مسلمانوں کی پسماندہ قیادت

ظفر آغا

اتر پردیش میں ان دنوں گاؤ کشی روکو مہم کی آڑ میں مسلم کشی مہم زوروشور پر ہے۔ ابھی دو دن قبل میرٹھ سے میرے پاس میرے ایک عزیز کا فون آیا اور انہوں نے کہا کہ بھائی اب کیا ہوگا، ہم کہاں جائیں، کیا کریں؟ میں نے دریافت کیا خیرتو ہے، کیا بات ہوگئی۔ وہ بولے میرٹھ میں دو ہفتے سے زیادہ گزر گئے بڑے کا گوشت تو درکنار کسی قسم کا گوشت نہیں مل رہا ہے۔ حد یہ ہے کہ مرغ بیچنے والوں کی دکانات بھی بند پڑی ہیں۔

میں نے ان سے کہا کہ بھائی پھر سبزی کھانے میں کیا حرج ہے، وہ بولے کوئی حرج نہیں، ہم اتنے دنوں سے یہی کررہے ہیں۔ لیکن ہم کو تو یہ بھی معلوم نہیں کہ ہم اپنے گھروں میں بھی محفوظ ہیں کہ نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ گوشت کی دکانات پر تو یوگی حکومت کے پہلے دن سے ہی حملے شروع ہوگئے تھے مگر اب تو لوجہاد والے گھر میں گھس کر مسلم لڑکے، لڑکیوں کو سڑک پر کھینچ کر بے حرمت کررہے ہیں۔ ان حالات میں کہاں جائیں، کیا کریں کچھ سمجھ میں نہیں آتا۔ اس بات چیت کو چند گھنٹے گزرے نہیں تھے کہ میرے آبائی وطن الہ آباد سے میری بہن کا فون آیا اور انہوں نے بھی الہ آباد میں ایک گوشت کی دکان پر حملے کی خبردی۔

الغرض، اتر پردیش میں جہاں بھی مسلمانوں سے گفتگو کرو وہاں سے یہی خبر آتی ہے کہ گوشت مہیا نہیں اور ساتھ ہی جان و مال کی بھی خیر نہیں۔ اس کو مسلم کشی نہیں تو اور کیا کہا جائے گا؟ اور یہ محض اترپردیش ہی نہیں بلکہ کبھی مدھیہ پردیش تو کبھی راجستھان اور کبھی ہریانہ و مہاراشٹرا جیسی تمام بی جے پی اقتدار والی ریاستوں کا یہی حال ہے اور کیوں نہ ہو کیونکہ یہ سب ایک منظم پالیسی کے تحت ہورہا ہے۔ اس پالیسی کا مقصد ہندوستانی مسلمان کو صرف دوسرے درجہ کا شہری بنانا ہی نہیں بلکہ اس کو یہ احساس دلانا ہے کہ تم ہمارے غلام ہو، کیونکہ غلام کی یہی حیثیت ہوتی ہے کہ وہ نہ تو اپنی مرضی سے کھا پی سکتا ہے اور نہ ہی اپنی مرضی سے وہ اپنے ازدواجی رشتے قائم رکھ سکتا ہے کیونکہ سنگھ کا یہی مقصد تھا کہ مسلمانوں کو دوسرے درجہ کا شہری بنایا جائے۔

سنہ 1992 میں بابری مسجد انہدام سے لیکر گاؤکشی بند کرو مہم تک مسلسل سنگھ اسی پروگرام کو لاگو کرتی چلی آرہی ہے۔ بابری مسجد شہید کرکے وہاں رام مندر بنوانے کی مہم کے ذریعہ یہ سبق دیا گیا کہ یہ ملک ہندوؤں کا ہے ۔ ممبئی اور گجرات فسادات میں ہزاروں مسلمانوں کی مسلم کشی کرواکر یہ بتایا گیا کہ اب تمہاری زندگی بھی تمہارے ہاتھوں میں نہیں ہے۔ جب اترپردیش میں نئے ہندو ہردے سمراٹ یوگی آدتیہ ناتھ اقتدار میں آئے ہیں تب سے مسلمانوں کو یہ بھی بتادیا گیا کہ تمہارا کھانا پینا بھی ہماری مرضی کے بغیر نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کو غلامی نہیں تو اور کیا کہا جائے گا۔؟

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ چہارسو سناٹا چھایا ہوا ہے۔ اس سیکولر ہندوستان میں کھلے عام آئین کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور کہیں کوئی احتجاج نہیں ہے اور سیکولر پارٹیاں سکتہ میں ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر خبر شائع ہونے پر حرکت میں آنے والا سپریم کورٹ اس معاملہ میں محض خانہ پوشی سے زیادہ کچھ نہیں کررہا ہے۔ میڈیا تو پہلے ہی سنگھ کی بنسی بجارہا تھا، بھلا اس کو ان باتوں پر کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ اب اس ملک کی اقلیتیں جائیں توجائیں کہاں، دروازہ کھٹکھٹائیں تو کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں!خود کو مسلم قائد کہنے والے اور ذرا ذرا سی بات پر شرعی حکم صادر کرنے والے مسلم علماء بھی خاموش ہیں۔

دہلی کے سیاسی حلقوں میں آئے دن فتوے صادر کرنے والے علماء کے بارے میں مستحکم خبریں ہیں کہ ان میں سے زیادہ تر کسی نہ کسی بی جے پی وزیر یا بی جے پی لیڈر کے دروازوں پر کچھ حاصل کرنے کیلئے چکر لگارہے ہیں۔ تب ہی تو اس قسم کی خود ساختہ مسلم لیڈر شپ یا تو چناؤ مہم میں کسی نہ کسی بہانے مسلم ووٹ کو بانٹنے میں مصروف نظر آتی ہے اور کچھ اویسی جیسے اس قسم کی جذباتی تقریرکرتے ہیں کہ ادھر ہندو اکٹھا ہوکر بی جے پی کے حق میں ووٹ ڈال دیں۔

ان حالات میں حیران و پریشان ہندوستانی مسلمان خوف کی زندگی جی رہا ہے۔ اس کو اب ایک نئے اچھوت کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ جہاں وہ ملک کی اکثریت کے رحم و کرم پر جی رہا ہے ۔ آخریہ غلامی کب تک، یہ سِسک سِسک کر جینا کب تک۔؟ یاد رکھیئے کہ اپنی تمام تر سیاسی ریشہ دوانیوں کے باوجود ہندوستان ایک عظیم الشان ملک ہے اور اس ملک کے آئین نے مسلمانوں او ر دیگر اقلیتوں کو جو حقوق دیئے ہیں وہ حقوق زیادہ تر مسلم ممالک میں مسلمانوں کو بھی حاصل نہیں ہیں۔

اس لئے اب صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ راستہ ہے پرامن طریقہ سے اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے کاطریقہ۔ لیکن یہ کیسے ہو، مسلمانوں کے پاس کوئی ایک معقول تنظیم نہیں ہے۔ جماعت، جمعیت ، بورڈ اور مشاورت جیسی تنظیموں نے مسلمانوں کو کہیں کا نہیں رکھا۔ پھر مسلم لیڈر شپ قدامت پسندی میں ڈوبی ہوئی ہے جس کے پاس کوئی جدید بصیرت نہیں ہے۔ ان حالات میں ہو تو کیا ہو۔ آخر تیزی سے غلامی کی طرف بڑھتی ہندوستانی مسلم قوم اپنی آزادی اور حرمت کیلئے کرے تو کیا کرے۔؟


اپنے آئینی حقوق حاصل کرنے کیلئے ایک پُرامن جدوجہد کی شروعات ہو، اس کے لئے ایک نئے پلیٹ فارم اور جدید بصیرت والی ایک نئی مسلم لیڈر شپ کی ضرورت ہے۔ اگر اس ملک میں مسلم کشی مہم پر روک لگانی ہے تو پھر اب ہاتھ پر ہاتھ دھرے رہنے سے کچھ ہونے والا نہیں، اُٹھیئے اور اپنے پیروں میں تنگ ہوتی زنجیروں کو آئینی حدوں کے اندر رہ کر توڑ دیجئے۔

Comments are closed.