نبیل انور ڈھکو
یہ اگست2012 کا حبس زدہ دن تھا۔ تلہ گنگ تحصیل کے گاوں چنجی کے رہائشی غلام علی اصغر کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج چکوال کی عدالت میں پیش کیا گیا تھا۔ اصغر پر توہین مذہب کا الزام تھا ۔ عدالت میں موجود اس کی بیوی اور بیٹی پیش آمدہ خوف اور اندیشوں کی بنا پر مسلسل رو رہی تھیں ۔
عدالت نے اصغر کو دس سال کی سزا کا حکم سنا یا لیکن لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ نے 18 دسمبر 2015 کو مقدمہ سے بری کرتے ہوئے اس کو رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ ملزم کو محض ایک حدیث بیان کرنے پر اس مقدمہ میں ملوث کیا گیا تھا۔
پانچ سال بعد جب اصغر جیل سے باہر آیا تو وہ گاؤں جہاں وہ پیدا ہوا ، پلا بڑھا اور زندگی کا بڑا حصہ گذارا ، اس کے لئے اجنبی بن چکا تھا۔ اس کا اپنا گاؤں اس کے لئے نو گو ایریا بن گیا تھا اور اس کے لئے اب وہاں جانا ممکن نہیں تھا۔ اس کی بیوی اور بیٹی اس کو چھوڑ کر جاچکی تھیں۔ مقامی مولویوں نے ان دونوں کو یہ باور کرادیا تھا کہ اصغر توہین مذہب کا مرتکب ہوا ہے۔
اس کا بھائی جس نے اس کے مقدمہ کی پیروی کی تھی قتل کے ایک جھوٹے مقدمہ میں جیل میں تھا۔ اس پر الزام تھا کہ اس نے مبینہ طور پر اہل سنت و الجماعت کے ایک مقامی رہنما کو قتل کردیا تھا ۔ یہی وہی رہنما تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ اس نے اصغر کو توہین مذہب کے مقدمے میں ملوث کرانے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔
’مقامی مولویوں نے مجھے مجرم قرار دے دیا تھا ‘۔اصغر نے مقدمہ کے بارے میں اپنی یادداشتوں کو کریدتے کرتے ہوئے کہا ۔مجھے قتل کرنے کا فتوی جار ی کر دیا گیا تھا۔ اہل دیہہ نے ہمارا سماجی با ئیکاٹ اورمقامی دوکانداروں نے مجھے اور میرے خاندان کو روزمرہ ضروریات کی اشیا فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ مقامی گرلز سکول کی بچیوں کو وارننگ دی گئی تھی کہ وہ میری بیٹی جو اس وقت نویں جماعت کی طالبہ تھی کے ساتھ بالکل بات چیت نہ کریں ۔
مقدمہ کا ٹرائل تلہ گنگ میں نہیں ہوسکتا تھا کیونکہ جس دن عدالت میں پیشی ہوتی سینکڑوں مولوی اپنے حواریوں کے غول لے کر عدالت میں پہنچ جاتے جس کی وجہ سے جج خوف زدہ ہوجاتا اور بغیر کسی کاروائی کے کیس آیندہ تاریخ پر ملتوی ہوجاتا۔ مولویوں کے دباؤ اور خوف کی بنا پر مقدمہ چکوال منتقل کر دیا گیا لیکن وہاں بھی تجربہ تلہ گنگ سے مختلف نہیں تھا ۔
اکتوبر 2012میں چکوال کے جج نے لاہور ہائی کورٹ کو خط لکھ کر درخواست کی کہ مقدمہ کسی دوسرے ضلع میں منتقل کیا جائے لیکن ہائی کورٹ نے یہ درخواست مسترد کر دی اور حکم دیا کہ مقدمہ کا میرٹ پر فیصلہ کیا جائے۔ اصغر نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کیا لیکن 8 جنوری 2013 کو ایڈیشنل سیشن جج نے اسے295-اے تعزیرات پاکستان کے تحت دس سال سزا کا حکم سنا دیا جب کہ 295سی اور 298 اے ،ت پ کے تحت الزامات سے بری کردیا ۔
مقامی مولوی اس فیصلے سے مطمئن نہیں تھے چنانچہ مستغیث نے سیشن عدالت کے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی بنچ میں اپیل دائر کر دی ۔اپیل میں اصغر کو 295 سی ت پ کے تحت سزائے موت دینے کی درخواست کی گئی تھی ۔ ہائی کورٹ میں یہ اپنی نوعیت کی پہلی اپیل تھی۔ قبل ازیں ایسی کوئی اپیل کسی عدالت میں دائر نہیں ہوئی تھی۔
اصغر نے بھی اپنی سزا کے خلاف اپیل دائیر کی اور 18 دسمبر 2015 کو ہائی کورٹ نے اصغر کو بری کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دے دیا ۔اصغر کی رہائی کو پندرہ ماہ ہوچکے ہیں لیکن وہ اب بھی خوف زدہ ہے اور خود کو غیرمحفوظ سمجھتا ہے۔میں ’اپنے گاؤں جاتے ہوئے ڈرتا ہوں ‘۔ اصغر نے بتایا۔ ’مجھے گاؤں میں اپنی ررعی زمین فروخت کرنا پڑی اور میں ایک ایسی جگہ پر قیام پذیر ہوں جس کا پتہ میں کسی نہیں بتا سکتا ‘۔
اصغراب اپنے گاؤں سے دور کرائے کے مکان میں رہتا ہے۔’ مجھے توہین مذہب کے جھوٹے مقدمہ میں ملوث کیا گیا جس نے نہ صرف میری زندگی بلکہ میرے خاندان کو بھی تباہ و برباد کر دیا ‘۔اصغر کا اس وقت سب سے بڑا مسئلہ اس کا چھوٹا بھائی ہے جسے تین دیگر افراد کے ساتھ مقامی مولوی کے قتل میں ملوث کیا گیا اور اس کا مقدمہ عدالت میں زیر سماعت ہے ۔
اڑسٹھ سالہ صوفی محمد اسحاق سابقہ ملازم وزارت خارجہ اپنے آبائی شہر کے رہائشی پیر افضل شاہ کا جوانی میں مرید ہوگیا تھا۔1979 میں اسحاق کی پوسٹنگ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر ز نیویارک میں ہوئی ۔ امریکہ میں قیام کے دوران اسحاق نے پاکستانی نژاد امریکی عورت سے شادی کرکے مستقل وہیں رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔اسحاق نے امریکہ میں اسلامی سنٹر قائم کیا ۔ اس کے قائم کردہ سنٹر کا فوکس صوفی ازم اور صوفیا کی تعلیمات تھیں۔
امریکہ میں قیام پذیر ہونے کے باوجود اسحاق نے اپنے شہر تلہ گنگ میں موجود اپنے پیر کی درگاہ سے اپنی تعلق قائم رکھا جس کا اسے متولی بھی بنادیا گیا تھا ۔وہ باقاعدگی سے ہر سال امریکہ سے تلہ گنگ آ کر اپنے مرشد کے عرس میں شریک ہوتاتھا۔ صوفی اسحاق اس حسد اور کینے سے لا علم تھا جو اس کے مخالفین مقامی افراد کے دلوں میں اس کے خلاف ابھار رہے تھے ۔
اس حسد اور کینے کے پس پشت پیر افضل شاہ کی فیملی کے افراد تھے جو صوفی اسحاق کی پیر افضل شاہ کے مریدوں اور مقامی آبادی میں مقبولیت سے خوف زدہ تھے۔ پیر افضل شاہ کی فیملی ہی کیا کم تھی کہ اسے مقامی مولویوں کا دست تعاون بھی حاصل ہوگیا ۔ مولویوں کو صوفی اسحاق کی سرگرمیاں ’شرک اور بدعت‘ نظر آتی تھیں ۔ وہ قوالی اور دھمال کو ’خلاف شریعت‘ سمجھتے تھے اور ان’ غیر شرعی‘ کا ذمہ دار صوفی اسحاق کو سمجھتے تھے۔
جولائی 2009 میں صوفی اسحاق پیر افضل شاہ کے سالانہ عرس میں شرکت کے لئے تلہ گنگ آیا۔عرس کی تقریبات میں شرکت کے لئے جب صوفی اسحاق مزار پر آیا تو اس کے مریدوں نے اپنے مخصوص انداز میں اس سے اظہار عقیدت کیا ۔ سلفی مولویوں کو صوفی اسحاق کے مریدوں کی عقیدت کے یہ انداز ’غیر شرعی اور بدعت ‘ لگتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے صوفی اسحاق کے خلاف پراپیگنڈا مہم شروع کردی ۔
صوفی اسحاق کو راستے سے ہٹانے کا یہ بہترین موقع تھا۔انھوں نے یہ الزام لگادیا کہ صوفی اسحاق خود کو ’مقدس ہستی ‘ کے طور پر پیش کرتا ہے۔ شہر میں صوفی اسحاق کے خلاف جلوسوں کا سلسلہ شروع کیا گیا جن میں صوفی اسحاق کو ’مرتد‘ ’توہین رسالت کا مرتکب‘ اور ’کافر‘ تک کہا گیا تھا ۔ جمعہ کے خطبات میں مولویوں نے صوفی اسحاق کو قابل گردن زدنی قرار دیا ۔
اسحاق کو توہین مذہب کے الزام میں گر فتار کر لیا گیا ۔ چکوال کے جج نے اس مقدمہ کا فیصلہ کرنے سے انکار کردیا اور ہائی کورٹ سے درخواست کی کہ مقدمہ کسی اور ضلع میں منتقل کر دیا جائے۔ 2012میں جہلم کے ایک جج نے صوفی اسحاق کو سزائے موت سنادی ۔فروری 2012میں صوفی اسحاق کے وکیل نے لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی بنچ میں اس سزا کے خلاف اپیل دائر کی ۔
اس سال24 فرروی کو ہائی کورٹ کے ڈویژن بنچ نے صوفی اسحاق کو بے گنا ہ کہتے ہوئے بری کرنے کا حکم دے دیا ۔ ’’میں آٹھ سال تک جیل میں سٹرتا رہا ‘۔ صوفی اسحاق کہتا ہے۔ وہ اب تلہ گنگ نہیں جاسکتا ۔وہ اپنے شہر سے بہت دور رہنے پر مجبور ہے۔’پاکستان میں مذہب کو یرغمال کر لیا گیا ہے‘۔
دونوں مقدموں کے پس پشت محرکات اور عدالتی کاروائی سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کے قوانین کس طرح ذاتی اور گروہی انتقام کے لئے استعمال کیے جاتے ہیں ۔ایک رپورٹ کے مطابق توہین مذہب کے الزام میں چالیس فی صد افراد کو سزائے موت یا عمر قید ہوچکی ہے اور اب تک 65 افراد ماورائے عدالت قتل ہوچکے ہیں۔
ترجمہ: لیاقت علی
بشکریہ روزنامہ’ ڈان‘ 25اپریل 2017