بیبرگ بلوچ
جب سے بلوچستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوا ہے، تب سے بلوچستان کے وسائل لوٹے جا رہے ہیں۔ معدنی وسائل کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے انسانی وسائل بھی ریاست کے ہاتھوں محفوظ نہیں ہیں۔ بلوچستان کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک روا رکھا جا رہا ہے ،بلوچ عوام بے روزگاری اور استحصالی کے ایک طویل دور سے گزر رہے ہیں ۔ اسی لوٹ مار کی وجہ سے کئی لوگ نقل مکانی بھی کر چکے ہیں۔
اس ساری صورتحال کی ذمہ دار ریاست اور وہ نام نہاد قوم پرست پارٹیاں ہیں جو قوم پرستی کی آڑ میں پارلیمنٹ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ یہی پارٹیاں سیاست کو عوام تک منتقل ہونے سے روکنے کے لئے بی ایس او کو اپنے تابع بنانے کے لیے ہمیشہ کوشاں رہے ہیں، تاکہ بلوچ نوجوان بلوچستان کی وارث بننے کے بجائے ان پارٹیوں کی پاکٹ آرگنائزیشن کا کردار ادا کریں۔
نومبر1967 میں بی ایس او کا قیام عمل میں لایا گیا، یہ وہ سیاہ دور تھاجب تمام تر انسانی و جمہوری و قومی حقوق کو ایوب خان کی فوجی آمریت نے پاؤں تلے روند ڈالا تھا۔ قیام کے بعد سے لیکر آج تک بی ایس او کے اندر عروج و زوال آتے رہے ،کبھی انضمام تو کبھی علیحدہ، کبھی سرداروں کے ہاتھوں یرغمال تو کبھی اینٹی سردار کے نام پر بی ایس او کے لیڈر بھٹو کے قریبی ساتھی مانے جاتے تھے۔لیکن دوسری طرف کچھ نظریاتی اور فکری حوالے سے لیس ساتھی بھی بی ایس او کے اندر موجود تھے۔ انہی ساتھیوں نے بی ایس او کی اصل روح کو بحال کرنے کے لئے 2002میں سرداروں اور پارلیمانی جماعتوں کا بغل بچہ ہونے کے بجائے ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی سربراہی میں بی ایس او آزاد کے نام سے جدوجہد کا اعلان کیا۔
بی ایس او آزاد کے قیام کے بعد نوجوانوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی، اور بی ایس او کے باقی دھڑوں پر ان کے اندر سے بی ایس او آزاد میں ضم ہونے کے لئے دباؤ بڑھ گیا۔ بی ایس او آزاد دوسرے دھڑوں سے انضمام کے بعد بی ایس او متحدہ بن گئی۔ اور 2006کی کونسل سیشن نے اتفاق رائے سے تنظیم کے نام سے ’متحدہ ‘ کا لاحقہ نکال کر ’آزاد ‘ شامل کردیا۔
بی ایس او اپنی تعلیمی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل طے کرتے ہوئے قومی ذمہ داریاں بھی بڑے خلوص اور دلیرانہ انداز سے سر انجام دیتی رہی، اس طویل کٹھن اور مشکل راہ میں بی ایس او کے نظریاتی اور مخلص کارکنوں نے ظلم اور تشدد پر مبنی آمرانہ و سامراجی پالیسیوں کی پرواہ کیے بغیر اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ بلوچستان سمیت دنیا کی مظلوم قوموں کی جدوجہد میں انسانیت کی سر بلندی کے لئے اور قومی محکومیت کے خلاف ایک تاریخ رقم کی ہے ۔
چونکہ ریاست اور اس کی نام نہاد پارٹیوں کو بلوچ عوام کی سیاست میں شمولیت کسی صورت قبول نہیں، اس لئے عوام کو سیاست میں شامل ہونے سے روکنے کے لئے بی ایس او کے لئے زمین تنگ کرنے کی کوشش کی گئی ۔ 2007 کے بعد ریاست کی جانب سے بی ایس او آزاد کے خلاف باقاعدہ کریک ڈاوَن شروع ہوا، مرکزی سطح لے کر یونٹ سطح تنظیم کے کارکنوں کو اغواء کیا جا رہا ہے ۔ ان کی مسخ شدہ لاشیں پھینکی جا رہی ہیں یا ٹارگٹ کلنگ میں کارکنوں کو مارا جا رہا ہے۔لیکن ان تمام کریک ڈاؤن اور پابندیوں کے بعد بی ایس او آزاد نے ہمیشہ پر امن جدوجہد کو ترجیح دی ہے ۔ قلم کو اپناہتھیار اور کتاب کو اپنا راہشون مانا ہے۔ بی ایس او کے رہنماؤں نے آزادی و انقلاب کی جدوجہد میں کتاب اور قلم کی طاقت کو ہمیشہ اہم جانا ہے، ان لیڈروں میں سے ایک بی ایس او آزاد کے سابقہ چیئرمین زاہد بلوچ بھی ہیں۔
سنہ1983 کو نال خضدار میں الٰہی بخش کے گھر میں پیدا ہونے والا زاہد بلوچ 12 سال سے بی ایس او کے پلیٹ فارم سے طلباء سیاست سے وابستہ تھے ۔ وہ بی ایس او کے مختلف عہدوں پر اپنی سرگرمیاں جاری کرتے رہے۔ 2008 کو پہلی مرتبہ زاہد بلوچ مرکزی سطح پر بی ایس او آزاد کے مرکزی سیکرٹری جنرل منتخب ہو گئے، وہ کراچی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رہے تھے ۔ 2012 کی کونسل سیشن میں مرکزی چیئرمیں منتخب ہو کر بلوچ خان کے نام پر سامنے آئے۔ اس دوران تنظیم کے درجنوں کیڈر یا تو لاپتہ کیے گئے تھے، یا پھر اغواء بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوگئی تھیں۔ اس صورت حال کو مدنظر رکھ بی ایس او آزاد نے روایتی انداز سے ہٹ کر بی ایس او کو بلوچستان بھر میں فعال کرنے کا پروگرام بنایا، زاہد بلوچ کی سربراہی میں بی ایس او آزاد اپنے اس پروگرا م میں بڑی حد تک کامیاب ہو گئی۔
اپنے ایک انٹرویو میں زاہد بلوچ نے اپنے گمشدہ اور شہید ساتھیوں کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ اگر فورسز مجھے پکڑ لیں جس طرح کہ میرے دوستوں کو لاپتہ یا شہید کیا جا چکا ہے، اسی طرح وہ یہی عمل میرے ساتھ بھی دہرائیں گے۔
سیاسی جدوجہد کی پاداش میں18مارچ 2014کو بی ایس او آزاد کے متحرک چیئرمین زاہد بلوچ کو ریاستی سیکیورٹی ادارے کوئٹہ سے اغواء کرکے لے گئے۔ 18مارچ 2017کو چیئرمین کی گمشدگی کو تین سال مکمل ہورہے ہیں۔
زاہد بلوچ جو بحیثیت چیئرمین بی ایس او کو ایک مضبوط سیاسی قوت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے ۔ اس مقصد کے لئے زاہد بلوچ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ تنظیم کاری میں پیش پیش تھے۔ زاہد بلوچ یہی چاہتے تھے کہ ہمیں بحیثیت قوم ایک زندہ و تاریخی قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے اپنے قومی حقوق حاصل کرنے ہیں، ہماری سب سے بڑی ضرورت بی ایس او کے کارکنون کو متحد،منظم و متحرک کرنا ہے۔تا کہ قومی غلامی اور قومی جبر کا جو پھندہ ہمارے سروں پر لٹک رہا ہے اس سے نجات حاصل کی جا سکے ۔
زاہد بلوچ جو نوجوانوں کو متحد ہونے کا درس دیتا تھا، ان کی فکری اور نظریاتی حوالے سے تربیت کرنے پر زور دیتا تھا۔ چیئرمین ہمیشہ کہتے تھے کہ نوجوان صرف بلوچستان میں نہیں بلکہ پوری دنیا میں محکومی خلاف کمربستہ ہو جائیں۔وہ اپنا رول ماڈل ہوچی منہ اور لینن کو کہتے تھے اور بلوچ قوم کے اندر یوسف عزیز مگسی جیسے لوگوں سے متاثر تھے۔
ایک انٹرویو کے دوران چیئرمیں زائد بلوچ سے سوال کیا گیا کہ آپ بلوچ نوجوانوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔اس کے جواب میں زاہد بلوچ کہتے ہیں کہ ’’نوجوان انقلابی لٹریچر پڑھا کریں تاریخ و فلسفے کا مطالعہ کریں، مطالعے سے ہی وہ اپنی جدوجہد کو سمجھ سکتے ہیں ،مستقل مزاج ہو سکتے ہیں،ان میں قربانی کا جذبہ زیادہ ہو سکتا ہے۔
میں دوستوں سے یہی کہتا ہوں کہ وہ خود کو کتابوں سے دور نہ کریں اگر کتابوں سے دور رہیں گے تو کمزور ہو جائیں گے، انہیں کوئی بھی آسانی سے گمراہ کر سکتا ہے۔ اگر ہمارے دوست خود کو زندہ رکھنا چاہتے ہیں تو کتاب سے رہنمائی لیتے رہیں۔ ہمارے دوستوں کا دوست ہمیشہ کتاب رہیں ‘‘۔ زاہد بلوچ کے یہ تاریخی جملے ہیں کہ انہیں بلوچ نوجوانوں کو ہمیشہ اپنے پلو میں باندھنے کی ضرورت ہے۔
زاہد بلوچ جیسے نوجوان یقیناًقصور وار ہیں کہ وہ عام لوگوں کی حقوق اور آزادی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ نوجوانوں کو متحدہ ہونے، نظریاتی تعلیم حاصل کرنے کے لئے رہنمائی ہیں۔ بلوچستان میں حقوق کے لئے سیاست کرنا ایک جرم ہے اور اسی جرم کی پاداش میں زاہد بلوچ جیسے کئی نوجوان گمشدگی کا عذاب برداشت کررہے ہیں۔
♦