طاہر اشرفی: چپڑاسی سے شاہی خلعت تک

قاضی کریم احمد

آن لائن میگزین مکالمہ میں ایک مولوی صاحبزادہ ضیاء الرحمن ناصر نے اپنے پیٹی بھائی مولانا طاہر اشرفی کے کرتوت لکھے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر طاہر اشرفی کے عیوب صرف اس کی ذات تک محدود ہوتے تو واللہ میں اب بھی ان پر پردہ ڈالے رکھتا جس طرح اتنے سال پہلے بھی ڈالے رکھا لیکن اب وہ انٹرنیشنل فورمز پہ پاکستان کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے عالمی طاقتوں کا ایجنٹ بن چکا ہے اگر اب بھی خاموش رہا تو عنداللہ میں مجرم ہو ں گا اور نیز ایک مچھلی پورے جل کو گندا کرتی ہے۔

صاحبزادہ صاحب نے طاہر اشرفی کے کرتوت تو گنوا دیئے ہیں جو کہ ہم جیسے سیاسی کارکنو ں کے لیے نئے نہیں ہیں لیکن وہ یہ نہیں بتا سکے کہ طاہر اشرفی نے انٹرنیشنل فورمز پر پاکستان کو کیسے ذلیل کروایا ہے؟ کیا پاکستان کی پہلے سے کوئی عزت تھی جس کو انہوں نے داغ لگا یا ہے؟پاکستان تو اپنی ریاستی پالیسیوں کی وجہ سے پچھلی کئی دہائیوں سے ذلیل و خوار ہو رہا ہے۔ نام نہاد جہاد افغانستان کے دور میں ہیروئن کی سپلائی کی وجہ سے بدنام تھا اور اب دہشت گردوں کی حمایت کی وجہ سے بدنام ہے۔ اب اس میں ریاستی ایجنسیوں کا ایک تھرڈ کلاس مخبر کیا اضافہ کر سکتا ہے۔ 

صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں کہ طاہر اشرفی پہلے چپڑاسی بھرتی ہوا پھر گورنمنٹ سکول میں ٹیچر لگ گیا اور موصوف دنیا فتح کرنے کی امنگ دل میں لیے اپنے وقت کے مشہور ترین عالم اور خطیب پاکستان ( انہوں نے نام نہیں لکھا) کی چوکھٹ پر جا پہنچے۔ بار بار کی منتوں سماجتوں کے بعد خطیب پاکستان نے اپنے قریبی دوست عبداللہ ( یہ فرضی نام ہے) سے سفارش کی۔ عبداللہ صاحب راولپنڈی کے رہائشی ہیں اور ان کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے پوری پاکستانی ملٹری اور سول ایسٹیبلشمنٹ سے بہت ہی قریبی اور ذاتی تعلقات ہیں۔انہی عبداللہ صاحب نے طاہر اشرفی کو ’’خطیب پاکستان‘‘ کی سفارش پر خفیہ ایجنسی میں بطور مخبر بھرتی کروا دیا۔

صاحبزداہ صاحب ، طاہر اشرفی کے پول تو کھول رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ان کے اپنے پول بھی کھل رہے ہیں کیونکہ وہ خود کو بھی عبداللہ صاحب کا ذاتی اور قریبی دوست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹے والی سٹوری بھی انہوں نے ہی بتائی تھی۔قریبی دوست کی سمجھ تو آتی ہے ذاتی تعلقات کیا ہیں اس کی وضاحت نہیں کی۔عبداللہ صاحب کیا کرتے ہیں ان کے متعلق کچھ نہیں بتایا صرف اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ علماء اور ایجنسیوں کے درمیان دلال کا کردار ادا کرتے ہیں ۔ مولویوں کو مخبر بھرتی کراتے ہیں اور ایجنسیوں کی کہانیاں مولوی نما صحافیوں کو جاری کرتے ہیں۔ بقول صاحبزادہ صاحب، مجھے عبداللہ صاحب کی دوستی پر فخر ہے۔دیو بندیوں کے بعد اب بریلویوں کو بھی ریاستی اہل کاروں سے قریبی تعلقات کا شرف حاصل ہو گیا ہے۔

صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں کہ عبداللہ صاحب نے طاہر اشرفی کی ترقی میں کافی رول ادا کیا ہے انہیں ایک جگہ سے دوسری جگہ پرموٹ کرواتے رہے ہیں۔لیکن بیس پچیس سال بعد اب عبداللہ صاحب کو اس میں خرابیاں نظر آنی شروع ہو گئیں ہیں۔صاحبزادہ صاحب نے طاہر اشرفی کی جن عادات و حرکات کو ذکر کیا ہے وہ کبھی بھی ڈھکی چھپی نہیں رہیں۔ وہی شراب اورلڑکیوں کی سپلائی کی کہانیاں ہیں۔ انہوں نے کوئی نئی بات نہیں بتائی ۔طاہر اشرفی کا قصور اتنا ہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ عبداللہ صاحب کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔ اس لیے انہوں نے اپنے ایک اور ایجنٹ کے ذریعے اسے ’’بدنام‘‘ کرنے کی مہم شروع کی ہے۔ اب بندہ پوچھے کہ جو شخص پہلے ہی بدنام ہے اسے صاحبزادہ صاحب کی تحقیق کیا بگاڑ لے گی۔

صاحبزادہ صاحب لکھتے ہیں کہ خوشامد اور چاپلوسی موصوف کا طرہ امتیاز تھا اور ہے۔۔۔ اور انہی ہی خصوصیات اور خوبیوں کی بنا پر ترقی کی منزلیں طے کرتا ہوا ایک مخبر سے گورنر پنجاب کا ایڈوائزر لگ گیا۔ صاحبزادہ صاحب کو یا دوسرے لفظوں میں ان کے ذاتی اور قریبی دوست عبداللہ صاحب کو طاہر اشرفی کی بطور رکن اسلامی نظریاتی کونسل کی تقرری ہضم نہیں ہو رہی یہی وجہ ہے کہ عبداللہ صاحب نے حج پر جاتے ہوئے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کوکہا کہ آپ نے طاہر اشرفی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا ممبر ایک انتہائی کرپٹ ،زانی ، شرابی بلیک میلر انسان کو بنایا ہے آپ کا یہ گناہ معاف نہیں ہوگا۔ ۔

وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف نے عبداللہ صاحب کو جواب دیا کہ اس کا گناہ قمر الزماں کائرہ کے سر ہے جس نے انہیں اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بنوایا۔ اور قمر الزماں کائرہ کے مطابق اس گناہ کا ذمہ دار امتیاز عالم ہے۔ صاحبزادہ صاحب جو شخص اپنی خوبیوں اور خصوصیات کی بنا پر گورنر پنجاب کا ایڈوائزر لگا جاتا ہے وہ اپنی تقرری کے لیے صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کی سفارش کروائے گا؟ میرے خیال میں اصل دکھ یہ ہے کہ طاہر اشرفی کو اسلامی نظریاتی کونسل کا رکن بننے کے لیے خطیب پاکستان اور عبداللہ صاحب کے پیر پکڑنے چاہیے تھے اور ان کے احسانات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے تھا جو کہ اس نے نہیں کیا۔ 

صاحبزادہ صاحب نے ان کا ایک جرم یہ بھی بتایا ہے کہ وہ انٹرنیشنل فورمز پر اپنے آپ کو پورے پاکستان کے علما کا صدر یا چئیرمین بتلاتا ہے۔۔۔ آخر میں صاحبزادہ صاحب نے  خاموش وارننگ بھی جاری کی ہے کہ اگر اب بھی عبداللہ صاحب کے پاؤں نہ پکڑے تو دوسری قسط بھی آسکتی ہے۔

بہرحال میں صاحبزادہ صاحب کا مشکورہوں کہ انہوں نے طاہر اشرفی کے پردے میں تمام علماء برداری کو بے نقاب کیا ہے اور مُلا ملٹری گٹھ جوڑ کی ہلکی سی جھلک دکھائی دی ہے۔ کاش ان میں اتنی جرات ہوتی کہ وہ خطیب پاکستان اوردلال عبداللہ کا اصل نام بھی لکھ دیتے۔

صاحبزادہ ضیا الرحمن ناصر کی “تحقیق “درج ذیل لنک پر کلک کرکے پڑھی جا سکتی ہے۔

http://mukaalma.com/article/zianasir/1958

One Comment