرستوں کے اعلی سطحی قیادت کی رنگین مزاجیاں ،بیرون ملک دورے ،چندے کے اکاؤنٹ او رجلسوں میں فخریہ’ منرل واٹر‘ سے وضو جیسے مہنگے شوق بھی آب و تاب سے جاری ہیں،لیکن دوسری طرف اِن کے کارکنان اور دوسرے درجے کی کٹر بنیادپرست قیادت کا اَب رِیاست کے ساتھ گزارہ بھی نہیں ہو رہا ۔
افغان جہاد کے کھنڈروں سے اُبھرنے والے یہ جدید بنیاد پرست ’ملاں‘ دہشت ،وحشت اور بربریت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ۔ضیا الحق کے دور میں عسکریات کی نجکاری کے اول اول یہی لوگ خریدار تھے ۔اُس وقت اِن کے ہاتھوں میں جہاں جدید اسلحہ پکڑایا گیا وہاں ان کو مرنے اور مارنے کی تربیت بھی دِی گئی ۔یہی تربیت آج کل ہمارے لیے ’عفریت ‘بن چکی ہے۔ مثالیں ہمارے سامنے روزِ روشن کی طرح موجود ہیں جیسا کہ ایک پولیس اہلکار ممتاز قادری کے ہاتھوں گورنر پنجاب سلیمان تاثیرکا قتل !!!۔
ممتاز قاردری نے سلمان تاثیر کو محض اس وجہ سے قتل کر دیا تھاکہ وہ ریاستی آئین کی کچھ مذہبی شقوں پر اپنا علیحدہ موقف رکھتے تھے ۔یہ موقف بنیاد پرستوں کے مجموعی بیانیے سے میل نہیں کھاتا تھا ۔ اپنی ذہنی اختراع سے اختلاف کرنے والوں کو قتل کرنا بنیاد پرستوں کا پرانا شیوہ ہے۔جیسا کہ سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن کی طرف سے ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل حکیم اللہ محسود کو ’’شہید‘‘ قرار دینے اور بعد ازاں جماعت اسلامی کی طرف سے اُن کے اِس بیان کے دفاع نے ثابت کر دیا کہ یہ بنیاد پرست عناصر ریاست کی نظریاتی جکڑبندیوں کو ماننے سے اِ نکاری ہیں۔یہ لوگ اَب ریاست کی گرفت سے نکل چکے ہیں۔
اس کا واضح ثبوت جمعیت اہلحدیث کے سربرہ ساجد میر کی طرف سے چیف آف آرمی سٹاف قمر جاوید باجوہ کے بارے میں ’’مخصوص بیان‘‘ہے ۔اس بیان سے محض اِس لیے صرف نظر کرنا ناممکن ہے کہ ساجد میر کی پارٹی کا ایک ’’ملاں‘‘عبد الکریم مسلم لیگ ’ن‘کے تعاون سے ممبر قومی اسمبلی ہے۔یہ چند مثالیں آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیاد پرستی کے نظریات کو ترویج دینے والے عناصر کی حوصلہ شکنی کی جائے ۔ریاست کی تمام اکائیوں بشمول اقلیتوں کو زندہ رہنے اور فکر و عمل کی مکمل آزادی ملنی چاہیے ۔دہشت،وحشت اور بربریت کے اس رجعتی کھیل میں ہم سب کو چاہیے کہ امن وامان کو قائم رکھنے،ملائیت کا مقابلہ کرنے اور ماحول کو صحت مند حالات کا تابع بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر یں یہی عوامی رائے دِہی کا فیصلہ ہے اور قیام پاکستان کا مقصد بھی!۔
♣
One Comment