بالشویک انقلاب اور سو سال بعد کی دنیا 

پائند خان خروٹی 

بیسویں صدی کو انسانی ارتقاء وترقی کے حوالے سے غیر معمولی عروج و عظمت کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے ۔نسل انسانی کے مختلف شعبوں میں ترقی کے حوالے سے اسی شاندار عہد کا مشاہدہ کیا جائے تو یقیناً 1917 ء کا بالشویک انقلاب اسی صدی کاسب سے اہم واقع ہے اور تاریخ انسانی کا سب سے خوشگوار اشتراکی تجربہ ثابت ہوتا ہے ۔ سماجی سیاسی تاریخ میں اکتوبر انقلاب نے صدیوں سے جاری خرافات ، توہمات اور مفروضات کو یکسر تبدیل کرکے رکھ دیا۔ انسان پہلی بار اسی حقیقت سے آشنا ہوا کہ عام انسانوں کی خلقی قوت سے بڑی طاقت کوشکست سے دوچار کرسکتی ہے ۔اس کے علاوہ آفاقی اقتدار میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں رونما ہوئیں جو کسی بھی انقلاب کا اولین وصف ہوتا ہے ۔ ا نسان کے ہاتھوں انسان کے استحصال کاتصور واضح ہوکر سامنے آیا ا ور ہر قسم کے استحصال کی مخالفت آفاقی قدر کادرجہ اختیار کرگئی ۔ یہ انقلاب روس کاہی دین ہے کہ دنیا کو سامراجی اور استحصالی قوتوں سے نجات ملی ۔

انقلاب کسی قوم یاملک کے معروضی حالات کوتاریخی مادیت اور جدلیت کے تناظر میں سمجھنے، پر کھنے اور بدلنے کانام ہے ۔ انسان کو سمجھنے اور انسانی سماج کوبدلنے کے انقلابی مرحلے میں طاقتور سے طاقت چھین کر کمزور کودی جاتی ہے ۔یہیں سے معاشی آسودگی اور سیاسی آزادی کی نئی راہیں متعین ہونا شروع ہوتی ہے ۔ بالا دست طبقے کی مسلط کردہ معاشی غلامی ، سیاسی محکومی ، سماجی محرومی اور فکری پسماندگی کو ملیا میٹ کرنے کیلئے انسانی معاشرے کی عظیم اکثریت یعنی زیارکش طبقے کی شعوری شراکت اور شمولیت اشد ضروری ہے ۔ گویا سوشلسٹ انقلاب سائنسی نظریہ ،منظم انقلابی تنظیم ، خلق خدا سے جڑی ہوئی خلقی قیادت اور زیر دست طبقے کی شعوری اور مسلسل جدوجہد سے ہی برپا کیاجاسکتا ہے ۔بورژو اطبقے کے معدوم ہونے اور پرولتاریہ طبقے کے غالب آنے سے شاہ اور پرستوں کی بجائے جمہور کی حقیقی جمہوریت قائم ہوگی ۔

روس کے سیاسی باشعور لوگوں نے ایک انقلابی تنظیم ’’ رشین سول ڈیموکریٹک لیبر پارٹی‘‘ کی 1898ء باقاعدہ بنیاد رکھی ۔ لوگوں کے جوق در جوق اس انقلابی تنظیم میں شمولیت کی وجہ سے منشویک کے مقابلے میں بالشویک پارٹی یعنی اکثریتی پارٹی کانام دیا گیا ۔ اس سیاسی تنظیم کوانقلابی کردار اور انقلابی قائد ولاد میرلینن (1870-1924)اور ان کی سربراہی میں کامریڈوں کا انقلابی مبارزہ کارل مارکس(1818-1883)اور فیڈرک اینگلز(1820-1895) کی اشترا کی تعلیمات کو جاننے بغیر نہیں سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ یہ مارکسی تعلیمات کا منطقی تسلسل ہے ۔ تمام مارکسی اہل دانش وبینش میں ایک وصف یکساں پایاجاتا ہے کہ وہ ذاتی ملکیتکو انسانی معاشرے میں شر وفساد کی جڑ قرار دیتے ہیں جس نے پاک اور نیک انسان کو لالچی اور خود غرض بنادیا۔ ہوس اور لالچ نے انسان کو اندھا بنا کر سب کچھ بٹورنے اور ڈکارنہ لینے پر اُکسایا ہے ۔

جبر واستحصال کایہ سلسلہ جن کی ابتداء’’ میں اور میرا‘‘ سے شروع ہوا اور بالا آخر وطنی ریاست کے وجود پر آپہنچا ۔ پہلے سرمایہ اور جاگیر بنانے کی ہوس نے انسان کو اجتماعی وسائل پرقبضہ جمانے پر اُکسایا جس نے انسانی معاشرے میں ظلم ، جبر، استحصال اور دوسرے انسانوں کو غلام رکھنے کی داغ بیل ڈالی ۔ جبر واستحصال کے پروان چڑھنے سے دو مختلف قسم کے طبقات نمودار ہوئے ۔ ایک ذرائع پیداوار پر قابض بالا دست طبقہ ہے جو جبر وظلم کادفاع کرتا ہے ، مزدوروں کی محنت چھینتا ہے اور کسانوں کاخون چُوستا ہے ۔ دوسرا جبر واستحصال کا شکار محروم اور محکوم طبقہ ہے جو نجات حاصل کرنے کیلئے انقلابی جدوجہد کرنے پر مجبور ہے ۔ان دونوں طبقوں کے درمیان زبردست کشمکش جاری ہے اور ریاست اس طبقاتی کشمکش کی پیداوار سے وجود میںآئی ہے ۔ واضح رہے کہ اشتراکی تعلیمات کے نقطہ نظر سے ریاست کاوجودہی ایلیٹ کلاس کے منافع اورتسلط قائم رکھنے کو دوام بخشتا ہے ۔ دو متضاد طبقوں کے درمیان ’’ یہ تصادم تصورات میں نہیں جن میں انسان زندگی بسر کرتا ہے بلکہ مادی عوامل اور قوتوں میں ہوتا ہے اور تصورات ان ہی مادی حالات کی پیدوار ہیں ‘‘۔(1)۔

انسانی تاریخ کی ورق گردانی سے معلوم ہوتا ہے کہ قدیم اشتمالیت سے لیکر موجودہ سرمایہ دارانہ نظام کے عروج تک محروم اور محکوم طبقات کے استحصال عناصر کے خلاف جدوجہد کرنے کے بے شمار واقعات موجود ہیں ۔ سوشلست انقلاب کی تحریک کی آبیاری محنت کشوں اور کسانوں نے اپنے خون جگر سے کی ۔ دنیا بھر کے زیارکشوں کی مسلح اور غیر مسلح جدوجہد کی داستانیں کہیں مبہم اور کہیں واضح رقم ہوئی ہیں ۔ اس کے علاوہ اہل علم وقلم کاطبقات سے پاک انسانی معاشرے کے تصوراتی خاکے بھی پیش کیے گئے ہیں مگر انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ عظیم اشتراکی مفکرین کارلمارکس اورفریڈرک اینگلز نے یونانی فلاسفر افلاطون کی مثالی ریاست(دی ریپبلک)کو عملی شکل دینے ، تھامس مور کے سنہرے تخیل(یوٹوپیا) کوحقیقت کاروپ دینے ا ور اطالوی باغی مفکر کمپانیلا کے شہر آفتاب کو نئی صبح طلوع ہونے کی نوید دی ۔

دنیا بھر کے زیار کشوں کی بائبل ’’داس کیپٹل ‘‘ ، ’’ مینی فیسٹوآف کمیونسٹ پارٹی‘، ’’انگلستان کے مزدور طبقے کے احوال ‘‘، اور ’’خاندان ذاتی ملکیت اور ریاست کاآغاز‘‘ وغیرہ وہ شاہکار کتابیں ہیں جن کی بدولت تمام بنی نوع انسان کی حقیقی آزادی اور ترقی پرولتاریہ کی شعوری جدوجہد سے مشروط ہوگئی ۔ دنیا بھر کے زیارکشوں کی رہنمائی کیلئے تاریخ میں پہلے مرتبہ پرولتاریہ کے تاریخی کردار کوواضح کرنے اور قدر زائد (سرپلس) کاانکشاف کرنے کے ساتھ ساتھ جدلیاتی اور مادی نظریے کو مثالیت کے مقابلے میں مضبوط اور مستحکم بنیادوں پر کھڑا کیا جس کو مارکس نے جارج ہیگل کو سر کی بجائے اپنے پاؤں پر کھڑا کرنا گردانا ہے ۔

اگرچہ ان عہد آفرین کتابوں کے ترجمے شرق سے غرب تک تمام بڑی زبانوں میں ہوئے ہیں لیکن داس کیپٹل یعنی سرمایہ کاپہلا ترجمے کاسہرا روسی زبان کے علم وادب کے سر ہے اور حیران کُن طور پر سرمایہ کی تین ہزار کاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں ۔ واضح رہے کہ مارکس اور اینگلز نہ صرف روس کے معاشی اور سیاسی حالات سے مکمل آگاہی رکھتے تھے بلکہ روسی زبان وادب پر خوب دسترس بھی رکھتے تھے ۔

مارکسی دانشور علی عباس جلالپوری نے کارل مارکس کی انقلاب روس سے متعلق پیش بینی جو بعد میں درست بھی ثابت ہوئے کو ان الفاظ میں بھی بیان کیا ہے ۔’’ روس کی ایک انقلابی خاتون ویرازاسولچ جورجعت پسندوں پر قاتلانہ حملے کرنے میں ہمیشہ مستعد ر ہتی تھی ، کارل مارکس کو خط میں لکھا کہ غالباً آپ کو روس کے زرعی مسائل اور کسانوں کی کمیون سے کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ مارکس نے اس کی غلط فہمی کاازالہ کرتے ہوئے لکھا کہ مجھے کسانوں کی تحریک سے پوری ہمدردی ہے اور مجھے امید ہے کہ انقلاب کی شروعات روس ہی سے ہوگی ‘‘(2)۔

یورپی ایشیائی ملک روس پر تقریباً تین سوسال تک ایک ہی رومانوف خاندان کی بادشاہت مسلط تھی ۔ روسی بادشاہت کے لئے لقب زاراستعمال ہوتا تھا ۔ زرا شاہی کی توسیع پسندانہ عزائم نے اپنی فوج اور عوام کو کئی بار برطانیہ ، جاپان ، فرانس اور جرمنی وغیرہ کے ساتھ مختلف جنگوں کی آگ میں دھکیلا جس سے پورے ملک میں معاشی بدحالی پیدا ہوئی ۔ نہتے روسی عوام پر اپنا تسلط قائم رکھنے کیلئے شاہ پرستوں اور رجعتی قوتوں کے ذریعے ہر قسم کے حربے اور ہتھکنڈے استعمال کیے ۔

غریب کسان بے چارے زار روس کے حامی بڑے زمینداروں کے ہاتھوں یرغمال تھے ۔ عوام پر علم وشعور کے دروازے بند رکھنے کی وجہ سے ہر طرف جہالت کاراج تھا ۔ شاہ اور شاہ پرستوں کی ہربات غریب اور مظلوم عوام کیلئے حکم درجہ رکھتی تھی ۔ ویسے بھی روس براعظم یورپ کے دیگر ممالک کے مقابلے میں پسماندہ تھا مگر زارا شاہی کے ظلم اور استحصال نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی جس سے بغاوت اورخانہ جنگی کاخدشہ پیدا ہوا ۔ حکومت کی جانب سے عوام کو سبز باغ دکھانے کیلئے اصلاحات نافذ کیں مگر حکومتی اصلاحات بھی بے اثر رہیں ۔’’1894 ء میں زار نکولس دوئم تخت نشین ہوا اس کے زمانے میں حالات بد سے بد تر ہوگئے ۔ بد اعمال لوگ حکومت کے سیاہ وسفید کے مالک بن گئے ، بے ایمانی اور رشوت ستانی عام ہوگئی جس سے عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ‘‘(3)۔

روس کے سیاسی دانشور ، ادباء اور شعراء نہ صر ف سیاسی ومعاشی حالات سے خبردار تھے بلکہ انقلابی نظریے اور انقلابی قائدین کی رہنمائی میں ان خونی مناظر اور کٹھن حالات کاجرآت اور حوصلے سے مقابلے کرتے رہے ۔ روس کے اہل علم ودانش نے بیک وقت مختلف محاذوں پر شاہ اور شاہ پرستوں کوزمین بو س کرنے اور اجتماعی احساس جگا نے کیلئے ہرعوامی فورم کابھرپور فائدہ اٹھا یا ۔ خلق خدا سے جڑی ہوئی خلقی قیادت کی بصیرت کی وجہ سے سیاست ، ادب ، صحافت ، تھیٹر اور فنون لطیفہ سمیت ہر افق پر انقلابی اُبھرے ۔ پروفیسر کریسٹو فر نے اس انقلابی دورانیہ کو ان الفاظ سے نوازا:۔
“With in this rather loose framework a hundred flowers bloomed”(4)

انقلابی علم وشعور کے میناروں کی انتھک کاوشوں اورعوامی تنقیدی شعور کی بدولت زارشاہی کے آخری بادشاہ زارنکولس اور اس کے درباریوں پر مسلسل زمین تنگ ہوتی جارہی تھی ۔ ذہن نشین رہے کہ زیارکشوں کی تحریک کے سرخیل ولاد میر لینن اور علمی اور عملی سوشلزم کے پیکر تھے ۔ ’’انہوں نے مزدوروں کی بین الاقوامی اتحاد کیلئے عوام کو’’ روسی متحد ہوں‘‘ کی بجائے ‘‘ دنیابھر کے مزدور متحد ہوں‘‘ کانعرہ دیا ۔ اس صدی میں ولاد میرلینن سب سے بڑے عملی اور نہایت بے غرض انسان تھے ‘‘(5)۔

روس کے اہل علم ودانش نے جب مارکس اور اینگلز کے انقلابی نظریے کے ساتھ علمی اور عملی ہم آہنگی پیدا کی تو وہ تھیو کریسی سے پرولتاریہ ڈیموکریسی اور علاقائیت سے آفاقیت کی جانب گامزن ہوئے ۔ولاد میرلینن ، جوزیف اسٹالن ، میکسم گور کی ، لیون ٹراٹسکی ، وزیر تعلیم لونا چارسکی ، چیخوف ، الیگزینڈر کرینسکی ، میخائل شولوخوف ، فیوچرسٹ ولاد میر مائیکو وسکی وغیرہ جو ابتداء میں جرمن اورفرانس وغیرہ سے فکر ی روشنی لیتے تھے بعد ازا ں وہ خود پوری دنیا کے لئے جدید ترین سیاسی ، سائنسی ، علمی اور ادبی رجحانات متعارف کرانے کے حقیقی وارث بن گئے ۔

سردست انقلابیوں کے مطبوعہ آثار سے متعلق اپنے قارئین کو ایک بات بتانا ضروری سمجھتا ہو ں کہ صرف ولاد میر لینن کی تصنیفات ا ور تالیفات پچپن جلدوں پر مشتمل ہیں اور ہر جلد کئی کتابوں کامجموعہ ہے ۔ بعد ازاں آج تک براعظم یورپ میں کوئی بھی دونوں معیار اور مقدار کے حوالے سے ان کی بسیار نویسی تک نہ پہنچ سکا ۔ اس انقلابی سیاسی وفکر ی کاروان کی رفتار شاہ اور شاہ پرستوں کی تشکیل کردہ ڈومااور خونی اتوار بھی مدھم نہ کرسکے ۔ وہ عزم مصمم کے ساتھ مرحلہ وار آگے بڑھتے رہے اور اکتوبر1917 ء کو زار شاہی بمعہ وائٹ گارڈز کوز مین بوس کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

انقلاب روس کے انقلابی واقعات کے چشم دید گواہ اور ’’دنیا کوجھجنوڑ دینے والے دس دن‘‘ کے مصنف جان ریڈ نے بجا طور پر اس کو انسانی تاریخ کا ایک عظیم واقعہ قرار دیا ۔ اس سے پوری دنیا میں ذکر کرنے والوں کے مقابلے میں فکر اور عمل کرنے والوں کی عظمت میں اضافہ ہوا اور فضائل اعمال کی بجائے مسائل اعمال کواجاگر کرنے والے غالب آئے ۔ اس انقلابی تحریک کی بدولت مطالعہ ، مارکسی تنقید ، تحقیق ،تخلیق اور کتا ب بینی کارجحان پودنیا میں روس ہی میں سب سے زیادہ رہا اور روس یورپ کاپسماندہ ترین ملک ہونے کے باوجود خلا ء کی تسخیر کاپیش رُو ثابت ہوا ۔

روسی زبان وادب کی تاریخ بہت طویل ہے ۔ چار ادبی ادوار رکھنے والے روسی زبان ترقی پسند ادب کے دورکے اہل علم وقلم ہی عالمی افق پر بہت مقبولیت رکھتے ہیں ۔ روسی اہل علم وادب کی گراں قدر خدمات وکارناموں کے حوالے سے چند اشخاص کاذکر نہ کرنا ناانصافی ہوگی ۔ا گرچہ ان کا بالشویک انقلاب سے براہ راست تعلق تو نہیں مگر علم وادب کے حوالے سے خاص کر روسی انارکسٹ ، میخائل بارکونن ، کروپتکن اور لینن کے بڑے بھائی الیگزینڈ رآلیانوف کی خدمات اور قربانی قابل ستائش ہے ۔اس کے علاوہ روسی قومی شاعر الیگزینڈر پوشکین ، پلیخانوف، فیودرد ستوئیفسکی ، نکولی گو گول ، آئیون ترگنیف ، آئیون گونچاروف ، الیگزینڈر اوتروسکی اور مذہبی انارکسٹ لیون ٹالسٹائی اپنے بلند افکار وخیالات کی وجہ سے عالمی وادبی افق پر جلوہ گر ہیں ۔ انقلاب روس کے حوالے سے انقلابی پریس جس میں ’’اسکرا‘‘ (چنگاری) ، ’’سوشل ڈیموکریٹ‘‘ ، ’’پرولتاریہ ‘‘ اور ’’پراؤدا‘‘(سچ) کی خدمات کے بھی فعال اور موثر اثرات ہیں ۔

سابق سوویت یونین کے انہدام کے موقع پر سامراجی قوتوں کے سرخیل امریکہ کے صدر سینئر جارج بش نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ سرمایہ داری کوسوشلزم پر فتح حاصل ہوگئی اور انسانی تاریخ مکمل ہوگئی اور اب دنیا کی قیادت کرنے والا واحد اہل ملک امریکہ ہے ۔ یہ تمام مفروضات چند برسوں میں ہوا ہوگئے ا ور 2008ء میں سرمایہ دارانہ نظام میں پیدا ہونے والے شدید معاشی بحران نے ان کے تمام دعوؤں کی پول کھول دی ۔ آج عالمی معاشرے میں جو تضادات موجود ہیں ان کے مطابق امریکی سامراج اسی کے اتحادی اور نوآبادیاتی باقیات ایک طرف صف بند ہوکر ترقی پذیر ملکوں کے غریب عوام پر حملہ آور ہورہے ہیں۔

دوسری جانب روس چین محور دنیا کو ایک متبادل عالمی نظام دینے کیلئے کوشاں نظرآرہے ہیں ۔دنیا کی محکوم اور غلام قوموں کو غلامی سے نجات دلانے والاروس وہی ملک ہے جس کی تباہی پر چند سال قبل سامراجی قوتیں اوران کے بغل بچے جشن منا رہے تھے اور اعلان کررہے تھے کہ اب ان کے مقابلے میں کوئی قوت نہیں رہی ۔آج دنیا نے مشاہدہ کیا کہ طاقت کاتوازن مغرب سے مشرق اور جنوب سے شمال کی جانب منتقل ہورہا ہے ۔ قوت کے توازن کی منتقلی سامراج حکمرانوں کو قبول نہیں اور اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے دنیا کو ایک بار پھر ایک بڑی جنگ میں دھکیلنے کیلئے بضد ہیں ۔ اس میں ان کے روایتی گماشتے ، عر ب باشاہتیں اور مسلمان مذہبی قوتیں بطور ایندھن استعمال ہورہے ہیں ۔

حالات کاتقاضہ ہے کہ حقیقی ترقی پسند قوتیں ولاد میر لینن اورچیئرمین ماؤ کی طرح کتابوں سے باہر نکل کر حقائق کاسائنسی تجزیہ کرکے اور معاشرے کی ٹھوس سچائیوں کے مطابق اعلیٰ آفاقی علوم کاتخلیقی اطلاق کریں اور انسانیت کو معاشی غلامی ،سیاسی عدم استحکام ، دہشت اور وحشت پر مبنی پر ذہنیت سے نجات دلائیں ۔ایشیاء، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک بھی استحصالی اور سامراجی معاشی غنڈوں کو خلقی رنگ میں بدلنے اور جمہو ری بنیادوں پر تعمیر خلق کو یقینی بنا نے کیلئے بے چینی سے منتظر ہیں ۔ 

حوالہ جات:۔
۔1۔ الا سلام ،پروفیسر سراج ، جدید تاریخ یورپ، ناشر طاہر سنز کراچی، 1996ص384
۔2۔ جلالپوری ، علی عباس، تاریخ کانیا موڑ ، ناشر تخلیقات لاہور ، 2013،ص 67-68
۔3۔ الاسلام ،پروفیسر سراج ، جدید تاریخ یورپ، ناشر طاہر سنز کراچی ،1996 ،ص385
۔4 ۔ پروفیسر کرسٹو فرریڈ ، تحقیقی مقالہ،Russian Intelligentsia & Bolshevik Revolution 1984
۔5۔ نہرو ، جواہرلال ، سیاحت روس ، دوسرا ایڈیشن ، ناشر پورب اکادمی اسلام آباد،2005 ،ص49

3 Comments