آصف جاوید
زخم جب ناقابل علاج ہوجائے تو اسے ناسور کہتے ہیں، ، تعصّب جب حد سے بڑھ جائے تو اسے نفرت کہتے ہیں ۔ اگر یہ عمل فردِ واحد کی طرف سے ہو تو اسے نفرت ہی کہا جاتا ہے ، مگر جب پورا معاشرہ ہی نفرتوں کی آگ میں جلنے لگے تو اس عمل کواجتماعی منافرت کہتے ہیں ، یہ منافرت ، لسّانیت اور رنگ و نسل کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے ، فرقہ وارانہ اور مذہب کی بنیاد پر بھی ہوتی ہے ۔
نسل پرستی کو پوری دنیا میں ایک مذموم فعل مانا جاتا ہے۔ نسل پرستی کی تعریف کے لئے انگریزی میں لفظ “اپارٹ ہیڈ” استعمال کیا جاتا ہے جو کہ در اصل ایک اصطلاح ہے ۔ یہ اصطلاح پہلی دفعہ ایک باقاعدہ ایک نظام کی شکل میں 1948 میں ساؤتھ افریقہ میں نسل پرست گوروں کی طرف سے مقامی کالے افریقیوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سماجی اور معاشی استحصال اور مقاطعہ کے لئے باقاعدہ قانون سازی کے ذریعے نافذ کی گئی تھی۔
یہ مکروہ اور قبیح نظام پوری دنیا کی طرف سے ناپسندیدگی اور لعن طعن کا نشانہ بنتا رہا اور بالآخر ساؤتھ افریقہ کی نسل پرست حکومت کو 1991میں اسے باقاعدہ طور پر ختم کرنے کا اعلان کرنا پڑا۔ 1994 میں نیلسن منڈیلا کی قیادت میں افریقن نیشنل کانگریس نے ایک کثیر نسلی جمہوری حکومت قائم کرکے اس قبیح نظام کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جڑ سے نیست و نابود کردیا۔
یہ نظام تو ختم ہوگیا۔ مگر اب یہ ایک اصطلاح کی شکل میں پوری دنیا میں رائج ہے۔ اب نسل پرستی کی اصطلاح وسیع تر ہوکر “اپارٹ ہیڈ ” کی شکل میں پوری دنیا میں وسیع پیمانے پر انسانی معاشرے میں روا رکھی جانی والی تمام تر منافرتی رویّوں کے لئے استعمال کی جاتی ہے جس میں رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر کی جانے والی منافرت اور مذہب ، عقیدے اور فرقے کی بنیاد پر کی جانے والی منافرت بھی شامل ہے۔
اگر لغوی اور معنوی معنوں میں دیکھا جائے تو“اپارٹ ہیڈ ” کا مطلب ہی نسلی اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر اپنے سے علیحدہ رکھنا ، اپنے سے دور رکھنا ، امتیازی سلوک کرنا یا حقوق سے محروم رکھنا ہے۔ نسل پرستی اپنے وسیع تر معانی میں “اپارٹ ہیڈ” کی شکل میں پاکستانی معاشرے پر ایک بدنما داغ کی شکل میں موجود ہے۔
اگر تاریخی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کا وجود ہی “اپارٹ ہیڈ ریاست” یعنی مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ وطن کے قیام کے طور پر ہوا تھا۔ 1947 میں برّصغیر میں پاکستان کی شکل میں مسلم قومیت کی بنیاد پر خّطے کا بٹوارا ہوا ، جو کہ برّصغیر کا مذہبی منافرت کی بنیاد پر پہلا “اپارٹ ہیڈ” تھا۔ پاکستان اپنے وجود کے پہلے دن سے ہی رنگ و نسل اور زبان کی بنیاد پر تعصّب اور مذہبی بنیاد پر فرقہ وارانہ کشیدگی کا شکار رہا ہے۔
مشرقی پاکستان کے بنگالی جو کہ پاکستان میں عددی اکثریت کے علاوہ اپنی تہذیب ، ثقافت اور باقاعدہ لکھی، پڑھی اور بولی جانے والی زبان اور ورثہ کے مالک تھے ، ان کو جبری طور پر اقلّیتی آبادی کی زبان اردو کا پابند کرکے نہ صرف انکا تہذیبی اور ثقافتی استحصال کیا گیا۔ بلکہ 24 سال تک ان کے ساتھ نسلی منافرت کی بنیاد پر معاشی ، سماجی اور سیاسی استحصال کیا گیا۔
سنہ 1971 میں بنگالیوں کے خلاف ایک فوجی آپریشن کرکے باقاعدہ طور پر ایک منظّم منصوبے کے ذریعے بنگالیوں کی نسل کُشی کی گئی اور بالآخر مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہوکر بنگلہ دیش کی شکل میں وجود میں آگیا ۔ یہ نسلی منافرت اور زبان کی بنیاد پر پاکستان کا خالص اپنا پہلا خود کفیل “اپارٹ ہیڈ” تھا۔
پاکستان کا دوسرا “اپارٹ ہیڈ” لسّانی بنیاد پر 1973 میں ہوا جب پورے پاکستان میں صرف صوبہ سندھ کو دیہی اور شہری کی بنیادوں پر صرف اس لئے تقسیم کیا گیا کہ سندھ کے شہروں میں واضح طور پر ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے مسلمان مہاجر آباد ہوگئے تھے۔ اور مقامی سندھی آبادی دیہی علاقوں میں قیام پذیر تھی۔ 60 فیصد شہری آبادی کا کوٹہ 40 فیصد اور 40 فیصد دیہی آبادی کا کوٹہ 60 فیصد مقرّر کرکے اس ناانصافی کو آئینی تحفّظ بھی دے دیا گیا۔
پھر اس کے بعد پاکستان کا تیسرا “اپارٹ ہیڈ” مذہبی بنیادوں پر 1974 میں ہوا جب احمدی مسلمانوں کو باقاعدہ قانون سازی کرکے غیر مسلم اقلّیت قرار دے دیا گیا۔ اور اس مذہبی امتیاز کو بھی کوٹہ سسٹم کی طرح آئینی تحفّظ دیا گیا۔ اب نسلی منافرت اور زبان کی بنیاد پر پاکستان کا چوتھا “اپارٹ ہیڈ” صوبہ سندھ کی اردو بولنے والی شہری آبادی یعنی مہاجروں کے ساتھ جاری ہے، مہاجروں کو ان کے اپنے شہروں میں دوسرے درجے کا شہری بنادیا گیا ہے، قانون نافذ کرنے والے مہاجروں کے ساتھ کھلی نفرت اور تعصّب کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
حقوق مانگنے کی پاداش میں 1992 سے مہاجروں کے ساتھ بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، گذشتہ 23 سالوں میں 30 ہزار سے زیادہ مہاجر نوجوانوں کو غائب اور ماورائے عدالت قتل کیا جاچکا ہے، مہاجروں کی نمائندہ سیاسی جماعت کو بد ترین ریاستی تشدّد اور عتاب کا سامنا ہے، مہاجروں کو برملا دہشت گرد اور غدّار کہا جاتا ہے، میڈیا پر ان کی تذلیل کی جاتی ہے ان کی حب الوطنی پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور ایک منظّم منصوبے کے ذریعے مہاجروں کی کردار کشی اور نسل کشی کی جارہی ہے۔
پاکستان کا پانچواں” اپارٹ ہیڈ” شیعہ مسلمانوں کے ساتھ بھی شروع ہوگیا ہے، ریاستی سرپرستی میں اکثریتی فرقے کی مذہبی دہشت گرد تنظیمیں شیعہ مسلمانوں کی باقاعدہ ٹارگٹ اور ماس کلنگ کررہی ہیں، کوئٹہ کے ہزارہ شیعہ مذہبی فرقہ پرستوں کا خصوصی شکار ہیں اب تک ہزاروں کی تعداد میں شیعہ مارے جاچکے ہیں۔
پاکستان کا چھٹا “اپارٹ ہیڈ” توہینِ مذہب کے کالے قانون کے اطلاق اور غیر مسلموں کی جان و مال اور عزٗت اور آبروؤں کی پامالی کے حوالے سے جاری و ساری ہے ، ہندوؤں کے مندروں کو تخت و تاراج کیا جاتا ہے، ان کی لڑکیوں کو اغوا کرکے جبراً ان کو مسلمان کرکے ان سے شادیاں کرلی جاتی ہیں۔ ان کی چھوڑی ہوئی املاک پر قبضے کر لئے جاتے ہیں ، ان کو انڈیا نقل مکانی پر مجبور کیا جاتا ہے۔ عیسائی آبادیوں کو جلا کر خاکستر کردیا جاتا ہے، مسیحی جوڑے کو اینٹوں کے بھٹّے میں زندہ جلادیا جاتا ہے، احمدیوں کے قبرستانوں میں ان کے مردوں کی قبروں سے کتبے توڑ کر پھینک دئے جاتے ہیں، ان کے گھروں کا انسانوں سمیت جلا کر خاک کردیا جاتا ہے۔
پاکستان کا ساتواں “اپارٹ ہیڈ” بلوچستان میں بلوچ قوم پرستوں کے پراسرار اغوا اور گمشدگیاں ، پھر ویرانوں میں ان کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا، اور بلوچ آبادیوں پر ریاستی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے شب خون اور بلوچوں کی نسل کشی ہے۔ اب تک پچاس ہزار بلوچ مارے اور لاپتہ کئے جاچکے ہیں۔
پاکستان کا آٹھواں “اپارٹ ہیڈ” امریکہ سے پیسے لیکر روس کو گرانے کے لئے پٹھانوں کو نام نہاد افغان جہاد کے نام پر جنگ کی آگ میں دھکیلنا تھا۔ جس کے شعلے ابھی تک نہیں بجھے ہیں، اور اب طالبان کی شکل میں ایک اور عفریت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب میں دہشت گردوں کی بیخ کنی کی آڑ میں پشتون نسل کے لوگوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔
پاکستان میں نویں “اپارٹ ہیڈ” پر بھی کام شروع ہوگیا ہے، پرامن بوہری فرقہ کی عبادتگاہوں پر بم دھماکے شروع کردئے گئے ہیں، انتہائی پرامن کمیونٹی شیعہ اثناء عشری اسماعیلی خوجے جو کہ آغا خان کے پیروکار ہیں ان کی باقاعدہ ٹارگٹ کلنگ پر بھی کام شروع ہوچکا ہے۔
پاکستان کا دسواں “اپارٹ ہیڈ” یعنی صنفی امتیاز ، خواتین کے ساتھ ناروا سلوک، جسمانی و جنسی تشدّد، آبروریزی، جبری شادیاں، کاروکاری، قیامِ پاکستان کے وقت سے ہی جاری و ساری ہے۔ پاکستان میں اس مسلسل “اپارٹ ہیڈ “کے خاتمے کے لئے کسی نیلسن منڈیلا کی کوئی امید نہیں۔ اور یہ سیاستدانوں کے بس کی بات بھی نہیں ہے ۔
پاکستان سے اس اپارٹ ہیڈ یعنی نسلی اور مذہبی منافرت کی بنیاد پر کئے جانے والے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لئے سوِل سوسائٹی اور اہلِ علم و دانش کو کھڑا ہونا ہوگا، باشعور طبقے کو آگے آنا ہوگا اور ریاست کو باور کرانا ہوگا کہ ریاستی پالیسیاں نسلی ، مذہبی اور فرقہ وارانہ منافرت کو جنم دے رہی ہیں۔ ریاست کو اپنی اصلاح کرنا ہوگی ورنہ ٹوٹ کر بکھرنا، پاکستان کی اپارٹ ہیڈ (نسل پرست) ریاست کا مقدّرہے۔ وماعلینا الالبلاغ
♦
7 Comments